افسانے کی حمایت میں (۱)
بات یہ ہے رام لعل صاحب کہ ان معاملات پر مناسب ترین رائے دینے کے لئے مجھ سے بہتر لوگ اس وقت موجود ہیں، لیکن چونکہ آپ نے ہیری ٹی مور (Harry T. Moore) کی کتاب ’’بیسویں صدی کا فرانسیسی ادب‘‘ دیکھ کر مجھ سے پوچھا ہے کہ اس میں افسانہ نگاروں کا ذکر کیوں نہیں ہے، اس لئے حسب توفیق دو چار باتیں عرض کروں گا۔
یہ درست ہے کہ یہ کتاب ناول نگاروں کے ذکر سے بھری ہوئی ہے، کیونکہ آج فرانس میں ناول نگار لاتعداد ہیں لیکن کوئی ادیب ایسا نہیں ہے جو محض افسانہ نگاری کے بل بوتے پر زندہ ہو۔ افسانہ پہلے بھی کوئی بہت اہم صنف نہیں تھا اور آج تو ناول کا دوبارہ احیا ہو رہا ہے، اس لئے آج افسانے کی وقعت پہلے سے بھی کم ہے۔ فرانس اور انگلستان میں، بلکہ سارے مغرب ہی میں، افسانے کو ناول کی بس ضمنی صنف قرار دیا گیا ہے۔ ناول خود ہی نوآمدہ صنف ہے اور افسانہ اس کے بھی کوئی سو برس بعد وجود میں آیا۔ جی ہاں اردو میں تو یقیناً ایک سے ایک بڑا اور مشہور جغادری مصنف ہے جس کی زیادہ تر شہرت کا دارومدار محض افسانہ نگاری پر ہے، لیکن اولاً تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اردو میں باقاعدہ ناول نگاری کا ابھی آغاز ہی نہیں ہوا ہے۔
جن دنوں نئے ناول نگاروں کی ایک کھیپ نذیر احمد اور سرشار کے پیچھے پیچھے میدان میں کو دی تھی، ہمارے یہاں افسانے کا کوئی ذکر نہ تھا۔ ’’امراؤ جان ادا‘‘ (۱۸۹۹) کے بعد تو بظاہر لازمی تھا کہ ناول کو خوب فروغ ہوتا اور۱۸۹۰ء سے ۱۹۲۵ء کے درمیان ناول بکثرت لکھے بھی گئے، بھلے ہی ان کا معیار بہت بلند نہ رہا ہو، لیکن نہ معلوم کیا وجہ ہوئی کہ اس کے بعد اردو ناول کے بازار میں وہ رونق نہ رہی۔ پریم چند کے سوا تمام اہم، غیر اہم، نئے پرانے لوگوں نے صرف افسانے کو اپنا لیا۔ ظفر عمر کے جاسوسی ناولوں کی غیرمعمولی کامیابی نے بھی جاسوسی ناول نگاری کو کچھ مہمیز نہ دی اور ہمیں جاسوسی ناول کے لئے ابن صفی کا انتظار کرنا پڑا۔
افسانے کی گرم بازاری کے باعث ایک دن وہ بھی آ گیا جب واجدہ تبسم نے ’’بیسویں صدی‘‘ میں انٹرویو دیتے ہوئے فرمایا کہ ان کے خیال میں اردو افسانہ اب اس قابل ہو گیا ہے کہ دنیا کے افسانوں سے آنکھ ملا سکے۔ چہ خوش! اردو میں بمشکل تمام درجن بھر واقعی زوردار فسانے لکھے گئے ہیں اور وہ بھی مختلف مجموعوں میں دفن ہیں۔ یکجا نہیں ملتے۔ کوئی شخص موپاساں یا چیخوف وغیرہ کے بہترین افسانے براہ راست دنیا کے بازار سے لاکر اردو افسانوں کے سامنے رکھتا تو اور بات تھی۔ انگریزی کے (بعض اوقات) ناقص تراجم سے ترجمہ کئے ہوئے چند افسانوں کی روشنی میں کسی صاحب کا یہ کہنا کہ فلاں افسانہ نگار میں چیخوف، گورکی اور تمام الم غلم افسانہ نگاروں کا امتزاج ملتا ہے، ویسا ہی ہے جیسے میں کہہ دوں کہ فلاں کی شاعری میں شیکسپیئر، سافکلیس (Sophocles) فردوسی اور لی پو (Li Po) کا امتزاج ملتا ہے۔
یہ تو ایسا ہی ہے جیسا ایک زمانے میں ہم کبھی میر انیس کو شیکسپیئر ہند یا ہومر ہند کہتے تھے اور کبھی نظیر اکبرآبادی کو شیکسپیئر کا ہم پلہ بتاتے تھے۔ کبھی غالب کو گوئٹے سے بھڑانے کے لئے ہم لوگ ہر مضمون میں پانچ سات بار ’’غالب اینڈ گوئٹے‘‘ ڈال دیا کرتے تھے، کبھی آغا حشر خود کو ’’شیکسپیئر ہند‘‘ کا خطاب دے کر دل کی مونچھوں پر تاؤ دیتے تھے۔ اس طرح کے دعووں میں محنت نہیں کرنی پڑتی اور رنگ (اپنے حسابوں) چوکھا آتا ہے۔ خالی خولی دعویٰ کرنا آسان ترین ہنر ہے اور یہی ہنر ہمارے نقادوں کو محبوب رہا ہے۔ لطف یہ بھی ہے کہ نئے پرانے لوگ سب یہی کہتے ہیں کہ ہماری تنقید شاعری کے علاوہ کسی اور فن کی بات ہی نہیں کرتی۔ وہ شاکی ہیں کہ افسانے پر ہمارے یہاں تنقید کم لکھی گئی۔ ذرا سوچئے اگر آپ کے یہاں چیخوف، موپاساں اور ٹامس مان کے ہم پلہ افسانہ نگار موجود ہوتے تو کیا تنقید کو کتے نے کاٹا تھا جو ان کا ذکر نہ کرکے چھٹ بھیے شاعروں کا ذکر کرتی؟
