افسانے میں بیانیہ اور کردار کی کشمکش

نئے افسانے کے بارے میں عام طور پر اس تشویش کا اظہار کیا جاتا ہے کہ اس کو روایت سے اللہ واسطے کا بیر ہے، اس میں روایت شکنی کا رجحان ہے، بلکہ اسے روایت شکنی کی بیماری ہے۔ اس میں بیانیہ کی روایتی خوبیاں نہیں ہیں، یا بہت کم ہیں۔ افسانے سے بیانیہ کے اخراج کا ذمہ دار جدیدیت کو ٹھہرایا گیا ہے یعنی جدیدیت کے جرائم کی فہرست میں بیانیہ کا قتل بھی شامل ہے۔ چنانچہ بعض حلقوں کی طرف سے جب افسانے کی موت کا اعلان ہوا تو اس کے کچھ دنوں بعد (یعنی تحقیق وتفتیش کی کارروائی پوری کرنے کے بعد) یہ بھی کہا گیا کہ جدیدیت نے افسانے کو چیستاں بناکر ان ہزاروں قارئین سے اسے چھین لیا تھا جو انسانی مسائل کے تخلیقی افسانوی اظہار کو افسانے کا افسوں جانتے تھے۔ (ڈاکٹر قمر رئیس)


اس بات سے قطع نظر کہ تخلیقی افسانوی اظہار کی اصطلاح میری سمجھ سے بالا تر ہے، اس بیان میں بنیادی بات یہ ہے کہ افسانے میں کسی قسم کا افسوں ہوتا ہے اور وہ افسوں اس وقت جاتا رہتا ہے جب افسانہ چیستاں بن جائے اور افسانہ چیستاں تب بنتا ہے جب افسانہ نگار کو افسانے کی روایت کا شعور نہ ہو۔ افسانے کی وہ روایت کیا تھی اور کہاں سے آئی تھی، اور اس کے بنیاد گذار کون تھے، ان سوالات سے ڈاکٹر قمر رئیس کو دلچسپی نہیں معلوم ہوتی۔ شاید اسی وجہ سے ان معاملات کے بارے میں ان کی معلومات بہت محدود اور سطحی ہیں۔ ان کے ذہن میں ایک صرف دھندلا سا تاثر ہے کہ افسانہ اگر کوئی صنف سخن ہے تو اس کی روایت بھی ہوگی۔ عمومی طور پر ’’افسانے کی روایت‘‘ کی اصطلاح سے وہ محض ایسے افسانے مراد لیتے ہیں جو انھوں نے بی۔ اے۔ (اردو) کے کورس میں پڑھے تھے۔


ڈاکٹر قمر رئیس آگے چل کر ایک نوجوان افسانہ نگار ابن کنول کے بارے میں فرماتے ہیں کہ انھوں نے افسانے کی بحالی میں نمایاں حصہ لیا ہے، کیونکہ اردو میں افسانے کی روایت کا شعور وہ اپنے ہم سنوں سے کچھ زیادہ ہی رکھتے ہیں۔ اس وقت میں ابن کنول کی افسانہ نگاری پر اظہار خیال نہ کروں گا۔ لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ اردو افسانے کی جس نام نہاد روایت کی پاسداری قمر رئیس صاحب اور ان کے ہم نواؤں یعنی ڈاکٹر محمد حسن اور ڈاکٹر محمد عقیل کی طرف سے ہو رہی ہے، وہ اردو افسانہ تو کیا، مغربی افسانے کی بھی قدیم اور مستحکم روایت نہیں ہے۔ یہ حضرات جس ’’روایت‘‘ کی بات کر رہے ہیں، اس کی عمر مشکل سے سو سال ہے اور اس کے آغاز کا سہرا امریکی ناول نگار ہنری جیمس کے سر ہے۔


ان حضرات کی نظر میں ’’روایت‘‘ سے مراد محض پریم چند اور ان کے فوراً بعد کا بیانیہ ہے۔ بیانیہ کے اس طرز میں کردار کو افضلیت حاصل ہے۔ یہ وہ بیانیہ ہے جو کردار کی داخلی زندگی کی وضاحت کی خاطر واقعے کو پس پشت ڈال دیتا ہے۔ اس بیانیہ کی رو سے واقعہ پیش ہی اس لیے کیا جاتا ہے کہ اس کے ذریعہ کردار کی نقاب کشائی ہو اور کردار کی نقاب کشائی اس لیے کی جائے کہ اس کے ذریعہ کرداروں کی آپس میں کشمکش اور خود ان کی داخلی زندگی اور تصورات وخیالات یعنی ا ن کے ذہنی وقوعوں mental events اور ذہنی آویزشوں mental conficts کو ظاہر کیا جا سکے۔


مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ واقعے کو کردار کا اظہار تصور کرنے کا یہ نظریہ بیانیہ کا روایتی نظریہ نہیں ہے اور سچ پوچھئے تو یہ نظریہ بڑی حد تک بیانیہ کی روح کا استحصال واستیصال کر دیتا ہے۔ اس کے برخلاف ہمارے نئے افسانے، جن میں کردار کی کوئی خاص اہمیت نہیں، بلکہ جن میں واقعہ ہی تقریباً سب کچھ ہوتا ہے، بیانیہ کی اصل روایت سے نزدیک تر ہیں۔ ملحوظ رہے کہ جب میں ’’نئے افسانے‘‘ کہتا ہوں تو میری مراد انتظار حسین کے افسانے نہیں، جن میں داستانی رنگ ہر ایک کو نظر آتا ہے۔ میری مراد آٹھویں اور نویں دہائی، یعنی ۱۹۷۰ء کی دہائی اور اس کے بعد کے افسانے ہیں جن میں باقاعدہ پلاٹ چاہے نہ بھی ہو، لیکن ان میں واقعے کی کثرت ہے۔


روایتی بیانیہ کی شان، واقعات کی کثرت ہے کردار نگاری نہیں، یہ بات اب اتنی عام ہو چکی ہے کہ افسانے کے ہمارے مرثیہ خواں حضرات اگر شولز (Robert Scholes) اور کلاگ (Robert Kellogg) کی ہی کتاب The Nature of Narrative پڑھ لیتے تو انھیں معلوم ہو جاتا کہ بیانیہ کی اصل روایت کیا ہے۔ ملاحظہ ہو،


’’کردار نگاری کا سب سے اہم عنصر وہی ہے جسے کردار کی داخلی زندگی کہتے ہیں۔ یہ عنصر جنتا کم ہوگا، فن پارے کی تعمیر میں دوسرے بیانیہ عناصر مثلاً پلاٹ، حالات کا بیان، دوسرے واقعات کے حوالے اور بدیعیات (Rhetoric) کا حصہ زیادہ ہوگا۔ کامیاب بیانیہ کے لیے ضروری نہیں ہے کہ اس میں (کرداروں کی) داخلی زندگی پر زور دیا جائے اور اسے تفصیل سے پیش کیا جائے۔ لیکن اسے اس کمی کو پورا کرنے کے لیے دوسرے عناصر کا استعمال کرنا ہوتا ہے، اگر اسے خود کو انسانی دلچسپی کی چیز کی حیثیت سے باقی رکھنا منظور ہو۔ یونانی داستانی قصوں میں یہ کمی پیچیدہ پلاٹ، محاکاتی بیان اور صنائع بدائع سے بھرپور بدیعیات سے پوری کی جاتی تھی، یہی حال سولہویں اور سترہویں صدی کے انگریز اور فرانسیسی داستانی قصہ گویوں کا ہے جو یونانیوں کے متبع تھے۔‘‘


