افسانہ: اولڈ ایج ہوم

"یہ دنیا جزا سزا کی جگہ نہیں بلکہ امتحان اور آزمائش کا عالَم ہے۔ لیکن ماں باپ کے ساتھ بدسلوکی وہ جرم ہے جس کی سزا اسی دنیا میں مل کررہتی ہے۔"لاؤنج میں رکھے  ٹی وی پر ایک عالِم والدین کے حقوق پر گفتگو کررہے ہیں۔اقبال اور کلثوم سر پکڑے اپنے ماضی پر ماتم کررہے ہیں۔

عالیہ ایک امیر گھرانے کی تعلیم یافتہ لڑکی تھی اس کا والد ریاض شوگرمل کا مالک تھا اور کافی زمین  بھی تھی ۔ناز نخروں میں پلی عالیہ ایک سلجھی اور باکردار خاتون تھی۔عالیہ کی شادی  بھی ایک امیر خاندان کے بااخلاق اور خوب صورت نوجوان نجم سے ہوئی۔عالیہ کے بطن سے بیٹے نے جنم دیا جس کا نام اقبال نجم رکھا گیا۔ نجم شادی دس برس بعد ایک حادثے میں زندگی کی بازی ہار گیا۔اقبال نے شہر کی بڑی کاروباری شخصیت سیٹھ واجد کی بیٹی کلثوم سے شادی کی۔اس وقت اقبال کی عمر تیس برس ہے، اس کا پانچ سال کا بیٹا ہے۔عالیہ اپنی بہو کے گھر رہ رہی ہے۔چونکہ نجم کی وفات کے بعد شوگر مل دیوالیہ ہوگئی ۔اقبال نے شادی کے بعد اس مل کو اونے پونے دام بیچ دی، بیوی کے اصرار پر گھر داماد بن گیا۔ بنک میں جمع شوگر مل کی رقم اورسسرال کی دولت  نے اسے لا اوبالی اور عیاش طبیعت بنا دیا تھا۔ اگرچہ کلثوم کا تعلق ایک امیر گھرانے سے تھا مگر وہ دل کی امیر نہ تھی وہ صرف اپنے شوہر اور بیٹے کی فکر تھی لیکن  ساس سے بے پروا۔اپنی ساس کے لیے اس کے دل کوئی عزت نہ تھی اور نہ وہ اس کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آتی۔کلثوم کو اپنی ساس سے اتنی نفرت تھی کہ اس کے کھانسنے کو بھی برداشت نہیں کرتی تھی جس کی وجہ سےعالیہ کو سرونٹ روم میں جگہ دے رکھی تھی۔دولت کی ہَوس میں مدہوش اقبال کو ممتا جیسے مقدس رشتے کی بالکل قدر نہ تھی۔

رات کا ایک بج رہا ہے اور عالیہ  کے مسلسل کھانسنے سے کلثوم کی نیند خراب ہوگئی ہے۔ کلثوم نے پانی پیا اور سر پکڑ کے بیٹھ گئی۔اقبال بھی جاگ چکا تھا۔ کلثوم کو پریشان دیکھ کر بولا،

 "کیا بات ہے کلثوم اپنا سر کیوں پکڑ کر بیٹھی ہو؟"

 کلثوم بولی "کب تک ایسا ہوتا رہے گا ؟"

اقبال کو سمجھ نہ آئی تو پوچھا، "کلثوم ایسا کیا ہو رہا ہے جو تمہیں پریشان کر رہا ہے؟"

کلثوم بیڈ سے نیچے اتری اور جوتے پہن کر واش روم کی طرف جاتے ہوئے بولی:

"تمہاری ماں کی کھانسی مجھے عذاب لگتی ہے ۔خدا کے لئے اس کا کوئی حل نکالو۔ لیکن تم کیا حل نکالنا ہے۔۔۔ میں تمہیں بتاتی ہوں۔ کل صبح ہم تمہاری ماں کو اولڈ ہوم لے جائیں گے۔ وہاں میری ایک سہیلی ہے، تمہاری ماں کا علاج بھی ہوگا اور رہائش بھی اچھی ملے گی۔"

 کلثوم یہ کہہ کر واش روم چلی گئی ۔اقبال کچھ دیر سوچتا رہا اور پھر کمبل اوڑھ کر سو گیا۔ اگلی صبح اقبال ماں کےپاس گیا۔اقبال کو آتا دیکھ کر عالیہ نے اپنے دونوں بازو بڑھائے اور ماتھے کو چومتی ہوئی بولی: "آو میرے اقبال بیٹے! آو بیٹھو میرے پاس " ۔عالیہ نے اقبال کے چہرے پر اداسی کے آثار بھانپتے ہوئے کہا:

"کیا بات ہے بیٹا !کچھ پریشان لگ رہے ہو؟"

"ماں آپ ساری رات  کھانستی رہتی ہیں۔ اس لئے میں نے سوچا کہ میں آپ کو ہسپتال داخل کروا دوں تاکہ آپ کا علاج ہو سکے۔ میں نے نوکرانی سے کہہ دیا ہے وہ آپ کا ضروری سامان پیک کر رہی ہے۔ ہم دس بجے یہاں سے روانہ ہو رہے ہیں" اقبال نے ماں سے کہا  اورکمرے سے باہر چلا گیا۔

عالیہ  اپنی بہو کی ذہنی خباثت اور چالاک طبیعت سے واقف تھی۔اسے اقبال کی باتوں پر شک ہوگیا تھا۔اسے اپنی بہو سے زیادہ اپنے بیٹے کی رویے کا قلق تھا۔اقبال کے جانے کے بعد عالیہ سوچوں میں گم ہوگئی۔۔۔ جس بیٹے کو میں نے ماں کے ساتھ ساتھ باپ کی شفقت بھی دی، وہ آج اسے دوسروں کے سہارے چھوڑنے جارہا ہے۔ دوسروں پر کیا افسوس کرنا اپنی اولاد ہی بے قدری کرنے لگے۔۔۔یہ سوچتے سوچتے اس کی آنکھیں بھیگ چکی تھیں۔

 

 ٹھیک دس بجے گاڑی اولڈ ہوم کے لئے روانہ ہوگئی ۔اقبال گاڑی چلا رہا تھا کلثوم اور بیٹا فرنٹ سیٹ پر تھے جبکہ اقبال کی ماں پچھلی سیٹ پر اپنے آنسو روکے بیٹھی تھی ۔اسےتیس سال پہلے کا وہ منظر یاد آگیا جب اقبال کی پیدائش ہوئی تو اس کے گردوں میں پانی تھا شہر کے مہنگے ترین ہسپتال میں اس کا علاج کروایا گیا ۔عالیہ کئی راتوں تک جاگتی رہی ۔ جب تک اقبال صحت مند نہ ہوا عالیہ کو سکون نہ ملا ۔عالیہ انہی خیالات میں گم تھی کہ کلثوم کی آواز نےاسے چونکا دیا " ماں جی!  آپ کی منزل آگئی" عالیہ بوجھل قدموں سے اولڈ ہوم کی طرف بڑھی۔ اسے محسوس ہو رہا تھا جیسے اس کی میت قبرستان کی طرف لے جائی جا رہی تھی ۔تھوڑی دیر میں وہ اپنے کمرے میں تھی جو کمرہ سے دیا گیا اس میں دو خواتین پہلے سے رہ رہی تھیں دونوں خواتین عالیہ کی ہم عمر تھیں۔ دونوں نے اس کا استقبال کیا اور کمرے میں موجود تیسرے خالی بیڈ پر بٹھایا ۔اقبال نے ماں کا کپڑوں کابیگ بیڈ کے ساتھ رکھا اور ماں کے قریب بیٹھنے لگا تو کلثوم نے کہا ۔"چلو اقبال چلتے ہیں ۔گھر میں مہمان آنے والے ہیں کھانا بھی تیار کروانا ہے کہیں دیر نہ ہوجائے ۔"یہ کہتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گئی۔

 اقبال بیڈ پر بیٹھتے بیٹھتے رک گیا ۔ سیدھا کھڑا ہوا اور ماں  سے مخاطب ہوا ،"اچھا ماں! میں چلتا ہوں گھر پر بہت کام ہے آپ پریشان مت ہونا آپ جب بھی بلائیں گی میں آپ سے ملنے آؤں گا میرا بیٹا بھی آئے گا۔"

 یہ سب باتیں اقبال کا بیٹا بھی سن رہا تھا اس نے اقبال سے پوچھا،" بابا!ہم دادی اماں کو یہاں کیوں چھوڑ کر جا رہے ہیں کیا ہمارے گھر میں جگہ نہیں ہے؟"

 بیٹے کا جملہ سن کر اقبال کو ایک جھٹکا سا لگا لیکن وہ بیٹے کو لے کر کمرے سے باہر نکل آیا۔