اصل الاصول تو یہ ہے کہ خالص فن کے اعتبار سے افسانہ اتنی گہرائی ور باریکی کا متحمل ہی نہیں ہو سکتا جو شاعری کا وصف ہے، لیکن دوسری حقیقت یہ بھی ہے کہ ہمارے یہاں افسانے اور ناول کا وجود اتنا پر قوت اور نمایاں نہیں ہے جتنا شاعری کا ہے۔ بڑے ادیبوں کا ذکر ہو تو ہمیں غالب، میر، اقبال ہی یاد آتے ہیں، پریم چند، منٹو اور بیدی نہیں۔ پھر ناول اور افسانے پر تنقید ہو تو کہاں سے ہو؟ اس وقت تو حالت یہ ہے کہ ایک بڑے یا مشہور افسانہ نگار کے جواب میں کم سے کم چار اتنے ہی مشہور اور اہم شاعر پیش کئے جا سکتے ہیں۔ اور یہ بھی صرف ہمارے عہد کی بات ہے۔ اقبال کے زمانے تک تو افسانہ نگار بس پریم چند ہی تھے۔ کیا کہا آپ نے؟ مثالیں؟ اقبال کے عہد میں بڑے بڑے شاعروں اور مشہور شاعروں کے نام لیجئے۔
اقبال نے جب شاعری شروع کی تو حالی، داغ اور امیر و جلال اور شاد عظیم آبادی کا غلغلہ تھا۔ اور جب ختم کی تو حسرت، فانی، یگانہ، جوش اور اختر شیرانی کا طوطی بول رہا تھا۔ جگر اور فراق اچھی طرح جم چکے تھے، اور ن۔ م۔ راشد، میراجی، مجاز، فیض کا ذکر ہونے لگا تھا۔ ۱۹۰۰ سے ۱۹۴۰ تک اس عرصے میں آپ نے کتنے افسانہ نگار پیدا کئے؟ بس ایک پریم چند۔ اجی چھوڑئیے۔ سجاد حیدر یلدرم، نیاز فتح پوری، مجنوں گورکھپوری، سلطان حیدر جوش، اعظم کریوی، مہاشے سدرشن وغیرہ کو بڑے افسانہ نگاروں میں رکھئےگا تو ایک وقت ایسا آ جائےگا جب آپ فدا علی خنجر، زکی انور، قیسی رام پوری کو بھی کرسی نشین کرنے سے گریز نہ کریں گے۔ ہمارے عہد میں افسانہ نگاروں کی کثرت ہے، لیکن شاعروں کی تو بےمبالغہ بھیڑ ہے جو امڈی چلی آتی ہے۔
ترقی پسند افسانہ نگار؟ جناب اس حقیقت سے انکار کرنا مشکل ہے کہ ترقی پسندوں نے افسانے کو اس لئے فروغ دیا کہ ادب سے جس قسم کا وہ کام لینا چاہتے تھے، اس کے لئے افسانہ موزوں ترین صنف تھا ورنہ انہیں افسانے سے کوئی محبت نہ تھی۔ جی، آپ کو حیرت ہو رہی ہے کہ اس طرف لوگوں کا دھیان کیوں نہیں گیا؟ اجی اس میں حیرت کی کیا بات ہے، ادب کا معاملہ ہی ایسا ہے کہ لوگ از خود ظاہر حقائق کو نظر انداز کرتے رہتے ہیں اور جب کوئی بھلا آدمی ان سے کہتا ہے کہ اس سچائی کی بھی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھئے تو اسے طرح طرح کے خطابات سے نوازا جاتا ہے۔
ورنہ ایمان کی تو یہ ہے کہ ترقی پسندوں نے جس طرح غزل کی مخالفت اور افسانے کی حمایت کی، وہ خود اس بات کی دلیل ہے کہ وہ حالی کے دسترخوان کے بچے ہوئے نوالوں سے اپنا تنقیدی خوان سجا رہے تھے۔ اگر حالی کے دور میں افسانے کا وجود ہوتا تو حالی بھی شاعری کو یک قلم مسترد کرکے افسانہ نگاری کی تلقین کرتے۔ افسانہ نہیں تھا، اس لئے انہوں نے شاعری کو ایک زبردست قسم کا جلاب دے کر عشق، عاشقی وغیرہ کے تمام مسائل کا اسہال کر دیا۔