اس بیان سے یہ بات صاف ظاہر ہو جاتی ہے کہ کردار اور واقعہ کے آپسی رد عمل اور کردار نگاری کے ذریعہ واقعات کے تانے بانے جوڑنا قدیم بیانیہ کی رسم نہیں۔ قدیم بیانیہ کی رسم تو یہ تھی کہ واقعات کی کثرت ہو۔ افسانے کو مؤثر اور قابل قبول بنانے کے لیے ایسی بدیعیات یعنی (Rhetoric) یعنی persuasive technique استعمال کی جائے جو بہت رنگین، اور صنائع بدائع سے بھرپور ہو۔ جس شخص نے ہماری داستانوں کا ایک صفحہ بھی پڑھا ہے وہ اس بات کو تسلیم کرےگا کہ شولز اور کلاگ کا بیان ہماری داستانوں (یعنی ہماری اصل بیانیہ روایت) پر حرف بہ حرف صادق آتا ہے۔


افسانے میں بدیعیات کا معاملہ بہت اہم اور دلچسپ ہے۔ جیساکہ میں نے ابھی کہا، بدیعیات سے مراد وہ طریقے ہیں جن کے ذریعہ افسانہ نگار اپنے واقعات کو قابل قبول بناتا ہے۔ ان طریقوں کے شعوری یا غیرشعوری ہونے سے بحث نہیں، بنیادی بات یہ ہے کہ یہ طریقے ہر افسانہ نگار کو استعمال کرنا ہوتے ہیں، چاہے وہ نام نہاد واقعیت نگار ہو یا تمثیل یا علامتی افسانہ نگار۔ مائر اسٹرن برگ Meir Sternberg نے ایک پوری کتاب اسی موضوع پر لکھی ہے۔


اس نے ایک ماہر نفسیات کا ایک تجربہ (experiment) نقل کیا ہے جس کی مختصر تفصیل حسب ذیل ہے۔ ایک عبارت ترتیب دی گئی جس میں ایک فرضی شخص مثلاً زید کے بارے میں بعض باتیں کہی گئیں۔ شروع میں جو باتیں کہی گئی تھیں، عبارت کے آخری حصے میں ان تمام باتوں کی بالکل الٹی باتیں کہی گئیں۔ مثلاً اگر شروع میں لکھا کہ زید بہت سخت دل اور کنجوس تھا تو بعد میں لکھا کہ وہ بہت نیک دل اور مخیر تھا۔ دونوں بیانات پر مبنی عبارتیں کئی لوگوں کو دی گئیں اور ان سے کہا گیا کہ ان کو جو عبارت دی گئی ہے اسے بغور پڑھ کر زید کے بارے میں اظہار خیال کریں۔


ہر شخص نے اپنی عبارت کو بغور بار بار پڑھا، لیکن زید کے کردار کے بارے میں ہر شخص نے جو بھی اظہار خیال کیا، وہ انھیں باتوں پر مبنی تھا جو عبارت کے شروع میں تھیں۔ اگر شروع میں زید کی تعریف لکھی تھی تو زید کو اچھا آدمی بتایا گیا۔ اگر شروع میں اس کی برائی لکھی تھی تو اس کو برا بتایا گیا۔ بعض پڑھنے والوں نے تو بعد کی عبارت کو بالکل نظرانداز ہی کر دیا اور بعض نے اس کی توجیہیں طرح طرح سے کیں۔


اس تجربے سے اس بات کا کچھ اندازہ ہو سکتا ہے کہ افسانہ نگار اپنے قاری پر کس قدر اختیار رکھتا ہے۔ اب اگر وہ اس اختیار کو ٹھیک سے استعمال نہ کر سکے تو اس میں قاری کا کیا قصور؟ لیکن اگر قاری کی نیت صاف نہ ہو اور وہ افسانے میں فرضی چیزیں تلاش کرنا شروع کر دے، یعنی ایسی چیزیں ڈھونڈنے اور دریافت کرنے پر اتارو ہو جائے جن کا وجود ہی افسانے میں نہیں، تو افسانہ نگار کی بدیعیاتی کارروائی Rhetorical strategy ناکام بھی ہو سکتی ہے۔ فرضی چیزوں سے میری مراد یہ ہے کہ مثلاً قاری کو افسانے میں کردار کی تلاش پر اصرار ہو جب کہ افسانہ نگار آپ کو واقعہ سنا رہا ہے تو لامحالہ آپ اس کے ساتھ ناانصافی کر رہے ہیں۔ ہاں اگر واقعہ خود ان صفات کا حامل نہ ہو جو کردار نگاری کی کمی محسوس نہ ہونے دینے دیں تو اور بات ہے۔


میں نے اوپر ہنری جیمس کا ذکر کیا ہے۔ افسانے میں کردار اور بیانیہ کی کشمکش کا آغاز ہنری جیمس سے ہوتا ہے۔ یہ جیمس ہی تھا جس نے کردار کے اظہارمیں اس قدر غلو کیا کہ اس نے اکثر جگہ ناول نگار ’’یا فکشن نگار‘‘ کا لفظ ہی نہیں استعمال کیا، بلکہ ’’ڈراما نگار‘‘ لکھا۔ یعنی اس کا خیال تھا کہ ناول نگار دراصل ڈراما نگار ہوتا ہے اور جس طرح ڈرامے میں تمام واقعات کا اظہار کردار کے حوالے سے ہوتاہے، اسی طرح ناول میں بھی ہونا چاہیے۔ ہنری جیمس نے ناول میں واقعات کے اسلوب اظہار کے لیے منظری scenic اور غیرمنظری non۔ scenic کی اصطلاحیں وضع کیں۔


’’منظری‘‘ سے اس کی مراد تھی وہ اسلوب جو ڈراما سے قریب تر ہو، یا جس میں واقعات اس طرح نمایاں کہے جائیں جس طرح ڈراما میں ہوتے ہیں۔ ’’غیرمنظری‘‘ سے اس کی مراد تھی وہ اسلوب جو ڈراما سے دور ہو۔ جیمس نے تقریباً ہمیشہ اس نام نہاد منظری اسلوب کو غیرمنظری اسلوب پر فوقیت دی ہے۔ کردار اور واقعہ کے رشتے، اور کردارنگاری کی واقعہ پر فوقیت کے بارے میں ہنری جیمس کے بعض اہم بیانات حسب ذیل ہیں۔ یہ میں نے اس کے مختلف مضامین سے اخذ کیے ہیں،


(۱) کردار کیا ہے اگر وہ واقعے کی تعین نہیں ہے؟ واقعہ کیا ہے اگر وہ کردار کی وضاحت نہیں کرتا؟ کوئی تصویر یا کوئی ناول کیا ہے اگر وہ کردار کے بارے میں نہیں ہے؟ کردار کے علاوہ ہم ناول یا تصویر میں تلاش ہی کیا کرتے ہیں اور حاصل ہی کیا کرتے ہیں؟ اگر کوئی عورت اس طرح کھڑی ہو کہ وہ اپنا ہاتھ میز پر ٹکائے ہوئے آپ کو ایک خاص انداز سے دیکھے، تو یہ ایک واقعہ ہے یا اگر یہ ایک واقعہ نہیں ہے تو میرا خیال ہے یہ کہنا بہت مشکل ہوگا کہ پھر یہ اور کیا ہے؟


