افسانے میں کہانی پن کا مسئلہ

اگر کسی افسانے میں کہانی پن ہو تو کیا وہ افسانہ دلچسپ ہوجاتا ہے؟ اگر اس سوال کا جواب ’’ہاں‘‘ ہے، تو کہانی پن اور دلچسپی ایک ہی شے کے دو نام ٹھہرتے ہیں۔ یا اگر وہ ایک ہی شے نہیں تو لازم اور ملزوم ضرور بن جاتے ہیں۔ اگر اس سوال کا جواب ’’نہیں‘‘ میں ہے تو یہ کہنا ممکن ہو جاتا ہے کہ افسانہ کہانی پن کے باوجود غیر دلچسپ ہو سکتا ہے۔ اس کی دوسری شکل یہ بھی ہے کہ افسانہ غیر دلچسپ بھی ہو سکتا ہے، یعنی دلچسپ ہونا افسانے کی شرط نہیں ہے۔ اس کی تیسری شکل یہ ہے کہ ضروری نہیں کہ ہر دلچسپ چیز افسانہ ہو۔ یہ تمام مقدمات اس لئے بن سکے ہیں کہ ہمارے پہلے سوال، کہ اگر کسی افسانے میں کہانی پن ہو تو کیا وہ افسانہ دلچسپ ہو جاتا ہے، اس کا جواب نفی میں دیا گیا ہے، لیکن کیا نفی میں جواب ممکن ہے؟


اس آخری سوال پر غور کرنے سے پہلے چند باتوں کا حتی الامکان تصفیہ ضروری ہے۔ مثلاً یہ ضروری ہے کہ ’’افسانہ‘‘، ’’کہانی پن‘‘ اور ’’دلچسپ‘‘ ان اصطلاحات کی تعریف متعین کر لی جائے۔ آسانی کے لئے ’’افسانہ‘‘ کو Fiction کے معنی میں رکھیے۔ کیوں کہ ناول اور افسانہ تخلیقی اور اظہاری اعتبار سے ایک ہی صنف ہیں اور اگر فکشن کی تعریف یا حدبندی ہو سکے تو ہم اسے ناول اور افسانہ دونوں کے لئے کام میں لا سکیں گے۔ فکشن کے بارے میں سب سے آسان بات یہ ہے کہ فکشن ان تمام طرح کے افسانوں سے الگ ہوتا ہے جن کا تعلق کم و بیش زبانی بیان سے ہے۔ لہٰذا داستان، عوامی کہانیاں، Fables، بچوں کی کہانیاں، Fairy Tales، یہ فکشن نہیں ہیں۔


محض اس وجہ سے نہیں کہ اصلاً ان کا تعلق زبانی بیان سے ہے، کیوں کہ بہت سی داستانیں وغیرہ لکھی بھی گئی ہیں، یا انہیں زبانی سن کر لکھا جا سکتا ہے، بلکہ اس وجہ سے زبانی بیان کی تکنیک، اس کے فنی تقاضے اور ایک حد تک اس کی جمالیات، جس طرح کی ہوتی ہے وہ ان تحریروں میں نظر نہیں آتی جنہیں ناول یا افسانہ کہا جاتا ہے۔ اسی طرح اردو، ہندی کے وہ قصے کہانیاں جو داستانی طرز کے ہیں، اگرچہ وہ کبھی سنائے نہیں گئے بلکہ چھپ کر مقبول ہوئے، مثلاً حاتم طائی، چار درویش، طوطا مینا وغیرہ، وہ بھی فکشن نہیں ہیں۔ تمثیل یعنی Allegory بھی فکشن نہیں۔


تمثیل کا معاملہ ذرا ٹیڑھا ہے، کیوں کہ داستان، قصہ، کہانی، Fairy Tales, Fable غیرہ کی حد تک تو ہم بہ آسانی کہہ سکتے ہیں کہ وہ اس لئے فکشن نہیں ہیں کہ انہیں زبانی بیان کی تکنیک میں لکھا، یا بیان کیا جاتا ہے اور زبانی بیان والی افسانوی تحریر ایک الگ ہی صنف ہے۔ لیکن تمثیل کو فکشن کیوں نہ کہا جائے؟ اس کے دو تین جواب ممکن ہیں۔ ایک تو بہت ہی آسان ہے کہ اگرچہ تمثیل زیادہ تر لکھی ہی جاتی ہے، زبانی سنائی نہیں جاتی، لیکن اس کا تاثر زبانی بیان کا سا ہوتا ہے۔ لیکن یہ بات ہمیں بہت دور نہیں لے جاتی، کیوں کہ تاثر کی حد تک بہت سے جدید افسانوں میں تمثیلی عنصر تلاش کرنا مشکل نہیں۔


