افسوس تمہیں کار کے شیشے کا ہوا ہے

افسوس تمہیں کار کے شیشے کا ہوا ہے
پروا نہیں اک ماں کا جو دل ٹوٹ گیا ہے


ہوتا ہے اثر تم پہ کہاں نالۂ غم کا
برہم جو ہوئی بزم طرب اس کا گلا ہے


فرعون بھی نمرود بھی گزرے ہیں جہاں میں
رہتا ہے یہاں کون یہاں کون رہا ہے


تم ظلم کہاں تک تہ افلاک کرو گے
یہ بات نہ بھولو کہ ہمارا بھی خدا ہے


آزادئ انساں کے وہیں پھول کھلیں گے
جس جا پہ ظہیر آج ترا خون گرا ہے


تا چند رہے گی یہ شب غم کی سیاہی
رستہ کوئی سورج کا کہیں روک سکا ہے


تو آج کا شاعر ہے تو کر میری طرح بات
جیسے مرے ہونٹوں پہ مرے دل کی صدا ہے