یہ اقتباس جیمس کے مشہور مضمون The Art of Fiction کا ہے، اس کی اشاعت کو آج صرف ایک سو ایک برس ہوئے ہیں لیکن یہ بیان اتنا پر اثر ثابت ہوا ہے کہ یار لوگ بیانیہ کی ہزاروں برس پرانی روایت کو بھول کر محض اس بیان کی روشنی میں بیانیہ کی روایت مرتب کرتے ہیں۔ محمد احسن فاروقی بھی ان لوگوں میں شامل ہیں۔ لیکن دیکھئے زوتیان ٹاڈاراف Tzvetan Todorow اس باب میں کیا کہتا ہے،


’’ہم نے شاید ہی کوئی ایسی مثال اور دیکھی ہو جس میں خالص خود رائی نے خود کو ہمہ گیر حقیقت کے طور پر پیش کیا ہو۔ ممکن ہے جیمس کا نظریاتی آدرش ایسا ہی بیانیہ رہا ہو جس میں ہر چیز کرداروں کی نفسیات کے تابع ہے، لیکن ادب میں ایک پورا ناقابل نظراندازی رجحان موجود ہے، جس کی رو سے واقعات اس لیے نہیں ہیں کہ وہ کردار کی وضاحت کریں بلکہ اس کے برخلاف وہاں تو سارے کے سارے کردار ہی واقعات کے تابع ہوتے ہیں۔ مزید برآں کہ اس رجحان کی رو سے ’’کردار‘‘ کی اصطلاح جس چیز کی نشان دہی کرتی ہے وہ نفسیاتی مربوطی یا کردار کے ذاتی انوکھے رجحانات کا اظہار نہیں ہے۔‘‘


ایک دوسرے سیاق وسباق میں ٹاڈاراف یہ سوال بھی پوچھتا ہے کہ ممکن ہے پلاٹ کے بارے میں جو خیال ہے کہ وہ علت اور معلول کا نتیجہ ہوتا ہے، وہ آج کل کے پلاٹ کے بارے میں صحیح ہو، لیکن اس تصور کا اوڈیسی (Odyssey) کے پلاٹ سے کیا تعلق ہو سکتا ہے جہاں ہر بات دیوتاؤں نے پہلے ہی سے طے کر دی ہے؟ (یعنی ہر چیز واقع ہو چکی ہے، اب نہ اس کی ترتیب بدل سکتی ہے اور نہ اس میں کوئی حک واضافہ ہو سکتاہے۔) یہاں اسٹرن برگ کا حسب ذیل اقتباس دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔ اوڈیسیوس (Odysseus) پر جو گذرنی ہے وہ طے ہو چکا ہے اور جو کچھ اس پر گذری وہ پڑھنے / سننے والے کو بھی معلوم ہے۔ اب دیکھئے ہومر اپنے اس علم کو ایک واقعہ بیان کرنے کے لیے کس طرح استعمال کرتا ہے، یعنی وہ واقعات کی ترتیب بدل دیتا ہے، اگرچہ قاری/ سامع کو یہ بات معلوم ہے، لیکن پھر بھی جب وہ واقعہ پیش آتا ہے تو اس کے اثر سے نظم کی ڈرامائیت میں اضافہ ہو جاتا ہے،


’’(کیلپسو Calypso نے اڈویسیوس کو حیات دوام کی پیشکش کی ہے، لیکن وہ اسے ٹھکرا چکا ہے۔) ۔ جب ہم اوڈیسیوس کو دیکھتے ہیں کہ وہ موت کی بھیانک تکالیف کا اندازہ لگا رہا ہے، جن کی وضاحت سب سے پہلے تو اسے اپنی ماں کے بیانات میں ملتی ہے اور پھر اکیلیز (Achilles) کے الفاظ میں، تو ہم اس کے لیے اور بھی تحسین کا جذبہ محسوس کرتے ہیں کہ اس نے کیلپسو کی پیشکش ٹھکرا دی تھی۔ اہم بات یہ ہے کہ کیلپسو والا معاملہ اس وقت کے پہلے کا ہے جب اوڈی سیوس تحت الثریٰ میں اترا۔ ہومر نے یہاں ’’مصنوعی‘‘ ترتیب رکھی ہے اور کیلپسو کی پیشکش کے وقوعے کو پہلے ہی بیان کر دیا ہے۔ یعنی جب اوڈیسیوس نے حیات دوام کی پیشکش کو مسترد کیا، اس وقت وہ موت اور مسلسل جانکنی کی تکالیف کا اندازہ کر چکا تھا۔ لیکن قاری کو اس بات کی خبر نہ تھی، لہٰذا وہ اوڈیسیسوس کے حق میں ہمدردی اور ہم احساسی محسوس کرتا ہے، وہ ایسا شخص ہے جس نے گھریلو زندگی اور موت کو حیات دوام پر شعوری طور پر فوقیت دی۔‘‘


اس پر اتنا اضافہ کرنا ضروری ہے کہ نہیں، قاری کو کیلپسو کی پیشکش کے بارے میں پہلے سے معلوم تھا، لیکن جب ہومر اس کی ترتیب میں رد وبدل کرکے اسے اوڈیسیوس کی سیر تحت الثریٰ کے بعد بیان کرتا ہے تو قاری کے دو رد عمل ہوتے ہیں، یا ان دو میں سے ایک رد عمل ہوتا ہے، (۱) وہ گمان کرتا ہے کہ ہومر نے قصے کا کوئی ایسا روپ بیان کیا ہے جو مشہور روپ سے مختلف ہے اور اس اختلاف کی کوئی وجہ ہوگی جو مناسب وقت پر ہم کو معلوم ہوگی (داستانوں میں ایسا ہوتا ہے۔) یا (۲) اسے اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کوئی واقعہ کب بیان کیا گیا۔ اس کے اپنے ذہن میں واقعات کی جو ترتیب موجود ہے وہ اسے ’’صحیح‘‘ راہ پر قائم رکھتی ہے۔


مندرجہ بالا بحث سے مراد یہ ہے کہ ہم لوگوں کو پلاٹ اور کردار کے بارے میں ان خیالات پر نظر ثانی کرنی چاہیے جو پچھلے سو برس سے کچھ کم یا زیادہ کے عرصے میں مغرب نے دریافت کیے ہیں۔ یہ کہنا غلط ہے کہ ناول چونکہ جدید صنف سخن ہے، اس لیے اس پر جدید ہی خیالات کی روشنی میں بات ہوگی۔ ناول تو ہنری جیمس کے پہلے سے موجود تھا، بلکہ دنیا کے سب سے بڑے ناول نگاروں میں کم سے کم تین یعنی ڈکنس (Charles Dckens)، بالزاک (Honore de Balzac) اور فلو بیئر (Gustav Flaubert)، تینوں ہی ہنری جیمس کے پہلے تھے، اور دو یعنی دستہ ئف سکی (Fyodor Dostoevsky) اور ٹالسٹائی (Leo Tolstoy) بھی جیمس کے بزرگ ہم عصر تھے، لہٰذا ہنری جیمس (جو ٹالسٹائی، دستہ ئف سکی اور ڈکنس، ان تین میں سے کسی کو بھی پسند نہیں کرتا تھا) کہاں کا ارسطو ہے کہ ہم ناول کے بارے میں اس کی ہر بات مان لیں؟ خیر، جیمس کے بعض اور جواہر ریزے ملاحظہ ہوں،