افسانہ بیچارہ تو تبت کے یاک کی طرح سست قدم لیکن کارآمد ہے، شاعری کی طرح جذباتی آگ سے نہیں کھیلتا۔ ترقی پسندوں نے غزل کو سامراجی نظام کی یادگار کہہ کر اس لئے برادری سے باہر کرنے کی کوشش کی کہ انہیں خوف تھا کہ اگر اس سخت جان لونڈیا کو گھر میں گھسنے دیا گیا تو اچھا نہ ہوگا۔ مولانا حالی کے جلاب کے باوجود اس کے رگ وپے میں دوڑے ہوئے عشقیہ، غیر عملی، غیر پروپیگنڈائی فاسد مادے کا مکمل تنقیہ ممکن نہیں ہے۔ یہ بدمعاش دوسرے ہونہار بچوں کے اخلاق بھی خراب کر دےگی۔ اور ایسا ہی ہوا بھی۔ اردو کا مزاج علی الخصوص اور ادب کا مزاج علی العموم نثر سے زیادہ شاعری کی طرف مائل ہے اور شاعری کا مزاج ہر عہد میں پروپیگنڈے کے خلاف رہا ہے۔ چنانچہ حسرت موہانی سے لے کر فیض اور مخدوم تک جس نے بھی غزل کہی، وہی زلف ورخسار کی بات کہی، صرف پیرائے بدل گئے۔
لیکن ترقی پسندی اور اس کے فوراً بعد والے عہد میں افسانے کی مقبولیت سے یہ دھوکا کھانا کہ افسانہ بذات خود کوئی بڑی تیس مار خاں ٹائپ کی چیز ہے اور اردو افسانہ خاص کرکے بہت قد آور اور جان دار ہے، بڑی غلطی ہوگی۔ سوکی سیدھی بات یہ ہے کہ جس صنف کی عمر ابھی آپ کے یہاں مشکل سے ستر پچھتر سال کی ہوئی ہو، اس میں کسی عظیم تحریر کا امکان زیادہ نہیں ہو سکتا۔
یہ تو ہماری خوش نصیبی ہے کہ دو چار واقعی بڑے ادیبوں مثلاً پریم چند اور منٹو اور بیدی نے افسانے کو اپنا لیا۔ اور اب تک جو افسانہ لکھا گیا ہے اس میں بڑے افسانے کثیر تعداد میں نہ سہی، بہت اچھے افسانے کثیر تعداد میں یقیناً مل جاتے ہیں اور اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ professional competence رکھنے والے افسانہ نگار جن سے اکا دکا بڑا افسانہ بھی سرزد ہو گیا ہو، یا ہو سکتا ہے، اردو میں بہت ہیں۔ لیکن ان کی مقبولیت اور شہرت کی بنا پر مغالطہ نہ کھانا چاہیے کہ ہمارے یہاں عالمی معیار کے بہت سارے افسانے بکھرے پڑے ہیں۔
خیر، اردو کے سیاق و سباق کو چھوڑیے اور عمومی حیثیت سے بات کیجئے۔ کیا آپ کسی عظیم مصنف کا نام بتا سکتے ہیں جس نے محض افسانہ نگاری کی بنا پر عظمت کا تاج پہنا ہو؟ ایک موپاساں کا نام ذہن میں آتا ہے، لیکن اس نے بھی منھ جھوٹا کر لینے کی حد تک ناول کا مزا چکھا ہے بلکہ اس کا ایک ناولٹ ’’ایک عورت کی کہانی‘‘ تو بلاشبہ بڑے ناولوں کے زمرے میں آتا ہے اور میرے خیال میں اس کو بقائے دوام بخشنے کے لئے یہی ناول بہت تھا۔ جی، چیخوف؟ جناب چیخوف کی اہمیت اور خاص کر اس عہد میں، تو اس کے ڈراموں کی وجہ سے ہے۔ اگر چیخوف سے ڈراما الگ کر لیجئے تو اس کی قدر آدھی بھی نہیں رہ جاتی۔ حاصل معاملہ یہ ہے کہ افسانے بھی انہیں لوگوں نے لکھے جو اصلاً ناول نگار تھے۔
ڈکنس کی مثال سامنے کی ہے۔ اسے کون افسانہ نگار کہےگا؟ اور ہمارے زمانے میں تو سب کے سب، کافکا ہو یا مان، سارتر ہو یا کامیو، جوائس ہو یا ڈی ایچ لارنس، سب نے ناول لکھے ہیں، ان میں کوئی ایسا نہیں ہے جسے ہم محض افسانہ نگار کی حیثیت سے جانتے ہوں۔ دیکھئے ناول کے مقابلے میں افسانے کی وہی حیثیت ہے جو ہمارے یہاں غزل کے مقابلے میں رباعی کی ہے۔ تقریباً ہر بڑے شاعر نے غزل کے ساتھ ساتھ رباعی لکھی ہے۔ مرثیہ نگاروں کو لیجئے تو انیس و دبیر سامنے آتے ہیں۔ نظم نگاروں کو لیجئے تو جوش، اقبال نے اگرچہ رباعی کے روایتی، مقررہ اوزان کو نظرانداز کیا، لیکن انہوں نے ہزج مسدس محذوف میں جو مصرعے لکھے ہیں، انہیں وہ رباعی ہی کہتے ہیں۔ ان سب نے رباعی میں فنکاری کا اعلیٰ اظہار کیا ہے۔