دوسرا جواب یہ ممکن ہے کہ تمثیل، فکشن کے برعکس کرداروں کو انسانوں کی طرح نہیں بلکہ Idea کی طرح پیش کرتی ہے۔ تمثیل میں جن لوگوں کا ذکر رہتا ہے وہ محض خیالات کی نمائندگی کرتے ہیں۔ جسم ایک مملکت ہے، دل جس کا بادشاہ ہے، آنکھیں جس کی نگہبان ہیں، ہاتھ جس کے محافظ ہیں وغیرہ۔ یہ پڑھتے وقت ہم جان لیتے ہیں کہ جسم کسی شہر یا ملک کا نام نہیں، دل کسی شخص کا نام نہیں۔ آنکھیں اور ہاتھ اس طرح کے نگہبان اور محافظ نہیں جس طرح کے نگہبان اور محافظ ہم بادشاہوں یا حکومتوں کے پاس دیکھتے ہیں۔


یہ جواب بڑی حد تک درست ہے، لیکن اس میں کوئی کلام نہیں کہ اس طرح کی تمثیل میں بھی جسم، دل، آنکھیں، ہاتھ وغیرہ ایک Anthropomorphic حقیقت اختیار کر لیتے ہیں اور ہمیں ان سے اس قسم کی ہمدردی، وحشت، خوف، محبت وغیرہ ہو سکتی ہے جیسی فکشن کے کرداروں سے ہوتی ہے۔ لہٰذا خیالات کی نمائندگی کرنے والے کردار تمثیل کی خاصیت تو ہیں، لیکن ان کرداروں میں بھی انسانی عنصر در آتے ہیں۔


پھر تیسرا جواب یہ ممکن ہے کہ تمثیل ظاہر اور بین طور پر کسی بات کو ثابت یا رد کرنے کے لئے لکھی جاتی ہے، جب کہ فکشن کے ساتھ یہ معاملہ نہیں ہے۔ یہ جواب بالکل درست ہے اور ان تینوں جوابات کی روشنی میں ہم تمثیل کو فکشن سے الگ کر سکتے ہیں۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ ابھی تک ہم تمثیل کے لئے کوئی ایسا اصول نہیں وضع کر سکے ہیں جو بذاتہ تمثیل سے مختص ہو۔ ہم صرف یہ کہتے رہے ہیں کہ تمثیل میں یہ ہوتا ہے، یہ ہوتا ہے اور فکشن میں یہ نہیں ہوتا، یہ نہیں ہوتا۔ لیکن یہ تو محض ان اصناف کی مظہریات (Phenomenology) ہوئی، اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ تمام تمثیلیں اور تمام فکشن ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ایسا ہوتا ہے، یا ایسا نہیں ہوتا۔


ممکن ہے کل کوئی تمثیل ایسی لکھ دی جائے جو فکشن کی طرح کسی بات کورد یا ثابت کرنے کے لئے ظاہر اور بین طور پر نہ استعمال ہو سکتی ہو۔ خیر اس کا جواب یہ ممکن ہے کہ بات کو رد یا ثابت کرنے کے لئے تو نہیں لیکن بات کو ظاہر کرنے کے لئے یعنی اسے پردے میں رکھ کر بیان کرنے کے لئے ایک اور صنف موجود ہے جسے Parable کہتے ہیں۔ اس کے لئے اردو میں کوئی موزوں لفظ نہیں ہے، لیکن حضرت عیسیٰ سے لے کر کافکا تک Parables کا ایک طویل سلسلہ موجود ہے جس کے ذریعے ہم اس صنف کو پہچان سکتے ہیں۔ فی الحال ہم Parable کو ’’تمثیلی کہانی‘‘ کہہ کر کام چلا سکتے ہیں۔


اس طرح ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ افسانوی تحریر جو کسی بات کو پردے میں رکھ کر بیان کرنے کے لئے لکھی جائے Parable کہلائےگی اور وہ تحریر جس میں کسی بات کو ثابت یا رد کرنا ہو تمثیل یعنی Allegory کہلائے گی اور اگر کوئی تمثیل ایسی لکھی جائے جس کے ذریعے کوئی بات پردے میں رکھ کر بیان ہو یا کوئی بات بین طور پر رد یا ثابت نہ ہوتی ہو اسے فکشن کے زمرے میں لانا غلط نہ ہوگا۔ یعنی Parable کی صنف کا موجود ہونا ہمیں اطمینان دلاتا ہے کہ تمثیل کا تفاعل ہر طرح متعین ہے اور اسے اس کا وصف ذاتی کہہ سکتے ہیں۔ جب تمثیل کا رجحان فکشن کی طرف ہوتا ہے تو وہ Parable بن جاتی ہے۔