(۲) کسی مصنف کا اولین فریضہ یہ ہے کہ وہ روحوں کا علاج کرے، چاہے اس کے نتیجے میں اسے محاکات کو دبانا، بلکہ منہا ہی کیوں نہ کرنا پڑ جائے۔ اس کو چاہیے کہ وہ اپنے کرداروں کی خبر رکھے۔ اس کے محاکات اپنا معاملہ خود ہی ٹھیک کر لیں گے۔


یہ تحریر اس کے بالکل آخری زمانے کی ہے (۱۹۱۴ء)، ایک اور ملاحظہ ہو،


(۳) سچی بات یہ ہے کہ ایک بات مجھے بڑے زبردست طریقے سے پکی معلوم ہوتی ہے اور وہ یہ ہے کہ کسی تصویر میں جو لوگ ہیں یا کسی ڈرامے میں جو فاعل ہیں وہ اسی حد تک دلچسپ ہیں، جس حد تک وہ اپنی اپنی صورت حال کو محسوس کرتے ہیں، کیونکہ جو پیچیدگیاں ظاہر ہوئی ہیں، خود ان کو ان کا شعور جس حد تک ہوتا ہے، اسی حد تک ہمارا اور ان کے شعور کار شتہ قائم ہو سکتا ہے۔


یہ دیباچہ ۱۹۰۸ء کا ہے۔ آگے چل کر وہ ہیملٹ (Hamlet) اور شاہ لیئر (King Lear) کی مثال دیتا ہے کہ یہ لوگ Finely Aware ہیں، یعنی اپنے اندرونی کوائف کو بڑی خوبی اور باریکی سے جانتے ہیں۔ (سبحان اللہ، اگر ایسا ہی ہوتا تو ہیملٹ بیچارا سارے ڈرامے بھر میں اتنا فیصلہ تو کر لیتا کہ اپنے باپ کے خون ناحق کا بدلہ لینا اچھا ہے کہ برا۔) جیمس صاحب مزید فرماتے ہیں کہ ہمیں ان لوگوں سے ہمدردی کم ہوتی ہے جو روحانی طور پر اندھے یا احمق یا غیرمہذہب ہوتے ہیں یعنی افسانے میں ایسے کرداروں کا ذکر ہونا چاہیے جو حساس ہوں، اپنا شعور رکھتے ہوں، بھلے برے کے درمیان امتیاز کرنے کا ہنر جانتے ہوں۔ ظاہر ہے کہ اس طرح کے کردار کو (اگر ایسے کردار ممکن ہیں)، وضاحت سے بیان کرنے کے لیے اس کی داخلی زندگی اور mental events کی گہرائیوں میں جانے کے سوا چارہ نہیں۔


جیمس مزید کہتا ہے کہ بڑے بڑے واقعہ نگاروں مثلاً اسکاٹ (Walter Scott) زولا (Emile Zola) اور ڈیوما (Alexandre Dumas) نے یہ کیا ہے کہ کسی نہ کسی طرح کے ذہن (یعنی سوچنے والے وجود) کو کسی مہم سے دوچار کرایا ہے اور اگر ایسا نہیں کیا ہے تو انھیں نقصان بھی اٹھانا پڑا ہے۔


یہ سب کہیں نہ کہیں صحیح ضرور ہوگا، لیکن معلوم نہیں ہومر یا فردوسی کے کرداروں یا قدیم تر زبانی یا تحریری داستانوں کے کرداروں میں کس قسم کا دماغ جیمس صاحب کو نظر آتا ہوگا۔ ٹاڈا راف نے خوب کہا ہے کہ روایتی بیانیہ میں تو واقعہ ہی کردار ہے۔ دوسری بات وہ یہ کہتا ہے کہ جب ہنری جیمس کہتا ہے کہ ’’الف نے بے کو دیکھا‘‘ تو اس کے نزدیک ’’الف‘‘ اہم تر ہے لیکن الف لیلہ کی قصہ گو شہزاد کے لیے ’’بے‘‘ اہم تر ہے یعنی کس طرح دیکھا گیا؟ کس نے دیکھا؟ یہ اہم نہیں ہے، بلکہ کیا دیکھا گیا؟ اہم ہے۔


ایسا نہیں ہے کہ میں پیچیدہ کردار نگاری کے خلاف ہوں۔ کردار نگاری اور کردار کی نفسیات کی تہوں میں اتر کر کیچڑ اور موتی کھنگالنا بڑی عمدہ اور اہم چیز ہے۔ میں صرف یہ کہہ رہا ہوں کہ کردار نگاری اور بیانیہ ہم معنی نہیں ہیں اور نہ ہی کردار نگاری بیانیہ کی قدیمی روایت کا حصہ ہے۔ بیانیہ کی قدیمی روایت اور جدید طریق کار میں بنیادی فرق بدیعیات کا ہے، گرامر کا نہیں۔ یعنی دونوں کے قاعدے ایک سے ہیں لیکن اپنی بات کو قائم کرنے کے لیے جدید یعنی ہنری جیمس کا طریق کار یہ ہے کہ اس میں اس شخص کو اہمیت دی جاتی ہے جس پر واقعہ گذرا۔ قدیمی روایت کی رو سے وہ شخص اہم نہیں ہے جس پر واقعہ گذرا، بلکہ خود واقعہ اہم ہے۔ اس طرح اس چیز کی اہمیت کم ہو جاتی ہے جسے ہنری جیمس Point of view (نقطۂ نظر) کہتا ہے۔ یعنی واقعہ بیان کرنے والا (راوی) اور مصنف الگ الگ ہو جاتے ہیں، اسی لیے رولاں بارت (Roland Barthes) کہتا ہے،


’’متن کو اس کے باپ (یعنی خالق) کی گارنٹی کے بغیر پڑھا جا سکتا ہے۔۔۔ ایسا نہیں ہے کہ مصنف اپنے متن میں واپس نہیں لوٹ سکتا۔ وہ لوٹ سکتا ہے لیکن محض ایک مہمان کی طرح۔ اگر مصنف ناول نگار ہے تو وہ اپنے متن میں خود کو ایک کردار کی طرح درج کر دیتا ہے۔۔۔ اس کے دستخط کسی خاص احترام و مراعات privilege یا پدرانہ اہمیت کے حامل نہیں ہوتے۔۔۔ اس کی زندگی اس کی کہانیوں کا سرچشمہ نہیں رہ جاتی، بلکہ ایک ایسی کہانی بن جاتی ہے جو اس کی تحریر کے ساتھ ساتھ چلتی ہے۔‘‘


بارت کی مراد یہ ہے کہ بیانیہ میں جب کوئی واقعہ بیان ہو جاتا ہے تو پھر اس میں مصنف کے ادراکات شامل نہیں ہوتے، بلکہ راوی کے ہوتے ہیں۔ لیکن بیانیہ کے غیرروایتی (یعنی ہنری جیمس اور اس کے متبعین) کے نظریات کی رو سے وہ نقطۂ نظر اہم ہے، جس جگہ سے واقعے کو دیکھا جا رہا ہے۔ واقعیت کی تلاش نے ہمارے فکشن کو اس منزل تک پہنچا دیا جہاں کوئی بیان، کوئی روداد، اپنی اصلی شکل میں باقی ہی نہیں رہی۔ واقعیت کے نام پر واقعے ہی کا استیصال ہو گیا۔