لیکن کیا آپ یہ فرض کر سکتے ہیں کہ میر، غالب، سودا سے لے کر جوش و فراق تک سب کی شہرت و عظمت بطور رباعی گو کے ہے؟ اگر رباعی گویوں کی حیثیت سے مشہور شعرا کے نام سوچیے تو کیا نظر آتا ہے؟ اموجان ولی دہلوی، جگت موہن لعل رواں اور امجد حیدرآبادی۔ تو کیا آپ کے خیال میں یہ حضرات غالب اور میر کے برابر ہیں؟ یا جعفر علی حسرت کا ناپید دیوان رباعیات، یا امو جان ولی کا ڈھائی جزو کا دیوان رباعیات، میر کے چھ دیوانوں میں سے ایک کے بھی برابر ہے؟ رام نرائن موزوں، بدھ سنگھ قلندر، محمد علی تشنہ، ایک ایک غزل، بلکہ ایک شعر کے بوتے پر زندہ رہ گئے۔ کیا آپ کے خیال میں کوئی ایسا بھی شاعر ہے جو محض ایک رباعی کے سہارے زندہ ہو؟ بس بالکل یہی حال افسانے کا ہے۔
عبداللہ حسین نے چار چھ افسانے لکھ کر توجہ اپنی طرف منعطف کی۔ لیکن وہ ’’اداس نسلیں‘‘ نہ لکھتے تو عبداللہ حسین کو ایک ہونہار افسانہ نگار سے زیادہ کیا کہا جا سکتا تھا؟ کرشن چندر یا بیدی یا منٹو یا پریم چند کے اہم افسانوں کا ذکر و مطالعہ آج آپ شوق و تفصیل سے کرتے ہیں، لیکن اس شوق و تفصیل میں بعد از وقوعہ والی عقل بھی شامل ہے۔ ’’مردہ سمندر‘‘ یا ’’کفن‘‘ کی اشاعت پر اتنا غلغلہ نہیں اٹھا تھا جتنا ایک اہم ناول مثلاً ’’آگ کا دریا‘‘ کی اشاعت پر اٹھا۔ آج یورپ کے ادبی حلقے آرنلڈ شمٹ (Arnold Schmidt) کے ناول Bottom’s Dream پر بحثیں کرتے پھر رہے ہیں، حالانکہ یہ اس کی پہلی تحریر ہے جو معرض طباعت میں آئی ہے۔
یہی حال کوئی آٹھ سال پہلے ایک اور جرمن رالف ہاخ ہوتھ (Ralph Hohchhhut) کے مشہور ڈرامے The Deputy کا ہوا۔ مغرب کے ہر ادبی حلقے میں اس پر اتنی گرم گرم بحث ہوئی اور اس طرح اس کے ہر کردار اور واقعے کا تجزیہ کیا گیا کہ کیا ارنسٹ جونز (Emest Jones) نے ہیملٹ کا تجزیہ کیا ہوگا۔ آپ کے خیال میں کسی یک اہم ترین اور عظیم ترین افسانے کی اشاعت پر بھی اتنی دلچسپی اور بحث و مباحثہ ممکن ہے یا ممکن تھا؟
یہ تسلیم کہ غالب اگر صرف رباعی گو ہوتے یا ہاخ ہوتھ صرف ایک افسانہ یا یک بابی ڈراما لکھتا تو اس محدود فضا میں بھی ان کی عظمت جھلک اٹھتی، لیکن وہ کتنے ہی بڑے آدمی کیوں نہ ہوتے، رہتے تو چھوٹے ہی گھروں میں۔ ان کو پھیلنے کا موقع کہاں ملتا؟ دوسری طرح کہیے تو یوں کہیے کہ بڑے ادیب اپنے اظہار کے لئے بڑے وسائل ہی استعمال کرتے ہیں۔ اقبال، میر و غالب و انیس کے لئے یہ ممکن ہی نہ تھا کہ وہ صرف رباعی کہہ کر صبر کر لیتے۔ شیکسپیئر اور ملٹن صرف سانٹ نگار ہوکر نہ رہ سکتے تھے۔
ہاں یہ ٹھیک ہے کہ آپ اس کی وجہ پوچھیں کہ افسانہ چھوٹی صنف ادب کیوں ہے؟ اگر صرف ضخامت ہی معیار ہوتا (اگرچہ یہ بھی معیار ہے، کیونکہ ’’یولی سیز‘‘ (Ulysses) میں جتنی عقل (wisdom) بھری ہوئی ہے، وہ اگرچہ اقداری طور پر گور کی کے افسانے ’’چھبیس آدمی اور ایک لڑکی‘‘ میں بھری ہوئی عقل کی طرح ہو سکتی ہے، لیکن مقداری طور پر اس سے کم ہی ہوگی۔ ملحوظ خاطر رہے کہ میں ہر ہماشما کے ناول کا موازنہ گورکی کے افسانے سے نہیں کر رہا ہوں۔ صادق صدیقی سردھنوی کے پورے ناول ’’ایران کی حسینہ‘‘ میں جتنی عقل صرف ہوئی ہے اس سے زیادہ عقل گورکی نے اپنے ایک پیراگراف میں صرف کی ہوگی۔
لیکن میں تذکرہ کر رہا ہوں دو ایسے فنکاروں کا یعنی جوائس اور گورکی، جن میں تقابل ہو سکتا ہے۔۔۔ ہاں تو اگر صرف ضخامت کو معیار فرض کیا جائے تو مختصر ترین افسانہ بھی پانچ شعر کی غزل یا آٹھ مصرعوں کی نظم سے زیادہ ضخیم ہوتا ہے۔ پھر افسانے کو غزل یا نظم کے مقابلے میں چھوٹی صنف کیو ں کہئے؟ مان لیا کہ ڈرامے اور ناول کے مقابلے میں افسانے کو کم تر کہنا ہوگا۔ لیکن اس کو شعر سے کیوں چھوٹا کہا جائے؟