لہٰذا فکشن وہ تحریر ہے جس میں (۱) زبانی بیان کا عنصر یا تو بالکل نہ ہو یا بہت کم ہو، (۲) جس کے ذریعے کسی بات کو بین طور پر ثابت یا رد نہ کیا جاتا ہو اور (۳) جس کے کرداروں میں کوئی ایسی بات ہو جس کی بنا پر ہم ان سے انسانی جذبات کے دائرے میں رہ کر معاملہ کر سکیں۔ پھر بیان سے کیا مراد ہے؟ کیا بیان ہی فکشن کا کہانی پن ہے؟ یا کہانی پن وہ وسیلہ ہے جس سے بیان وجود میں آتا ہے؟ ظاہر ہے کہ بیان کو فکشن کا کہانی پن نہیں کہہ سکتے، کیوں کہ بیان میں کہانی شامل ہوتی بھی ہے اور نہیں بھی ہوتی۔ اسی طرح یہ بھی ظاہر ہے کہ کہانی پن وہ وسیلہ نہیں جس کے ذریعے بیان وجود میں آتا ہے، کیوں کہ بیان کل ہے اور کہانی جزو۔


یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ بیان وہ وسیلہ ہے جس سے کہانی وجود میں آ سکتی ہے۔ لیکن آخر بیان ہے کیا؟ والٹر اسکاٹ (Walter Scott) کے ناولوں کا تصور کیجئے جن میں مناظر فطرت، علی الخصوص جنگل اور پہاڑ کا بیان تیس تیس صفحوں پر پھیلا ہوا ہے۔ اور آگے جائیے تو ہارڈی کے ناولوں، خاص کر The Return of the Nativeکا پہلا طویل باب محض اس نیم جنگلی خطۂ زمین کا بیان ہے جسے ہارڈی نے Egdon Heath کا نام دیا ہے، اور آگے دیکھئے تو فلوبیئر (Flaubert) نے معمولی معمولی مناظر مثلاً رات کے وقت ڈرائنگ روم کو بیان کرنے میں اور Jules Romains نے اپنے ناول The Body’s Raptureمیں مرکزی کردار کے ریل کی پٹری کو پار کرنے کو بیان کرنے میں صفحات کے صفحات صرف کر دیے ہیں۔ دستہ ئف سکی (Dostoevsky) کا Raskolnikov اپنے اقدام قتل کی توجیہ اور فلسفیانہ اساس قائم کرنے کے لئے ہزارہا الفاظ خرچ کرتا ہے۔ ایسی مثالیں بےشمار ہیں۔ یہ سب بیانیہ ہے۔ لیکن کہانی نہیں ہے، اگرچہ کہانی کا جزو ہے۔


بیانیہ وہ گاڑی ہے جس پر کردار اور واقعات سفر کرتے ہیں۔ مناظر اور لینڈ اسکیپ بھی اسی کی کھڑکی سے دکھائی دیتے ہیں۔ ہر وہ تحریر بیانیہ ہے جس میں واقعے اور کردار کے انعقاد کا امکان ہو۔ اس بات سے غرض نہیں کہ کسی مقررہ تحریر میں کوئی واقعہ یا کردار منعقد ہوا بھی ہے کہ نہیں۔ بس امکان کا وجود کافی ہے۔ واقعے سے مراد ہے کوئی وقوعہ، کوئی حادثہ، یا کوئی سانحہ اور کردار سے مراد ہے کوئی انسان، یا کوئی بھی ہستی جسے ہم ذی روح فرض کر سکتے ہوں یا ذی روح جانتے ہوں اور جس سے دوچار ہونے پر ہم اس سے انسانی جذبات پر مبنی معاملہ کر سکیں۔


یعنی ہمیں اس سے ہمدردی، نفرت، الجھن، محبت وغیرہ ہو سکتی ہو۔ ایسی صورت میں جانور، پھول، بھوت، پتھر، کان کوئی بھی چیز کردار کا کام کر سکتی ہے۔ لیکن عام طور پر کردار سے انسانی کردار مراد لیا جاتا ہے، کیوں کہ غیرانسانی کرداروں میں اتنی پیچیدگی اور بوقلمونی کا امکان نہیں کہ ان کے تعلق سے انسانی جذبات کے جس دائرے میں ہم داخل ہوں وہ کم سے کم اتنا شدید یا وسیع ہو کہ اس پر حقیقی جذباتی دائرے کا اطلاق یا احتمال ہو سکے۔