پھر سوال یہ ہے کہ روایتی بیانیہ کس طرح کام کرتا ہے؟ اس کی بدیعیات کیا ہے؟ اور اس کی کارفرمائی ہم آج کے افسانے میں کس طرح دیکھ سکتے ہیں؟ اگر آج کا افسانہ واقعی روایتی بیانیہ کا پیرو ہے تواس میں اس طرح کا تاثر کیوں نہیں ہے جو ہم روایتی بیانیہ میں دیکھتے ہیں! آخری سوال کا توجواب یہ ہے کہ واقعی بیانیہ کی پیروی ایک اہم شرط نئے افسانے نے نہیں پوری کی ہے۔ وہ شرط یہ ہے کہ بیانیہ میں صرف راوی کا point of view ہو، کسی کردار کا یا مصنف کا نہ ہو۔ واقعیت کی مار ہمارے افسانہ نگاروں پر اس قدر زبردست ہے کہ جب وہ کوئی منظر بیان کرتے ہیں تو خود اپنے یا کسی کردار کے تاثرات بیان کرنے لگتے ہیں۔ اپنے تاثرات بیان کرنے میں مشکل یہ ہے کہ پھر افسانے کی Rhetoric کم زور پڑ جاتی ہے اور افسانہ نگار خود معاملے کا شریک (اور کبھی کبھی شریک غالب) بن جاتا ہے۔


پھر افسانے اور قاری کے درمیان وہ خاموش معاہدہ کمزور پڑ جاتا ہے کہ افسانہ نگار جو بھی کہے گا، ہم اسے سچ مان لیں گے۔ افسانہ نگار کو درحقیقت کوئی مراعات، کوئی privilege نہیں۔ مراعات اور privilege ہے تو راوی کو ہے اور جب افسانہ نگار خود راوی بن کر بیٹھ جاتا ہے تو قاری کے ساتھ ناانصافی کرتا ہے۔


اب رہے کردار کے تاثرات، تو کردار کے تاثرات بیان کرنے میں مشکل یہ ہے کہ نئے افسانہ نگاروں کے یہاں کردار ہے نہیں، لہٰذا منظر کا بیان جھوٹا اور مصنوعی ہو جاتا ہے اور پریم چندی افسانے کا بھوت آموجود ہوتا ہے۔ روایتی بیانیہ میں واقعہ خود کردار کا قائم مقام ہوتا ہے یعنی کردار کے mental event نہیں بیان ہوتے، بلکہ اس کے اعمال بیان ہوتے ہیں، اس لیے اس میں یہ سوال نہیں اٹھتا کہ ہم کس کے ادراکات سے دوچار ہو رہے ہیں؟ یہ مثالیں ملاحظہ ہوں،


(۱) سمندر کی لہروں اور عورتوں کے خون کو راستہ بتانے والا چاند ایک کھڑی کے راستے اندر چلا آیا تھا اور دیکھ رہا تھا، دروازے کے باہر اس طرح کھڑا مدن اگلا قدم کہاں رکھتا ہے؟ مدن کے اپنے اندر ایک گھن گرج سی ہو رہی تھی اور اسے اپنا آپ یوں معلوم ہو رہا تھا جیسے بجلی کا کھمبا ہے جسے کان لگانے سے اسے اندر کی سنسناہٹ سنائی دے جائےگی۔ (بیدی، اپنے دکھ مجھے دے دو)


مدن کی شادی کی پہلی رات ہے، وہ حجلۂ عروسی میں ایک قدم رکھ کر ٹھٹکا کھڑا ہے۔ اس منظر کا بیان انتہائی اعلیٰ درجے کا ہے، اس میں کوئی کلام نہیں۔ لیکن اس بیان میں چاند کو سمندر کی لہروں اور عورتوں کے خون کو راستہ بتانے والا کیوں کہا گیا؟ ’’خون‘‘ اور ’’راستہ‘‘ کی جنسی معنویت پر غور کیجئے۔ پھر مدن خود کو بجلی کے سنسناتے ہوئے کھمبے کی طرح محسوس کر رہا ہے۔ اس پیکر کی بھی جنسی اشاریت ملحوظ رکھئے۔ یہ چیزیں بیان کی قوت میں اضافہ کرتی ہیں۔ لیکن یہ چاند جو اس منظر میں ہے، مدن نے دیکھا ہے کہ بیدی نے؟ اور مدن کے سنسناہٹ بھرے بدن کو ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں یا بیدی کی آنکھ سے؟ اگر سہاگ رات کی چاندنی نہ ہوتی تو کیا اس وقت بھی بیدی چاند کے بارے میں لکھتے کہ وہ سمندر کی لہروں اور عورتوں کے خون کو راہ بتانے والا ہے؟


ظاہر ہے کہ نہیں، لہٰذا یہ بھی ظاہر ہے کہ یہ چاندنی بیدی نے بنائی ہے۔ وہ چاند جو مدن کا اگلے قدم اٹھنے کے انتظار میں ہے، نہ واقعی ہے نہ استعاراتی۔ وہ بیدی کا کھلونا ہے۔ بجلی کے سنسناتے ہوئے کھمبے کا سا بدن بھی اس وقت نہ ہوتا جب سہاگ رات کے بجائے مثلاً امتحان کے پہلے پرچے یا نوکری کے انٹرویو کے وقت کا ذکر ہوتا۔ یہ سب تفصیلات اعلیٰ پائے کی ہیں، خوبصورت ہیں، حسب حال ہیں لیکن ان کا واقعے سے کوئی تعلق نہیں، یہ واقعے پر طاری کی گئی ہیں، کیونکہ راوی نے افسانہ نگاری شروع کر دی ہے، لہٰذا کیا ہوا؟ کیا دیکھا؟ اہم نہیں ہے، بلکہ کس پر ہوا؟ کس نے دیکھا؟ اہم ہے اور ان دونوں سے زیادہ اہم ہے، کس نے بیان کیا؟ غیرروایتی افسانے میں لاشخصیت کا پتہ نہیں۔ وہ لا شخصیت جو فلوبیئر کی زندگی کا آدرش تھی۔


بیدی کے علی الرغم، نیا افسانہ نگار بہرحال قدیمی بیانیہ کو اپنانا چاہتا ہے لیکن جب وہ واقعیت نگاری کی ٹوپی پہن کر اس بزم میں آتاہے تو اس کی پگڑی اچھلتی نظر آتی ہے۔ یہ اقتباس دیکھئے،


(۲) ننھے ننھے پتھر جب پرسکون پانی پر گرے تو پہلے کائی پھٹی، پھر دھوپ اندر گئی۔ پھر برف پگھلی۔ پانی میں ہل چل ہوئی۔ لہریں اٹھیں اور صدیوں کی جمی کائی بہہ کر دور چلی گئی۔ تہہ میں سوئی ہوئی مچھلیاں ان پتھروں کی طرف لپکیں۔ ایک دنیا کا طلسم ٹوٹا۔ ایک دنیا کی آنکھ کھلی۔ پتھر برستے رہے، ہنگامہ جوان رہا۔ لہریں زندگی کی علامت بن کر آگے اور آگے بڑھتی رہیں۔ (شفق، کانچ کا بازی گر)