شاعری کے نقاد یہ نہیں کہہ سکتے کہ شاعری فی نفسہ نثر سے اعلیٰ تر ہوتی ہے، کیوں کہ یہ اس قسم کا گول مول جواب ہوا جس کو سن کر افسانہ نگار بجا طور پر ناراض ہو سکتا ہے اور کہہ سکتا ہے نثر تو زیادہ مہذب اور شائستہ (sophisticated) طرز اظہار ہے، شاعری پہلے پیدا ہوئی، نثر بعد میں۔ شاعری نے جب جنم لیا ہوگا تو انسان بےچارہ شاید لکھنے پڑھنے کی بھی صلاحیت سے محروم رہا ہوگا۔ جوں جوں ذہن ترقی کرتا ہے، نثر نکھرتی جاتی ہے۔
جہاں تک ہم جانتے ہیں، ہر ادب میں ایسا ہوا ہے کہ شاعری پہلے پیدا ہوئی، نثر بعد میں، بلکہ بعض زبانوں میں تو اس وقت بھی نثر کا باقاعدہ وجود نہ تھا جب ان کی شاعری ترقی کی اعلیٰ منزلیں طے کر چکی تھی۔ عربی کی مثال سامنے کی ہے۔ میرا خیال ہے کہ قرآن کا یہ دعویٰ کہ اگر یہ شاعری ہے تو اس جیسی دو آیتیں بھی بناکر لے آؤ، اس وجہ سے اور بھی مسکت و محکم تھا کہ اس زمانے تک عربی زبان میں ادبی نثر معدوم تھی۔
بہر حال، سوال اٹھ سکتا ہے کہ اگر نثر ترقی یافتہ ذہن کی تخلیق ہو تو یہ شاعری سے اسفل کیوں کر ہوئی؟ شاعری تو غیر مہذب وحشی قبائل کے بھی بس میں آ جاتی ہے۔ بھیلوں اور گونڈوں کے یہاں بھی اعلیٰ شاعری کے نمونے مل جائیں گے، لیکن کیا وہ خطوط غالب کا جواب پیش کر سکیں گے؟ لہٰذا افسانے کو چھوٹا ثابت کرنے کے لئے کچھ اور کہنا پڑےگا۔ اگر یہ کہا جائے کہ شاعری ایک مخصوص طرح کے علم کا اظہار کرتی ہے جس پر افسانے کو قدرت نہیں ہوتی تو جواب میں کہہ سکتے ہیں کہ افسانہ بھی ایک مخصوص طرح کے علم کا اظہار کرتا ہے، شاعری جس پر قادر نہیں ہوتی۔ اگر یہ کہا جائے کہ شاعری میں ارتکاز concentration کا وصف ہوتا ہے، تو ہم افسانے میں وسعت اور تحلیل نفسی کی ایسی کار فرمائی دکھا سکتے ہیں جو شاعری کے بس میں نہیں ہے۔
جی نہیں، اس پر زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ بات تو تاریخی طور پر ثابت ہے کہ افسانہ ایک فروعی صنف ادب رہا ہے اور ادب کے خاندان میں اس کی حیثیت چھوٹے بیٹے کی سی رہی ہے، جو اگرچہ بڑے بیٹے سے زیادہ ہوشیار ہو سکتا ہے، لیکن اسے بڑے بیٹے کے برابر وقعت کبھی نصیب نہیں ہوتی۔ تو ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اب اس منزل پر آکر آپ پچھلے دلائل کو بھلاکر یہ نہیں کہہ سکتے کہ فاروقی صاحب آپ افسانے کو کم تر سمجھتے ہوں تو سمجھتے ہوں لیکن میرے خیال میں افسانہ شاعری سے کسی طرح کم نہیں۔ آٖپ مجھے بہ خوشی نظر انداز کر دیں، مگر تاریخ کو کہاں لے جائیں گے؟ وہ تو آپ کی گردن میں بندھی ہی رہےگی۔
تاریخ کمبخت تو یہی بتاتی ہے کہ کوئی شخص صرف و محض افسانہ نگاری کے بانس پر چڑھ کر بڑا ادیب نہیں بن سکا ہے۔ خود افسانہ نگاری کے حامیوں اور نقادوں کا یہ حال ہے کہ ابھی کچھ دن ہوئے ایک کتاب افسانہ نگاری پر نکلی ہے، اس کا عنوان ہی ہے The Modest Art۔ آپ اس کو احساس کم تری کہیں تو کہیں، لیکن احساس کم تری کا اظہار تو عام طور پر ڈینگیں مارنے کی شکل میں ہوتا ہے۔ بہر حال اس قضیے کو چھوڑیے، افسانے کی کمزوری کیا ہے؟ اس پر غور کیجئے۔