وقت کا پہیہ چلتا رہا۔اب عالیہ اسی  برس کی ہو چکی ہے اسے اولڈ ہوم میں آئے پچیس برس ہو چکے ہیں۔ اس کی دونوں روم میٹ اس دنیا سے جا چکی ہیں اور اب وہ کمرے میں اکیلی رہتی ہے پچیس سالوں میں اس کا بیٹا کبھی کبھار آتا رہا ہے۔ شروع شروع میں تو سال میں دو تین بار آیا مگر گزشتہ پانچ برس میں ایک بار بھی نہیں آیا تھا اور نہ ہی کبھی کسی نے رابطہ کیا۔ وہ بے چین اور پریشان رہتی تھی۔ اس کی پریشانی کی وجہ بیٹے کا نہ آنا نہیں بلکہ بیٹے کی خیروعافیت اور سلامتی کی خبر کا نہ آنا اسے بے چین کیے ہوئے تھا۔

موسم سرما کے یخ بستہ دنوں میں  دھوپ کا مزا لینے کے لیے اولڈ ہاؤس کے چاندی جیسے بالوں والے بزرگ باہر باغیچے میں بیٹھے ہیں۔ اسی اثنا میں مین گیٹ سے ایک کار اولڈ ہاؤس میں داخل ہوتی ہے۔عالیہ کی بینائی کمزور ہونے کی وجہ سے ، صرف آواز سے لوگوں کو پہچان سکتی تھی۔اسے محسوس ہوا کہ جو کار کچھ دیر قبل اولڈ ہاؤس میں داخل ہوئی وہ اب واپس جارہی ہے۔

 عالیہ کرسی پر بیٹھی تسبیح پڑھ رہی تھی کہ اس کے ہاتھوں پر پانی کے قطرے گرے اس نے آسمان کی طرف دیکھا کہیں بارش تو نہیں آ رہی۔پھر یہ قطرے کیا تھے۔۔۔۔ یہ بارش کے قطرے نہ تھے بلکہ اس کے اپنے بیٹے اقبال اور بہو کلثوم کی آنکھوں سے ٹپکنے والے آنسو تھے۔ اس نے اپنے بیٹے کی خوشبو محسوس کرلی تھی۔۔۔"اقبال! تم۔۔۔۔۔۔شکر ہے تم زندہ ہو میں تمہارے بارے میں بہت پریشان تھی۔ میرا پوتا کہاں ہے؟ اب تو بڑا ہو چکا ہوگا؟ اس کی شادی کرلی ہے یا نہیں؟" عالیہ خوشی سے نہال بے ترتیب جملے بولے جارہی تھی۔ اقبال نے بے اختیار  ماں کو گلے لگا لیا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا ۔ اسے ایک دم  کھانسی کا دورہ پڑا اور کھانستے کھانستے بے حال ہوگیا۔ بیٹے کے آنے پر عالیہ پہلے تو خوش ہوئی مگر بیٹے کو روتا دیکھ کر پریشان ہوگئی۔

" اتنی کھانسی کیوں آ رہی ہے۔ کیا ہوا بیٹا تم رو کیوں رہے ہو اور کلثوم کہاں ہے؟"

کلثوم جو سب کچھ دیکھ رہی تھی زمین پر بیٹھ گئی اور عالیہ کے پاؤں پکڑ کر رونے لگی اور بولی: "ماں جی مجھے معاف کر دیں میں نے آپ کے ساتھ بہت غلط کیا۔ دولت کے غرور نے مجھے اندھا کردیا تھا مجھے اس کی سزا ملنی چاہئے تھی جو مل چکی ہے ۔"

"کلثوم تم بھی ساتھ ہو لیکن تم رو کیوں رہی ہو ؟میں تم سے ناراض نہیں اور نہ ہی میں نے کبھی تم دونوں کے بارے میں برا سوچا میں نے ہمیشہ تم سب کے لئے دعا کی ہے کہ میرا اللہ تم سب کو ہمیشہ خوش رکھے۔" عالیہ نے کلثوم  کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔

اتنے میں اولڈ ہوم کے مینیجر ہاتھ میں کمرے کی چابی لے آیا اور بولا "جی  اقبال صاحب! یہی وہ خاتون ہے جس کے ساتھ آپ کمرہ شیئر کریں گے۔ یہ کمرے کی دوسری چابی ہے۔ آپ کا بیٹا اور بہو کچھ سامان بھی دے  گئے ہیں وہ آپ کے کمرے میں رکھوا دیا ہے "

اقبال اور کلثوم کو بھی ان کے بیٹے اور بہو  نے گھر سے نکال دیا تھا۔