تحریر ادبی درجے اور رتبے کے اعتبار سے بیدی سے کچھ ہی کم ہے۔ لیکن یہاں کردار تو ہے نہیں۔ پھر یہ کس کے ادراکات بیان کیے جا رہے ہیں؟ اور mental events (ذہنی کوائف) کو ادراک کا درجہ کیوں دیا جا رہا ہے؟ بظاہر یہ ادراک اس مرکزی کردار کے ہیں جس نے خود کو ’’میں‘‘ کے نام سے متعارف کیا ہے۔ لیکن ہوگا۔ مدن کی سہاگ رات تو پھر بھی ایک دلچسپ یا کم سے کم ایک گدگدی پیدا کرنے والا titillating موقعہ تھی، لیکن یہاں کس صورت حال کا اظہار کیا جا رہا ہے؟ ظاہر ہے کہ کردار کو منہا کر دیا گیا ہے، لیکن کردار نگاری سے ابھی نجات نہیں ملی ہے۔ جو تاثرات بیان کیے جا رہے ہیں وہ افسانہ نگار کے ہیں، کسی راوی کے نہیں۔


افسانہ نگار نے اپنے خیالات کو ’’میں‘‘ کے ذریعہ ادا کیا ہے، لیکن ’’میں‘‘ تو کوئی شخص نہیں ہوتا، جب تک کامیو کے The Fall کے مرکزی کردار کی طرح وہ ہم کو اپنے بارے میں براہ راست نہ بتائے۔ یہاں جو ’’میں‘‘ ہے وہ کردار نہیں ہے، کردار کا بھوت ہے جس کی نقاب افسانہ نگار نے اوڑھ لی ہے۔ اگر باقاعدہ کردار ہوتا تو ہم اس سے سوال جواب کرتے۔ موجودہ صورت میں ہمارے پاس کردار نہیں ہے، لیکن راوی بھی نہیں ہے، صرف افسانہ نگار ہے۔ پھر بیانیہ کی قدیم روایت کے خد وخال کیوں کر نمایاں ہوں؟ اب ایک اور اقتباس دیکھتے ہیں،


(۳) ہر چیز تھم گئی ہے۔ چوراہے پر سے گذرتی بسیں، گاڑیاں، راہ گیر، سب وقت کے فرسودہ فریم میں تصویر کے مانند ساکت ہو گئے ہیں۔ صرف شام اتر رہی ہے، دھیرے دھیرے گلی کوچوں میں، عمارتوں پر، ٹیلی گراف کے تاروں پر، اپنے گھروں کو رواں ہوتے انسانوں کے جم غفیر پر۔ (انور خاں، شام رنگ)


سب سے پہلے بات تو یہ کہ یہ شام بیدی صاحب کی اس شام سے ملتی جلتی ہے جب سورج کی ٹکیہ بہت لال تھی۔ یہ شام بھی زور اور عبرت کے مرتبے میں بیدی سے کچھ ہی کم ہے، لیکن بیدی کی شام ان کرداروں کے ادراک میں تھی جن سے ہم فوراً ہی دوچار ہوتے ہیں۔ یہاں پھر وہی ’’میں‘‘ ہے جس میں کوئی کرداری صفت نہیں۔ بنیادی بات یہ ہے کہ دونوں افسانہ نگاروں کی بدیعیات ایک سی ہے۔ بیدی کے یہاں وہ کامیاب اس لیے ہے کہ وہ قدیمی روایت کے بیانیہ کے برخلاف کردار نگاری کر رہے ہیں۔


یہ الگ بات ہے کہ اس طرح کی منظر کشی جس میں افسانہ نگار اپنے کرداروں کی تقدیر کا فیصلہ مقدمہ شروع ہونے سے پہلے کر دیتا ہے، واقعیت کے نام پر بے ایمانی ہے، لیکن وہ بےایمانی اپنی شعریات کی حدود میں ہے۔ انور خاں کردار نگاری سے منحرف ہیں، لیکن ادراکات وہ بیان کر رہے ہیں جو راوی کے نہیں بلکہ کردار کے حوالے سے خود ان کے ہیں۔ یہی انور خاں جب سیدھی سادی تمثیل Allegory لکھتے ہیں، مثلاً ’’فنکاری‘‘ تو غیرمعمولی طور پر کامیاب ہوتے ہیں،


(۴) جب ششی نے چائے کے داموں میں اضافہ کر دیا تو بھارت ہندو ہوٹل میں مختلف میزوں پر بیٹھنے والے بے روزگار نوجوانوں میں برہمی پھیل گئی۔ ملک کی اقتصادیات، سیاسیات اور سماجیات پر طویل بحث کرنے کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ انھیں احتجاج کرنا چاہیے۔ انھوں نے ٹیبل والے سے اخبار منگوا کر اس شام منعقد ہونے والے پروگراموں کی تفصیلات دیکھیں اور ایک پروگرام جس میں شہر کے تمام سربراہ اور معزز لوگوں کی آمد متوقع تھی، چن لیا۔ (انور خاں، فن کاری)


تمثیل ابھی قائم نہیں ہوئی ہے، لیکن ہلکے ہلکے اشارے موجود ہیں۔ یہ آغاز بلراج کومل کے افسانے ’’کنواں‘‘ کی یاد دلاتا ہے، لیکن اگر وہ افسانہ یاد نہ بھی آئے تو بھارت ہندو ہوٹل، بےروزگار نوجوانوں کی بحث، اخبار میں پروگراموں کا کالم دیکھ کر احتجاج کی جگہ منتخب کرنا، ان سب سے ہمیں اندازہ ہو جاتا ہے کہ معاملہ وہ نہیں ہے جو بظاہر نظر آتا ہے۔ ان تفصیلات کی خود کچھ اہمیت نہیں ہے بلکہ جس ترتیب سے وہ یکجا کی گئی ہے، وہ اہم ہے۔


چونکہ بیانیہ کی قدیم روایت واقعے کی کثرت کا تقاضا کرتی ہے اور کردار کو واقعے کا تفاعل ٹھہراتی ہے، لہٰذا اس کے سامنے دو مسائل ہیں۔ اول یہ کہ واقعات کو کس طرح پیش کیا جائے اور دوئم یہ کہ جب کردار کی داخلی زندگی نہ بیان ہو تو اس کے خیالات (اگر کوئی ہیں) کس طرح بیان کیے جائیں؟ پہلے سوال کا جواب تو آسان ہے۔ بیانیہ کی کوئی بھی ترکیب کارگر ہو سکتی ہے۔ تمثیل کی مثال سامنے ہے۔ مسئلہ افسانے کے ابہام یا اشکال، یا علامتوں سے افسانے نگار کے شغف کا نہیں ہے۔ علامت تو کسی بھی طرح کے افسانے میں ہو سکتی ہے اور آج کل کے زیادہ تر افسانوں میں علامت ہے بھی نہیں۔


مسئلہ دراصل یہ ہے کہ افسانہ یعنی بیانیہ کس طرح وجود میں آئے؟ واقعات کس طرح درج کیے جائیں اور کس طرح کے واقعات ہوں؟ ان مسائل پر میں تھوڑا بہت اظہار خیال کر چکاہوں۔ ایک بات میں نے کئی بار کہی ہے کہ افسانہ نگار کو قاری پر غیرمعمولی اختیار حاصل ہوتا ہے۔ وضعیاتی Structuralist نقاد تو ہر افسانے کو relationships اور categories میں بانٹ کر چھٹی کر دیتا ہے۔ میں نے وضعیاتی اور بعد وضعیاتی تنقید سے تھوڑا بہت سیکھا ضرور ہے۔ لیکن مجھے اس بات کا احساس ہے کہ محض relations اور توازن کے اقسام بیان کر دینے سے واقعے کی واقعاتی قدر کا تعین نہیں ہو سکتا۔ یہ بات غور کرنے کی ہے کہ آخر افسانہ آزاد وجود رکھتا ہے یا نہیں؟ بعض نقادوں نے تو یہاں تک کہا ہے کہ افسانے میں لسانی سطح کے علاوہ ایک semiotic یعنی نشانیاتی سطح بھی ہوتی ہے اور وہ لسانی سطح کے ماقبل ہوتی ہے۔