کہانی عام طورپر کردار اور واقعے کے آپسی تعامل (interaction) سے وجود میں آتی ہے۔ لیکن یہ ممکن ہے کہ اس آپسی تعامل (interaction) میں کردار کا عمل دخل بہت کم ہو اور واقعہ اس قدر پیش منظر میں ہو کہ کردار ہمیں غیر اہم معلوم ہونے لگے۔ یا یہ کہ واقعے کا عمل دخل بہت کم ہو اور کردار اس قدر پیش منظر میں ہو کہ واقعے کی اہمیت کم ہو جائے یا محسوس نہ ہو۔ یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ دونوں میں یہ آپسی تعامل (interaction) ایک رسہ کشی کی سی کیفیت پیدا کرے، کبھی کردار حاوی ہو تو کبھی واقعہ حاوی ہو۔ وہ تمام فکشن جس میں واقعہ بیش از بیش حاوی ہوتا ہے، اس کے ذریعہ قاری کے ذہن میں کہانی پن کی صورت نہ پیدا ہو تو اسے محسوس ہوتا ہے کہ اس نے افسانہ تو پڑھا لیکن کہانی نہیں پڑھی۔ ایسی صورت میں افسانہ اس کے ذہن میں مضمون یعنی انشائیہ یا اظہار خیال یا Essay کی شکل میں ظہور پذیر ہوتا ہے۔


قاری افسانہ پڑھنے سے کب انکار نہیں کرتا، یا قاری کے ذہن میں افسانہ کب افسانے کی شکل میں ظہور پذیر ہوتا ہے، مضمون یا انشائیے کی شکل میں نہیں؟ اس کا جواب عام طور پر یہ دیا گیا ہے کہ اگر افسانہ قاری کو یہ سوال پوچھنے پر مجبور کرے کہ ’’پھر کیا ہوا‘‘ یا’’اس کے بعد کیا ہوا؟‘‘ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ افسانے میں کہانی پن ہے۔ یہ بھی فرض کیا گیا ہے کہ ’’پھر کیا ہوا؟‘‘، ’’اس کے بعد کیا ہوا؟‘‘ جیسے سوالات اٹھنے کا مطلب یہ ہے کہ افسانے کی کہانی کو سیدھی سیدھی لکیر کی ترتیب سے چلنا چاہیے اور قاری کا یہ سوالات پوچھنے پر مجبور ہوناکہ ’’پھر کیا ہوا؟ ’’، ’’اس کے بعد کیا ہوا؟‘‘ قاری کی دلچسپی کی دلیل ہے۔ لہٰذا کہانی پن اور دلچسپی ایک ہی شے ہیں، اس معنی میں کہ دلچسپی دراصل کہانی پن کا تفاعل ہے۔


لیکن افسانے کی تاریخ کا مطالعہ ہمیں بتاتا ہے کہ معاملہ اتنا آسان نہیں ہے۔ میں پہلے عرض کر چکا ہوں کہ فکشن اور غیرفکشن (یعنی بیانیہ فن کے حامل غیرفکشن) میں بنیادی فرق یہ ہے کہ غیرفکشن بیانیہ زبانی بیان کے حوالے سے قائم ہوتا ہے اور اس کا کام کسی چیز کو بین طور پر رد یا ثابت کرنا ہوتا ہے۔ زبانی بیانیہ اور بین طور پر کسی چیز کو رد یا ثابت کرنا، دونوں کارگزاریوں کو منعقد ہونے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ سننے والا یا پڑھنے والا مختلف واقعات میں ظاہری ربط فوراً دیکھ سکے اور ایک واقعہ دوسرے کی طرف اشارہ کرے، یا ایک واقعہ دوسرے کا پیش خیمہ یا دیباچہ ہو، یا ایک واقعے سے دوسرے کا آغاز ہو سکے۔


اگر فکشن کا مقصد کسی بات کو رد یا ثابت کرنا نہیں، بلکہ کسی بات کو ظاہر کرنا ہے تو اس کے لئے ’’پھر کیا ہوا؟‘‘ اور ’’اس کے بعد کیا ہوا؟‘‘ جیسے سوالات ضروری نہیں ہوتے۔ جو لوگ یہ سوالات پوچھتے ہیں یا توقع کرتے ہیں کہ افسانہ نگار انہیں یہ سوال پوچھنے پر مجبور کرےگا یا اکسائےگا، وہ دراصل فکشن کی اصلیت سے ناواقف ہوتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ فکشن کے حوالے سے یہ سوالات پوچھنا ممکن یا مناسب نہیں ہے۔ حقیقت صرف یہ ہے کہ ان کے علاوہ اور بھی سوالات ہو سکتے ہیں اور ہیں جو فکشن کے حوالے سے پوچھے جا سکتے ہیں مثلاً،