کبھی آپ نے یہ سوچا ہے کہ افسانے کی بنیادی خصوصیت کیا ہے؟ بنیادی خصوصیت سے میری مراد وہ عنصر ہے جس کے بغیر افسانے کا تصور نہ کیا جا سکے۔ فرض کیجئے کہ میں کہوں کہ افسانے کی بنیادی خصوصیت بیانیہ Narrative ہے تو اس سے آپ کو انکار تو نہ ہوگا؟ تو پھر آگے چلیے۔ افسانے کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ اس کا بیانیہ کردار پوری طرح بدلا نہیں جا سکتا۔ یعنی افسانے میں یہ ممکن نہیں ہے کہ آپ مسلسل اور ہر جگہ بیانیہ سے انکار کرتے چلیں۔ مکالمہ مسترد ہو سکتا ہے، کردار مسترد ہو سکتا ہے، پلاٹ غائب کر سکتے ہیں، ماحول اور جزئیات کو حذف کر سکتے ہیں، لیکن اس کے آگے نہیں۔ پلاٹ غائب کر دینے پر بھی بیانیہ کسی نہ کسی شکل میں موجود رہتا ہے۔ آپ time sequence کو الٹ پلٹ سکتے ہیں لیکن افسانے میں time ہی نہ ہو، یہ ممکن نہیں ہے۔ گویا افسانہ time کے چوکھٹے میں قید ہے، اس سے نکل نہیں سکتا۔
یعنی یہ ممکن نہیں ہے کہ افسانے میں کچھ واقع نہ ہو، اس میں کوئی وقوعہ event نہ ہو۔ لہٰذا افسانے میں انقلابی تبدیلیاں ممکن نہیں ہیں۔ بس ایک انقلابی تبدیلی آپ نے کر لی کہ پلاٹ غائب کر دیا، time sequence کو upset کر دیا، اس کے آگے آپ کی گاڑی رک جاتی ہے۔ بڑی صنف سخن وہ ہے جو ہمہ وقت تبدیلیوں کی متحمل ہو سکے۔ افسانے کی چھوٹائی یہی ہے۔ اس میں اتنی جگہ نہیں ہے کہ نئے تجربات ہو سکیں۔ ایک آدھ بار تھوڑا بہت تلاطم ہوا اور بس۔
آپ نے سانیٹ کے بارے میں غور کیا ہے؟ انیسویں صدی کی آٹھویں دہائی آتے آتے سانیٹ انگلستان سے غائب کیوں ہو گئی؟ فرانس میں ذرا دیر اور چلی، یعنی انیسویں صدی کی آخری دہائی تک ملارمے وغیرہ نے سانیٹ لکھے ہیں۔ لیکن اس کے بعد؟ اپنے اپنے وقتوں میں سب بڑے شاعروں نے اس صنف کو نوازا لیکن زندہ نہ رکھ سکے۔ جنگ عظیم پر لکھنے والے شعر سیسون (Seigfried Sassoon) نے طنزیہ سانیٹ ضرور لکھے ہیں۔ آڈن (Auden) نے بھی اس میں تھوڑی بہت توڑ پھوڑ کر لی، لیکن پھر بھی سانیٹ اب ایک بہت ہی سکڑی ہوئی صنف ہوکر رہ گئی ہے جسے کوئی منھ نہیں لگاتا۔ اگر اس صنف میں انقلابی تبدیلیوں کی مسلسل گنجائش ہوتی تو اسے یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔ ملٹن (Milton) اور ورڈز ورتھ (Wordsworth) نے سانیٹ میں جو کچھ ممکن تھا، کر ڈالا۔ اس کے بعد گنجائش ختم، صنف سخن بھی خاموش۔
جی ہاں، مجھے معلوم تھا آپ غزل کی مثال سامنے لائیں گے۔ ہزاروں برس سے نہیں تو سیکڑوں برس سے غزل اسی ڈھرے پر ہے۔ وہی مطلع و مقطع، وہی ردیف وقافیے کا چکر۔ لیکن جناب میں غزل کی ظاہری ہیئت یا افسانے کی ظاہری ہیئت کے بارے میں بات نہیں کر رہا ہوں۔ ان انقلابی تبدیلیوں کی بات کر رہا ہوں جو غزل کی روح میں برپا ہوئی ہیں۔ مثلاً آپ نے کبھی یہ غور کیا ہے کہ جس زبان (یعنی فارسی) کے اثر سے غزل ہمارے یہاں آئی، خود اس میں غزل کا کیا حال ہے؟ آج ایران میں کوئی قابل ذکر شاعر غزل نہیں کہتا اور جو غزلیں وہاں کہی جا رہی ہیں وہ اس قدر پست و محدود قسم کی ہیں کہ ان کو جدید ایرانی نظم کے سامنے رکھتے شرم آتی ہے۔ کیا یہ تعجب کی بات نہیں ہے کہ حافظ و سعدی و رومی کی روایت میں پروردہ شعراا ٓج غزل نہیں کہہ پا رہے ہیں؟
لیکن ایمان کی بات یہ ہے کہ مجھے اس پر تعجب بالکل نہیں ہوتا۔ کیوں کہ غزل میں جس انقلابی تبدیلی کی بنا سبک ہندی کے شعرا نے رکھی تھی اور جس کو بیدل و غالب نے مکمل کیا تھا، ایرانیوں نے اسے یکسر نظر انداز کر دیا اور آج بھی نظرانداز کر رہے ہیں۔ چنانچہ ایران میں حافظ و سعدی کی روایت جب حرف پارینہ ہو گئی تو اس کی جگہ لینے کے لئے کوئی روایت آگے نہ آئی اور اردو کا یہ حال ہے کہ یہاں شکست و ریخت کا ایک سیلاب ہے جو ولی سے لے کر آج تک تاخت کرتا رہا ہے۔