فرض کیجئے ہم وہاں تک نہ جائیں اور یہ کہیں کہ افسانے کے لیے دو باتیں ضروری ہیں، ایک تو واقعہ اور دوسری اس واقعے کو بیان کرنے والا۔ بیان کرنے والے کے بغیر واقعہ بے معنی ہے اور واقعے کے بغیر بیان کرنے والا ہو ہی نہیں سکتا، تو پھر ان دونوں میں وہ رشتہ کیا ہے، جس کی بنا پر ہم اسے افسانے کی سطح پر قبول کرتے ہیں؟ ظاہر ہے کہ یہ رشتہ اس بات میں مضمر ہے کہ بیان کرنے والے نے واقعے کو بیان کرنے کے لائق سمجھا۔ لیکن کیا اس کامطلب یہ ہے کہ بیان کرنے والے نے واقعے میں کوئی خاص معنی دیکھے؟ یا کہیں ایسا تو نہیں کہ بیان کرنے کے بعد اس میں معنی پیدا ہو جاتے ہیں؟ کیونکہ یہ بھی تو ممکن ہے کہ بیان کیے ہوئے واقعے کے معنی کسی کے لیے کچھ ہوں اور کسی کے لیے کچھ؟


اگر شر حیات Hermeneutics کے نئے نظریات کی روشنی میں دیکھیں تو گیڈمر Gadamar کی طرح یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ جب کوئی تخلیق وجود میں آ گئی تو اس کے معنی بھی ہوں گے، کیونکہ تخلیق کی فطرت ہی یہی ہے کہ وہ بامعنی ہو، لہٰذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ بیان کرنے والا معنی کی غرض سے واقعہ نہیں بیان کرتا بلکہ وہ اس کو بیان کرنے کے لائق اس لیے سمجھتا ہے کہ اس میں خود اس کے لیے معنی ہیں اور وہ اس کے ذہن میں بطور واقعے کے قائم کر دے۔ یعنی بیان کرنے والے کو ایک شارح درکار ہوتا ہے جو بیان کی ہوئی چیز کی شرح واقعے کے طور پر کر سکے۔ لہٰذا واقعہ اور اس کو بیان کرنے والا مل کر ایک تیسرا رشتہ خلق کرتے ہیں جو شارح کا ہوتا ہے۔ یہ مسئلہ ابلاغ کا نہیں بلکہ بیانیہ کے اختیار کو کامیابی سے استعمال کرنے کا ہے۔


ہم جانتے ہیں کہ افسانہ نگار جو بھی کہتا ہے، شارح اس کو مان لیتا ہے۔ پھر افسانہ نگار شارح سے یہ کیوں نہیں منوا لیتا کہ میں نے افسانہ لکھا ہے، جغرافیہ کی کتاب نہیں؟ روایتی بیانیہ وہ کیا کام کرتا ہے جس کی بنا پر ہم اس کو افسانہ یعنی Fiction مان لیتے ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ وہ اپنے کرداروں کو سرگرم عمل دکھاتا ہے، یہاں تک کہ ان کا سوچنا بھی عمل ہوتا ہے۔ یعنی ان کا سوچنا گفتگو کا عمل Speech act ہوتا ہے نئے افسانے میں واقعہ کثرت سے ہے، لیکن عمل بہت کم ہے۔ اس میں مکالمہ بھی سوچ کی شکل میں نظر آتا ہے، کجا کہ سوچ کو مکالمہ کا رنگ دیا جائے۔ یہاں چند مثالیں دیکھیے،


کوکب دل سے اپنے باتیں کرتا ہے کہ اے کوکب کاش کے عمرو مجھ کو اس حال زار میں نہ دیکھتا عمرو بیٹھنے والا دربار صاحب قراں کا ہے جس وقت عمرو اس بارگاہ آسماں جاہ میں جاکر بیٹھے گا اس دربار میں جوانان صف شکن تیغ زن جلوہ فرما رہے ہیں فرزندان صاحب قراں صاحب شوکت وشان جس امر کا ارادہ کرتے ہیں بدون فتح قدم نہیں ہٹاتے اسد نامدار نے کیا کیا جفا اٹھائی سات برس گنبد نور میں قید رہا چاہیے حوصلہ پست ہوتا کہ ملک ساحران میں ہمارا قدم نہ جمےگا، افراسیاب ہمارے قتل کیے قتل نہ ہو سکےگا حوصلے میں کمی مزاج میں برہمی ہوتی ہوشربا کو چھوڑ کر چلے جاتے جفا اٹھانے سے اور حوصلہ بڑھا آج تک کھیت سے پاؤں نہ ہٹایا اے کوکب سب کی نگاہوں سے گر جاؤگے سمجھ جائیں گے کہ صرف جادوگر ہے ہنر جرأت سے نابلد ہے اپنے مقام پر ہنسیں گے مردان عالم طعن کریں گے یہ تو ناممکن ہے کہ اتنا بڑا معرکۂ عظیم مشہور ومعروف نہ ہو پس اے کوکب واپس ہونا روگردانی اس مقدمے سے سراسر نامردی ہے عمرو نے دیکھا جب پتلے مارے جا چکے اور کوکب زخموں میں چور ہو چکا شمشیر زنی کی بھی طاقت نہ رہی بیچ میں سے تلواروں کے نکل کر الگ کھڑا ہوا سائے سے ابر کے ہٹ آیا۔۔۔


عمر و حیران ہے کہ یہ کیا معرکہ گذرا کوکب کے جی چھوٹ گئے۔۔۔ اے عمرو بزرگوں کا جو قول ہے سخن شنیدن بیخ دولت کوکب نے اس کے خلاف کیا ہم نے کہا تھا کہ تامل کرو ہم عیاری کرکے ماہیان کو ماریں گے اس وقت جوش جرأت میں ہمارا کہنا نہ مانا آخر مجبور ہوکے پلٹ گیا صاحب غیرت ہے ایسا نہ ہوا اپنی جان دے اب کہاں جاکر تلاش کروں۔ (طلسم ہوشربا، جلد ہفتم، از احمد حسین قمر، ص، ۳۶ تا ۳۷)