(۱) اس وقت کیا ہو رہا ہے؟
(۲) اس کے بعد کیا ہونے والا ہے؟
(۳) اس کے بعد کیا ہونا ممکن ہے؟
(۴) اس واقعے کا یا ان واقعات کا انجام کیا ہوگا؟
(۵) اس واقعے کا یا ان واقعات کا انجام کس طرح ظہور پذیر ہوگا؟
(۶) جو واقعہ ابھی ابھی پیش آیا یا پیش آرہا ہے اس کا تعلق افسانے سے کیا ہے؟


مندرجہ بالا سوالات یا ان میں سے کسی سوال کا اٹھنا اس بات کی دلیل ہے کہ قاری اور افسانے کے درمیان کوئی رشتہ قائم ہو گیا ہے اور جب رشتہ قائم ہو گیا تو وہ رشتہ ہی قاری اور افسانے کو آپس میں باندھنے کے لئے دھاگے کا کام کرےگا۔ اس رشتے کو دلچسپی کا رشتہ کہہ سکتے ہیں لیکن دلچسپی ایک ایسی صورت حال ہے جو ’’پھر کیا ہوا؟‘‘ ، ’’اس کے بعد کیا ہوا؟‘‘ اور مندرجہ بالا سات میں سے کسی بھی سوال کے اٹھنے کے باوجود معدوم رہ سکتی ہے۔ کیونکہ دلچسپی کا تعلق بنیادی طور پر اس بات سے ہے کہ قاری اور افسانے کے درمیان فکر اور تامل (Care) کا تعلق قائم ہوا ہے کہ نہیں۔ یعنی افسانے میں پیش آنے والے واقعات، یا وہ کردار جن پر واقعات گزر رہے ہیں، اگر قاری کو فکر میں مبتلا نہیں کرتے، اگر وہ ان کے حال اور مستقبل کے بارے میں فکرمند نہیں ہے تو وہ ’’پھر کیا ہوا؟‘‘ کا جواب یہ دےگا کہ ’’مجھ سے کیا مطلب؟‘‘ ، ’’مجھے کیا فکر ہے؟‘‘ یعنی، I couldn’t care less


مثال کے طور پر جاسوسی ناولوں یا عام سطح پر مقبول ناولوں، مثلاً گلشن نندہ کے ناولوں کو لیجئے۔ ان میں واقعات کا آپسی ربط معمول سے زیادہ ہوتا ہے لیکن ان میں وہ دلچسپی بالکل نہیں ہوتی جو کسی ادبی فکشن میں ہوتی ہے، بلکہ افسانے کے جس قاری کے حوالے سے ہم کہانی کے آگے بڑھنے یا کہانی کے بارے میں فکر مند ہونے کا مسئلہ اٹھا رہے ہیں، وہ سیدھی لکیر میں بڑھنے والے، قدم قدم پر ’’پھر کیا ہوا؟‘‘ پوچھنے پر مجبور کر دینے والے افسانے کو اکثر غیردلچسپ کر دیتا ہے۔


اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسا افسانہ اسے فکر مند نہیں کرتا۔ یعنی اس کے کردار و واقعات اور قاری کے درمیان انسانی لگاؤ کا رشتہ نہیں قائم ہوتا۔ انسانی لگاؤ کا رشتہ دلچسپی کے رشتے سے ماورا اور زیادہ قوت مند ہوتا ہے۔ دوسری قسم کا لگاؤ جو افسانہ نگار قائم کرتا ہے وہ ان سوالوں کے ذریعے قائم ہوتا ہے جن کا تعلق افسانے کے فن سے ہے۔ یعنی وہ سوالات جو میری فہرست میں نمبر۴، نمبر۵، نمبر۶، اور نمبر ۷ پر ہیں۔


افسانہ گوئی، افسانہ نگاری جب ایک انسانی عمل ہے اور افسانہ ایک انسانی صناعت (artifact) ہے اور اس میں ایک مخصوص فن کا اظہار ہوتا ہے جس کا اصل تفاعل بیانیہ کے ذریعے کسی بات کو ظاہر کرنا ہے، تو ظاہر ہے اس میں قاری کو ایک انسانی لگاؤ ضرور پیدا ہوگا۔ یعنی یہ کہ آخر اس افسانے اور اس واقعے میں کیا تعلق ہے؟ یہ واقعات ہمیں کہاں لے جا رہے ہیں؟ اس افسانے کو کس طرح ختم کیا جا سکتا ہے؟ اس صورت حال کا انجام کیا ہوگا؟