سبک ہندی نے جو تازہ تخریب اردو غزل میں داخل کی تھی ابھی تک اس کے آثار باقی ہیں۔ دوسری طرف میرا گرچہ غالب کی طرح خالص تعقل کے شاعر نہ تھے، اور انگریزوں کے ہندوستان میں ان کا چرچا غالب سے کم ہوا لیکن جس طرز اظہار و فکر کو انہوں نے قائم کیا تھا وہ آہستہ آہستہ ہمارے عہد میں پھل پھول لایا۔ تیسری طرف سودا اور انشا اور شاہ نصیر و ناسخ کی روایت تھی۔ ان سب نے پچھلے پچاس برس میں غزل کی کھیتی میں بوقلموں خودرو اور قلمی پودے اگائے ہیں۔
مکتبی نقطۂ نظر سے دیکھئے تو بھی غزل میں اس قدر تبدیلیاں ہو چکی ہیں کہ اگر انہیں کو الٹ پھیر کر دہرایا جاتا رہے تو صدیوں کا زاد سفر موجود ہے۔ صوفیانہ، عاشقانہ، فاسقانہ، زاہدانہ کی تقسیم تو حسرت موہانی ہی نے کر دی تھی، لیکن سیاسی، طنزیہ، مفکرانہ، ظریفانہ، یہ سب غزل کی وہ اقسام ہیں جن سے مکتبی نقاد بھی واقف ہیں۔ افسانے میں اس قسم کی تقسیم زیادہ دور تک نہیں جا سکتی۔ غزل بہ یک وقت سیاسی، طنزیہ، مفکرانہ، فاسقانہ، عاشقانہ، زاہدانہ، ظریفانہ ہو سکتی ہے، افسانے میں یہ ممکن نہیں۔ یہ غزل میں انقلابی تبدیلی کے امکان ہی کا تو ثبوت ہے کہ حالی نے جس بازار کو سرد کر دیا تھا اسے حسرت نے چند ہی برسوں میں گرد کر دیا۔ حسرت بڑے شاعر نہ تھے، لیکن غزل اتنی بڑی صنف سخن تھی کہ حسرت جیسے شاعر بھی حالی کی نکتہ چینیوں اور سبک ہندی کی پیچیدگیوں کو بھلاکر داغ، جرأت مومن اور مصحفی کو ہمارے آپ کے درمیان لاکر سر محفل جگہ دینے میں کامیاب ہو گئے۔
مگر میں نے تو آپ سے کہا تھا کہ میں افسانے کی حمایت میں کچھ کہوں گا، یہاں الٹی گنگا بہہ رہی ہے، لیکن جناب، افسانے کی حمایت میں سب سے بڑی بات یہی ہو سکتی ہے کہ اس کو غیر ضروری Pretensions سے آزاد کیا جائے، اس پر غیرضروری بوجھ نہ لادا جائے۔ یہ ظاہر کیا جائے کہ اگر افسانے کو اصناف کی محفل میں رباعی کی سطح پر رکھا جائے تو ٹھیک ہے۔ اس سے فائدہ یہ ہوگا کہ ننھے منے افسانہ نگار جوبڑے بڑے پرچوں میں افسانے چھپواکر خود کو کامیو اور سارتر سمجھنے لگتے ہیں، شاید ناول کی طرف متوجہ ہو جائیں گے۔ میں تنقید میں پیش گوئی کو بہت برا سمجھتا ہوں لیکن یہاں اس خوف کااظہار کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اگر افسانہ نگاری کو ہی ملجا و ماوا سمجھ لیا گیا تو ہمارے افسانہ نگاروں کو آئندہ لکھی جانے والی تاریخوں میں شاید ایک آدھ پیرا گراف کا استحقاق تو مل جائے، لیکن اس سے زیادہ کچھ نہ ہوگا۔
ہاں، یہ سوال اچھا ہے کہ افسانہ کیسا لکھا جائے؟ اس پر بحث ہو سکتی ہے اور ہونی چاہیے۔ مجھ سے ایک نوجوان افسانہ نگار نے پوچھا کہ آپ نے میرے فلاں افسانے کو کیوں پسند کیا تھا؟ انہیں میرا یہ جواب سن کر بڑی حیرت ہوئی کہ میں نے اس میں بیان کردہ خیال پر بالکل توجہ نہیں دی تھی بلکہ یہ دیکھا تھا کہ اس میں افسانہ کتنا ہے اور نثر کیسی ہے۔ اگر افسانہ پڑھ کر محسوس ہو کہ اس میں کوئی غور طلب بات ہے اور جس نثر میں وہ لکھا گیا ہو وہ افسانوی ہو، شاعرانہ نہ ہو، تو افسانہ اپنی پہلی منزل میں کامیاب ہے۔ جیسا کہ میں نے پہلے آپ سے عرض کیا تھا، جدید افسانہ پلاٹ اور time sequence سے انکار کرتا ہے۔ لیکن یہ انکار بھی اپنی منطقی حد تک نہیں لے جایا جا سکتا، کیوں کہ time کے بغیر افسانہ وجود میں نہیں آ سکتا، چاہے وہ temporal time ہو یا actual time ہو یا spiritual time ہو یا ان سب کا امتزاج، جیسا کہ خواب میں ہوتا ہے، افسانہ بیانیہ کا محتاج ہے، جو وقت سے بندھا ہوا ہے۔