یہ داستان گوئی کا بہترین نمونہ نہیں ہے، لیکن نمائندہ نمونہ ضرور ہے۔ خیال کو تقریر کی شکل میں دکھانے کے پیچھے یہ قدیم نظریہ ہے کہ خیال دراصل خاموش تقریر ہوتا ہے، اور خود تقریر دراصل بولی ہوئی تحریر ہوتی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ داستان گو صرف وہی واقعات بیان کر سکتا ہے جن کا دیکھنا ممکن ہو۔ دل میں گذرنے والے خیال کو کوئی نہیں دیکھ سکتا، لہٰذا داستان میں خیال کو گفتگو کی شکل میں پیش کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے پرانی داستانوں اور رزمیوں میں کرداروں کے خیالات بھی ایسی زبان میں بیان کیے جاتے ہیں جو دراصل تحریری زبان ہوتی ہے۔ تحریر اور تقریر کے بارے میں یہ نظریہ اب بالکل غلط ثابت ہو چکا ہے۔ لیکن آپ کو صحیح نظریہ لینا ہے یا کامیاب افسانہ نگاری کرنی ہے؟ افسانہ نگار جب داستانی شعریات قبول کر رہا ہے تو اس کے لیے تو وہی نظریہ درست ہوگا جو اس شعریات سے برآمد ہو۔ اس اقتباس میں مندرجہ ذیل باتیں لائق توجہ ہیں،


(۱) تقریر یعنی Speech act کی زبان، آہنگ اور لہجہ۔
(۲) حال، ماضی، مستقبل کی یک جائی (عمرو۔۔۔ کاہے۔۔۔ بیٹھےگا۔۔۔ جلوہ فرما رہے ہیں۔۔۔ ارادہ کرتے ہیں۔۔۔ قدم نہیں ہٹاتے۔)
(۳) ماضی کا بطور حال کے استحضار (کیا کیا جفا اٹھائی۔۔۔ قید رہا۔۔۔ چاہئے تھا حوصلہ پست ہوتا۔۔۔ نہ جمے گا۔۔۔ چلے جاتے۔۔۔ اور حوصلہ بڑھا۔)
(۴) مستقبل اور حال کا ادغام (گر جاؤ گے۔۔۔ نابلد ہے۔۔۔ مشہور و معروف نہ ہو۔۔۔ نامردی ہے۔)
(۵) دو تقریروں کے بیچ میں بیان (عمرو نے دیکھا۔)
(۶) ماضی کا بطور حال کے بیان (عمرو نے دیکھا۔۔۔ مارے جا چکے۔۔۔ چور ہو چکا۔)
(۷) ماضی کا فلیش بیک (Flash back)


اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ یہ محض خیال بطور تقریر نہیں ہے، بلکہ تقریر کے اندر بھی ماضی، حال اور مستقبل کے واقعات کا عمل جاری رہتا ہے۔ یہ بظاہر سادہ سی تحریر بہت پیچیدہ اور حرکت سے بھرپور ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ہمارے افسانہ نگار کو چاہیے کہ وہ داستانی زبان استعمال کرے۔ ہمارے شعرا کو جب میر کی نقل سوجھتی ہے تو ’’آؤ ہو‘‘، ’’جاؤ ہو‘‘، ’’چمن کے بیچ‘‘ لکھ کر خوش ہو لیتے ہیں کہ ہم نے حق ادا کر دیا اور نثرنگاروں کو جب داستانی رنگ اپنانا ہوتا ہے تو وہ ’’صاحبو، قصہ کچھ یوں ہے‘‘، ’’اے مردنیک نہاد‘‘ وغیرہ قسم کے فقرے لکھ لکھاکر سمجھتے ہیں کہ ہم نے ’’بوستان خیال‘‘ دوبارہ لکھ دی۔


جی نہیں، میں تو ان ترکیبوں کو اپنانے کی سفارش کر رہاہوں جن میں سے بعض کو ہم نے مندرجہ بالا عبارت میں دیکھا۔ بیانیہ کی ایسی بہت سی ترکیبیں قرۃ العین حیدر نے استعمال کی ہیں اور بڑی خوبی کے ساتھ۔ انھوں نے داستان گویوں کی اس ترکیب کو سمجھ لیا ہے کہ افسانہ حرکت سے عبارت ہے اور حرکت کا راز زمانے کی یک وقتی (simultaneity) میں ہے۔ م۔ ق۔ خاں لکھتے ہیں،


’’وہ جگہ دیوتاؤں اور دیویوں سے بھر گئی۔ ان کے ہمراہ اگر رشی منی تھے تو بھوت اور اسور بھی تھے، برہما عجیب وحشیانہ ڈھنگ سے جھانجھ پیٹ رہے تھے۔ وشنو ڈھول بجا رہے تھے۔ سرسوتی دنیا کے تاروں کو چھیڑ رہی تھی اور اندر مرلی کی تان اڑا رہے تھے اور بھوت اسور بدمست ہوکر محو رقص تھے، نٹ راج کی جٹا طوفان کی زد میں آئے درختوں کی طرح دیوانہ وار جھوم رہی تھی۔‘‘


یہاں افسانہ نگار کو علامتیں جمع کرنے کا اتنا شوق ہے کہ انھیں عبارت بنانے کی فرصت نہیں۔ اسی ٹکڑے کو احمد حسین قمر کی طرح ماضی، حال اور مستقبل کے ادغام کے ساتھ لکھئے تو فرق معلوم ہو جائے۔ مظہر الزماں خاں کی عبارت میں زیادہ تناؤ ہے، اگر حرکت بڑھ جائے تو ان کے امکانات اور روشن ہوں۔


نئے افسانہ نگار نے پریم چندی افسانے کو مسترد کرکے ادب کی ایک اہم خدمت انجام دی ہے۔ اس نے بڑی قربانیاں دے کر یہ سبق سیکھا ہے کہ کردار محض ایک کھونٹی ہے جس پر کسی بھی قسم کا لباس ٹانگا جا سکتا ہے۔ لیکن پریم چندی افسانے سے اس کو ابھی پوری گلوخلاصی نہیں ملی ہے۔ دوسری طرف اسے نثری نظم کا خطرہ ہے۔ نثر کا ہفت خواں طے نہ کر سکنے کے باعث اس کا قافلہ نثری نظم کے نخلستان میں ٹھہرتا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ نثری نظم میں آسانی یہ ہے کہ بات کم لفظوں میں کہہ دی جاتی ہے۔ لیکن افسانہ لفاظی مانگتا ہے۔ پروست (Marcel Proust) نے اس بظاہر سادہ سی بات کو سمجھتے سمجھتے بیس برس لگا دیے۔ لیکن ہمارے افسانہ نگاروں کو مایوس ہونے کی ضرورت نہیں۔ افسانے کا میدان بہت وسیع ہے۔ جو لوگ افسانے میں ’’کہانی کی واپسی‘‘ جیسا بے معنی اور حقیقت سے عاری جملہ گڑھ کر خوش ہو رہے ہیں، انھیں ابھی بہت کچھ افسوس کرنا ہے۔


افسانہ اب ہمیشہ کے لیے دو اور دو چار قسم کی کردار نگاری سے آزاد ہو چکا۔ نئے افسانہ نگار نے یہ بہت بڑی منزل سر کر لی ہے۔ نئے افسانہ نگاروں کو اب ایسے افسانے لکھنا ہیں جن میں واقعہ پوری انسانی دلچسپی کے ساتھ رونما ہو اور جس کے کردارمحض ’’میں‘‘، ’’وہ‘‘، ’’لنگڑا آدمی‘‘، ’’الف‘‘، ’’اجنبی‘‘ وغیرہ ناموں سے نہ پکارے جائیں۔ رہی علامت اور تجرید، تو اس کا استعمال حسب توفیق سب ہی کریں گے۔ اردو افسانے میں دیہات کی پیش کش، اردو افسانے میں مزدور کی پیش کش، اردو افسانے میں نفسیات، اردو افسانے میں فلسفہ، یہ سب تو ہو چکا۔ اب ذرا واقعہ بیاں ہو جائے۔