انسانی لگاؤ کی آخری اور سب سے زیادہ عام شکل اس سوال کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے جو میری فہرست میں نمبر ایک پر ہے۔ یعنی ’’اس وقت کیا ہو رہا ہے؟‘‘ اس سوال کی معنویت اس وقت ظاہر ہوگی جب ہم دلچسپی کو تجسس کا مرادف نہ سمجھیں۔ افسانے کی تنقید اور نئے افسانے کے مطالعے میں غلط مبحث اس لئے پیدا ہوا ہے کہ لوگ تجسس اور دلچسپی کو ایک ہی چیز سمجھتے ہیں۔ در اصل دلچسپی جو کہانی پن کا تفاعل ہے، فکر مندی اور لگاؤ کے ذریعے ظاہر ہوتی ہے۔ ہوائی جہاز کو رن وے (run way) پر دوڑتے ہوئے دیکھ کر ہم اس لئے نہیں رک جاتے کہ ہمیں تجسس ہوتا ہے کہ اب کیا ہونے والا ہے، بلکہ اس لئے کہ ہمیں اس منظر ہی سے ایک لگاؤ ہے۔


ہم یہ تو جانتے ہی ہیں کہ جہاز پوری رفتار پر آکر اچانک ہوا میں بلند ہو جائےگا۔ لیکن پھر بھی ہم اس منظر کو دیکھنے کے لئے رکے رہتے ہیں، کیوں کہ ہمیں اس سے ایک انسانی لگاؤ ہے جو ہماری فکر مندی کی علامت ہے۔ لہٰذا افسانے میں کہانی پن کامسئلہ یہ نہیں ہے کہ افسانہ دلچسپ یا تجسس انگیز کیوں نہیں ہے بلکہ یہ کہ ہم میں انسانی لگاؤ اور فکر مندی کیوں کم ہے، یا افسانہ ہمارے اس لگاؤ اور فکر مندی کو برانگیخت کیوں نہیں کرتا؟


زمانۂ قدیم سے لے کر اب تک پڑھنے اور سننے والے اس بات پر متفق معلوم ہوتے ہیں کہ پلاٹ کا تنوع اتنا اہم نہیں ہے جتنا واقعات کا تنوع اہم ہے۔ قصوں اور کہانیوں کے پلاٹ عام طور پر فارمولے کی شکل میں بیان کئے جا سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں روسی اور پولستانی کہانیوں اور قصوں پر جو کام کیا گیا ہے، اس کی روشنی میں تقریباً کسی بھی ملک یا زبان کے قصے کہانیوں کا فارمولا دریافت کیا جا سکتا ہے۔ ناولوں اور افسانوں کے پلاٹ بھی فارمولے میں ڈھالے جا سکتے ہیں۔


لیکن اس فرق کے ساتھ کہ اگر قصہ کہانیوں کے لئے ایک فارمولے سے کام چل سکتا ہے تو ناولوں اور افسانوں کے لئے متعدد فارمولوں کی ضرورت ہوگی۔ پھر بھی، افسانوں اور ناولوں کے مجموعی فارمولوں کی تعداد دس بارہ سے متجاوز شاید نہ ہو۔ ارسطو کو بھی اس حقیقت ا حساس رہا ہوگا، کیوں کہ اس نے پلاٹ اور ’’منظر‘‘ میں فرق کیا ہے۔ سافکلیز (Sophocles) کے ڈرامے ’’آئی فی جنیا‘‘ (Iphigenia in Tauris) کے پلاٹ کا خلاصہ چند لفظوں میں بیان کرکے وہ کہتا ہے، ’’پلاٹ کا عطر صرف اتنا ہے، باقی سب منظر ہی منظر ہیں۔‘‘


پلاٹ کے تنوع سے زیادہ واقعات کا تنوع اہم ہے، اس اصول کی کارفرمائی اس مشہور لطیفے میں بھی ملتی ہے جس میں ایک مولوی صاحب کو حضرت یوسف کا قصہ بیان کرنے کو کہا گیا۔ مولوی صاحب کو کھانے کی جلدی تھی، اس لئے انہوں نے ’’پدرے بود، پسرے داشت۔ گم کرد، بازیافت۔‘‘ کہہ کر قصہ پاک کر دیا اور کھانے پر حملہ آور ہو گئے۔ ان اصولی باتوں کی روشنی میں دیکھئے تو نئے افسانوں پر یہ الزام لگانا کچھ درست نہیں معلوم ہوتا کہ وہ اس لئے دلچسپ نہیں ہیں کہ ان سب کے پلاٹ ایک ہی طرح کے ہوتے ہیں، کیوں کہ ان کے پلاٹ اگر ایک ہی طرح کے ہوں بھی، تو ان میں واقعات (ارسطو کی زبان میں ’’مناظر‘‘) کی کثرت ہے۔


اور اگر مناظر کی کثرت ہے تو ’’کہانی پن‘‘ بھی ہوگا، اور کہانی پن ہوگا تو (جیسا کہ عام خیال ہے) تو افسانے دلچسپ بھی ہوں گے۔ اگر اس کے باوجود یہ افسانے دلچسپ نہیں معلوم ہوتے تو اس کی وجہ کہانی پن کی کمی نہیں، بلکہ کچھ اور ہوگی۔ اس’’کچھ اور‘‘ کو میں نے اوپر یہ کہہ کر ظاہر کیا ہے کہ وہ افسانے جو ہمیں انسانی سطح پر متوجہ نہیں کرتے، غیردلچسپ معلوم ہو سکتے ہیں۔