چنانچہ یہ سمجھنا کہ بیانیہ سے یک قلم انکار کرکے ہی افسانہ ممکن ہو سکتا ہے، (جیسا کہ بعض نئے افسانہ نگار سمجھتے ہیں) بڑی بھول ہے۔ کامیو (Camus) اور کافکا (Kafka) کے افسانوں میں بیانیہ کا انکار بالکل نہیں ملتا۔ روب گرئیے (Robbe Grillet) کے یہاں بیانیہ سے گریز ہے، لیکن اسی حد تک جتنا کہ ممکن ہے۔ یعنی وہ ناول کے واقعات کو الجھا دیتا ہے۔ کیا ہوا، اس کو پوری طرح صاف نہیں کرتا، لیکن اس کے بیانیہ کے مختلف ٹکڑوں میں وقت کا ربط موجود ہوتا ہے۔ ولیم بروز (William Burroughs) بیانیہ سے مکمل انکار کی پوری کوشش کے باوجود کامیاب نہیں ہوتا۔ کولاژ (collage) کی تکنیک افسانے کی نہیں ہے، میں اسے بصری فن (visual art) کے زمرے میں رکھتا ہوں اور اس کو انسانی ذہن کی اس سیکڑوں برس پرانی کوشش کا نیا اظہار سمجھتا ہوں کہ کسی طرح دیکھا ہوا اور سنا ہوا بالکل ایک ہو جائیں۔ یعنی جس چیز کو آپ دیکھ سکیں، اسی کو آپ سن سکیں۔
غور فرمایا آپ نے؟ آپ کے افسانے ’’چاپ‘‘ میں بیانیہ کا انکار تو کجا، بیانیہ پر شدید اصرار ہے، لیکن پھر بھی اسے اردو کے بہترین افسانوں میں گننا پڑےگا۔ سریندر پرکاش کے افسانے ’’بدوشک کی موت‘‘ یا ’’جپی ژان‘‘ وقت کے ادغام (confusion) کی کوشش کرتے ہیں لیکن بیانیہ سے انکار نہیں کرتے۔ بلراج مین را نے بعض افسانوں میں فلم کی تکنیک استعمال کرنے کی بہت عمدہ کوشش کی ہے، لیکن وہ ناقابل تقلید ہے، نمونے کا کام نہیں دے سکتی۔ ہر افسانہ اسکرین پلے نہیں ہو سکتا اور اسکرین پلے صحیح معنی میں افسانہ ہوتا ہی نہیں۔
ہمارے ہم عصروں میں انور سجاد بیانیہ کو اس طرح disguise کرکے لاتے ہیں کہ وہاں اگرچہ time الٹ پلٹ ہو جاتا ہے لیکن spiritual time سے نزدیک رہتا ہے۔ ظاہری ترتیب بگڑ جاتی ہے لیکن بیانیہ کا دھارا موجود رہتا ہے۔ اسی لئے انور سجاد کے یہاں جدید بیانیہ بہترین شکل میں نظر آتا ہے۔ افسانہ لکھنے کے بہانے نثری نظم لکھنا اور بات ہے۔ لیکن اگر افسانہ ہے، تو بیانیہ ہوگا۔ انتظار حسین اور احمد ہمیش کے افسانے کچھ کم افسانے نہیں ہیں، اگرچہ خالص بیانیہ میں ہیں۔ خالص بیانیہ سے میری مراد ہے ایسا بیانیہ، جس میں واقعات کی زمانی ترتیب کا لحاظ رکھا گیا ہو۔
در اصل افسانے کی حمایت میں سب سے بڑی بات یہ کہی جا سکتی ہے کہ اس کو بیانیہ کی امداد حاصل ہوتی ہے۔ بیانیہ کو شاعری کے ساتھ کچھ خاص ہمدردی نہیں۔ ایڈگر ایلن پو (Edgar Allen Poe) نے تو طویل نظم کو ناممکن بتایا تھا، کہ کوئی شے بیک وقت طویل اور نظم نہیں ہو سکتی۔ یہ تو خیر انتہا پرستانہ بات تھی، لیکن جن منظومات میں بیانیہ بیش از بیش کام میں لایا جاتا ہے، مثلاً مثنوی، یا رزمیہ، یا مرثیہ، وہاں بھی دلکش ترین مقامات عام طور پر وہی ٹھہرتے ہیں جہاں مطلق شاعرانہ طریقے، مثلاً استعارہ یا تشبیہ، بروئے کار لائے جاتے ہیں۔ ہومر کی جو صفت سب سے زیادہ مشہور ہے وہ مکالمہ نہیں بلکہ ’’ہومری تشبیہ‘‘ (Homeric simile) ہے۔ افسانہ وقت کا محکوم ہے، لیکن اسی وجہ سے وہ ہم آپ (جو خود وقت کے محکوم ہیں) کے اوقات اور تصورات کی ان پیچیدگیوں اور مجبوریوں کا اظہار کر سکتا ہے جو شاعری کے ہاتھ نہیں لگتیں۔