افسانے کے نظریہ سازوں کو اس بات کا احساس تھا۔ چنانچہ ارسطو کے علی الرغم (جس نے پلاٹ کو مرکزی اہمیت دی تھی) ہنری جیمس (Henry James) نے کردار کو پلاٹ پر مقدم رکھا۔ اس نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ پلاٹ ہے ہی کیا، وہ محض کرداروں کا باہم ردعمل ہے اور کردار ہیں ہی کیا، صرف پلاٹ (یعنی واقعات) کا ان کے ذریعے اظہار ہے۔ ای ایم فارسٹر (E. M. Forster) نے بھی کردار کو پلاٹ پر مقدم کیا ہے، اگرچہ وہ ہنری جیمس کی حد تک نہیں گیا ہے۔ لیکن ان دونوں نے پلاٹ کے مقابلے میں کردار کو (یعنی واقعات کی کثرت کے مقابلے میں کردار کی نفسیاتی اور ظاہری تصویروں میں تنوع کو) اہمیت اسی لئے دی ہے کہ انسانی توجہ کو برانگیخت کرنے کے لئے کردار جتنا کارآمد ہے، واقعہ اتنا کارآمد نہیں۔


کسی بڑے سے بڑے آتش فشاں پہاڑ کا پھٹ پڑنا، جس میں کوئی جانی نقصان نہ ہو، ہمیں اس حد تک متاثر نہیں کرتا جس حد تک ٹریفک کے ایک معمولی حادثے کا بیان ہمیں متاثر کر سکتا ہے، اگر اس میں کوئی انسان براہ راست متاثر ہوا ہو، خاص کر ایسا انسان جس سے ہمیں کوئی ذاتی تعلق تھا۔ جلدی جلدی بدلنے والے منظروں اور واقعات پر مشتمل افسانہ، جس میں مرکزی کردار جگہ جگہ گھومتا ہے اور واقعات سے دوچار ہوتا ہے (اس کو پکرسک Picaresque افسانہ کہتے ہیں۔)


وہ بھی اسی لئے ہمیں متاثر کرتا ہے کہ اس کا مرکزی کردار ہماری توجہ کا مرکز رہتا ہے اور ہمارا اس کا ایک ذاتی تعلق قائم ہو جاتا ہے۔ کرشن چندر نے ’’دو فرلانگ لمبی سڑک‘‘ میں اسی تکنیک کو جدید رنگ میں استعمال کیا ہے، اور ’’ایک گدھے کی سرگذشت‘‘ تمام و کمال پکرسک تکنیک میں ہے۔ دونوں تحریروں کی کامیابی اظہر من الشمس ہے۔ لہٰذا پلاٹ نہ ہونا (پلاٹ کا نسبتاً کم اہم ہونا) اور واقعات کی کثرت، دلچسپی کو مانع نہیں ہوتی، بشرطیکہ واقعات جن لوگوں پر گزر رہے ہیں ان سے ہمیں کسی قسم کا لگاؤ ہو۔


نئے افسانہ نگاروں کا مسئلہ یہ ہے کہ انہوں نے واقعات کی کثرت تو رکھی ہے، لیکن ان کے کرداروں کو انسانی سطح پر بہ مشکل ہی قبول کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے پلاٹ کو منہدم کرنے پر اس قدر توجہ صرف کی کہ وہ اس بات کو بھول گئے کہ واقعات کی کثرت فی نفسہ توجہ انگیز نہیں ہوتی (یعنی واقعات کی کثرت میں فی نفسہ کہانی پن نہیں ہوتا۔) وہ کہتے ہیں، اور بالکل درست کہتے ہیں، کہ تجسس پیدا کرنا، قاری کو یہ سوال پوچھنے پر مجبور کر دینا کہ ’’پھر کیا ہوا؟‘‘ یا ’’اب کیا ہوگا؟‘‘ ہمارا کام نہیں۔ ان کا یہ کہنا بھی درست ہے کہ ان چیزوں کے بغیر بھی افسانے میں ’’کہانی پن‘‘ ہو سکتا ہے۔ لیکن ان سے غلطی یہ ہوئی کہ انہوں نے تجسس کی عدم موجودگی سے پیدا ہونے والے خلا کو بھرنے کے لئے مناسب کارروائی نہیں کی ہے۔


مثال کے طور پر مزاحیہ تحریروں کو لیجئے۔ ان کی دو قسمیں ہیں۔ ایک تو وہ (جیسے شوکت تھانوی کا’’سودیشی ریل‘‘ اور پطرس کا ’’سویرے جو کل آنکھ میری کھلی‘‘ ) جن کے دلچسپ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہم کو یہ تجسس رہتا ہے کہ اب کیا ہوگا۔ (امتیاز علی تاج کے ’’چچا چھکن‘‘ والے ’’افسانوں‘‘ کی بھی یہی کیفیت ہے۔) لیکن مزاحیہ تحریروں کی ایک دوسری قسم بھی ہے۔ ان میں ہمارا تجسس بالکل کار فرما نہیں ہوتا۔ (مشتاق احمد یوسفی کی اکثر تحریریں اور مجتبیٰ حسین کے شخصیاتی خاکے اس زمرے میں ہیں۔) لیکن یہ تحریریں بھی دلچسپ ہیں، کیوں کہ ان میں تجسس کی عدم موجودگی سے پیدا ہونے والا خلا، لطیفوں، خندہ آور جملوں، چبھتے ہوئے فقروں وغیرہ سے پر کیا جاتا ہے۔


یہ تحریریں ہمارے لئے اس وجہ سے دلچسپ ہیں کہ ہم سوچتے ہیں، دیکھیں مضمون نگار اب کون سا نکتہ نکالتا ہے، اب کون شخص (یا صاحب خاکہ کی شخصیت کا کون سا پہلو) اس کی فقرے بازی کا ہدف بنتا ہے، اب کون سی بات میں سے کس طرح کی بات نکلتی ہے۔ اسی طرح، نئے افسانوں میں بھی قاری کسی نہ کسی نئے پہلو (چاہے وہ واقعات کا ہویا کردار کا) کا منتظر رہتا ہے۔ اگر اس کا انتظار کبھی پورا نہ ہو تو اسے مایوسی ہوتی ہے۔


واقعات کا نیاپن اس وقت تک ہی مؤثر ہوتا ہے جب تک وہ کردار، جن کے ذریعے یا جن کے اوپر وہ واقعات پیش آرہے ہیں، ہماری توجہ کو باندھ سکیں۔ عام خیال کے برعکس، فحش یا عریاں افسانے تھوڑی دیر کے بعد انتہائی غیر دلچسپ ہوجاتے ہیں، کیوں کہ بقول جارج اسٹائنر (George Steiner) وہی چونسٹھ یا بہتر آسن ہی تو ہیں جن کا ذکر ہیر پھیر کر کیا جاتا ہے۔ پھر ان میں دلچسپی برقرار رہے تو کیوں کر؟ ہندی والوں نے اپنے افسانے کو ’’بالغ‘‘ ، ’’جدید‘‘ اور ’’توجہ انگیز‘‘ بنانے کے لئے فحاشی کا سہارا لیا تھا، لیکن چند ہی دنوں میں دلچسپی کی قلعی اتر گئی اور لوگوں نے دیکھ لیا کہ واقعات میں ’’نیاپن‘‘ یا واقعات کی ’’کثرت‘‘ لامحالہ دلچسپی کی ضامن نہیں ہوتی۔


ہمارے افسانہ نگار، ہندی والوں سے زیادہ سمجھ دار ہیں، اس لئے انہوں نے یہ جھگڑا ہی نہیں پالا۔ (گندگی اور عفونت کو استعمال کرنے کی بعض کوششیں ہوئی ہیں۔ مثلاً احمد ہمیش اور قمر احسن کے بعض افسانوں میں۔ لیکن ان کوششوں کا بھی دائرہ مستحسن حد تک مختصر رہا ہے، یعنی احمد ہمیش یا قمر احسن کے چند ہی افسانے گندگی اور عفونت کو برتتے ہیں۔) لہٰذا اردو کا افسانہ نگار پوری ہوش مندی کے ساتھ اپنی تحریر کو دلچسپ بنانے کے لئے کوشاں رہا ہے، لیکن وہ جانتا ہے کہ تحریر کو دلچسپ بنانے کے ساتھ ساتھ اسے نیا بھی بنانا ہے۔ مشکل یہ ہے کہ نئے پن اور دلچسپی دونوں کے بہ یک وقت حصول کے لئے کردار نگاری کے مروجہ طریقوں سے انحراف کرنا پڑتا ہے اور نئے طریقے ابھی پوری طرح گرفت میں نہیں آئے ہیں۔ لیکن میں نئے افسانے سے مایوس ہرگز نہیں ہوں، بلکہ اس کا خیر مقدم کرتا ہوں، اس شکست وریخت کا بھی جو نئے کو پرانے سے الگ کرنے کے لئے اور بالآخر نئے کو قائم کرنے کے لئے ضروری ہے۔