افسانہ: سڑک پارکرنے دو
" کاش میں سڑک کنارے آؤں اور یہ ٹریفک رک جائے!" پندرہ منٹ سے سڑک کنارے کھڑے فارروق نے سوچا۔ ہاتھ میں اس کے سفید چھڑی تھی اور آپ جانتے ہیں کہ یہ کیا عندیہ دیتی ہے۔ "ویسے یہ سڑک میرے باپ کی تھوڑا ہی ہے جو اس پر میں چاہوں وہ ہو۔ " فاروق نے اپنی ہی سوچ رد کی۔ پھر اس نے قدم بڑھایا۔ ایک زوردار ہارن سنائی دیا۔ وہ یک دم پیچھے آ گیا۔ یہ اس کی چوتھی ناکام کوشش تھی۔ فاروق سٹپٹا گیا۔ "اس سے تو بہتر تھا میں اوبر کروا لیتا!! یہ خواری تو نہ ہوتی!" وہ بڑبڑایا۔ اس نے سڑک کے مزید ایک طرف ہوتے ہوئے جیب سے موبائل نکالا۔ "نہیں یار اوبر پہ کرایہ بہت بن جائے گا۔ پیک ٹائم ہے۔ یوں ہی چلتے ہیں۔" "ابھی کوئی آئے گا تو کہوں گا کہ سڑک پار کروا دے۔" یہ سوچتے ہوئے فاروق نے موبائل کی سکرین بجھا دی۔ "لیکن اتنی دیر سے کھڑا ہوں، کوئی آ بھی تو نہیں رہا۔" "اوبر کروا لیتا ہوں، کرایہ ہی زیادہ ہے نا۔ میرے ایک دفعہ کروانے سے کون سی قیامت آ جائے گی۔" فاروق نے ایک دفعہ پھر موبائل کی سکرین جلائی۔ موبائل میں سے ٹاک بیک نامی سوفٹ وئیر کی آواز بلند ہوئی۔ یہ وہ سافٹ وئیر ہے جو موبائل سکرین پر جو کچھ آتا ہے بول کر بتاتا ہے۔ اس کی مدد سے فاروق انگلی اوبر کی ایپ پر لے گیا۔ لیکن پھر رک گیا۔
"آج کروا لوں گا تو کل کیا کروں گا۔ مجھے تو روز یہاں سے گزرنا ہے۔ اب روز روز تو اوبر نہیں کروائی جائے گی نا۔" یہ سوچتے ہوئے فاروق نے پھر اوبر کروانے کی سوچ رد کر دی۔ فاروق کو اب سڑک کنارے بیس منٹ ہو چکے تھے۔ ایسا نہیں تھا کہ فاروق کو بالکل نظر نہیں آتا تھا۔ آتا تھا، لیکن اتنا نہیں کہ وہ تیز ٹریفک کے درمیان سڑک پار کر لے۔ "یار کچھ ایسا ہو سڑک پر ٹریفک رک جائے۔ کوئی مجھے لفٹ ہی دے دے۔"
ابھی فاروق یہ سوچ ہی رہا تھا کہ اسے سڑک کنارے کوئی جاتا محسوس ہوا۔ اس نے غور کیا وہ شلوار قمیص پہنے کوئی مزدور ٹائپ آدمی تھا جو گزر رہا تھا۔ "چل بھئی کہ اسے سڑک پار کروا دے!۔۔۔ چل بھئی۔۔۔۔ چل۔۔۔ چل۔۔۔ جلدی کر گزر جائے گا۔۔۔۔ جلدی ۔۔۔ جلدی۔۔۔" اس سوچنے ہی میں وہ آدمی آنکھوں سے اوجھل ہو گیا۔ فاروق ہچکچاہٹ کے مارے اسے کہہ ہی نا پایا۔ “بھئی کہا کیوں نہیں۔ کھڑا رہ اب اور آدھا گھنٹا۔ پہلے ہی خدا خدا کر کے کوئی آیا تھا۔‘‘ فاروق خود کو کوسنے لگا۔ "چلو کوئی نہیں ابھی کوئی اور آ جاتا ہے۔" وہ ٹھنڈی سانس بھر کے پھرکھڑا ہو گیا۔
"یار ویسے یہ زندگی بھی سڑک کی طرح ہی ہے۔ ہر ایک کو خود ہی اس کے پار جانا ہوتا ہے۔ ٹریفک کبھی نہیں رکتی۔" فاروق یہ سوچ رہا تھا کہ اسے محسوس ہوا کہ اس کے پاس سے کوئی سڑک پار کر رہا ہے۔ اس نے جلدی سے اس کے ہمراہ ہونے کی کوشش کی۔ اس کے ہاتھ میں موبائل تھا جو تیزی سے ہاتھ ہلانے کے دوران ٹانگ سے ٹکرایا اور نیچے گر گیا۔ "او خیر!" فاروق کے منہ سے بے ساختہ نکلا۔ وہ جلدی سے موبائل پکڑنے نیچے جھکا۔ کچھ دیر سڑک ٹٹولنے کے بعد موبائل ہاتھ میں آ گیا۔ لیکن اب تک جو سڑک پار کر رہا تھا وہ جا چکا تھا۔
"لے بھئی تو بن جا فلاسفر۔ موبائل تک تو سنبھالا نہیں جاتا۔ کہہ بھی رہا تھا کہ حاضر دماغ ہو کر کھڑا ہو۔ پتہ نہیں کیا کیا سوچنے کی پڑ جاتی ہے۔" فاروق ایک دفعہ پھر خود کو لعنت ملامت کرنے لگا۔ "چل بھئی اب حاضر دماغ ہو کر کھڑا ہو۔ اب کچھ نہیں سوچنا۔ جیسے ہی کوئی آئے گا تو اسے کہنا ہے سڑک پار کروا دے۔ اب دماغ بند کرکے آنکھیں کھول کے کھڑے ہونا ہے۔" اس نے خود کو سمجھایا۔
فاروق جہاں کھڑا تھا اس کے سامنے ایک یو ٹرن تھا۔ مشرق سے مغرب کی سمت گاڑیاں یہاں سے موڑ لیتی اور مغرب سے مشرق کی سمت جانے لگتیں۔ یہ چھوٹا یو ٹرن تھا اور چھوٹی گاڑیاں یہاں سے بہت آرام سے موڑ لے لیتی تھیں۔ لیکن یہاں پر اب ٹرک آ گیا اور اس کے ڈرائیور نے موڑ کاٹنا شروع کر دی۔ موڑ کے چھوٹے ہونے کی وجہ سے اسے کبھی ٹرک آگے کرنا پڑتا اور کبھی پیچھے۔ اس کے آگے پیچھے کرنے میں سڑک پر ٹریفک رک گئی۔ فاروق کے پاس سنہری موقع تھا کہ سڑک پار کر لے۔ اسے معلوم پڑا کہ سڑک پر ٹریفک رکی ہے تو وہ تیزی سے آگے بڑھا۔ اسی اثنا میں اس کا ہاتھ پینٹ کی جیب پر پڑا۔ اسے محسوس ہوا کہ اس کا پرس وہاں نہیں ہے۔ "اُوئے میرا پرس! لگتا ہے پیچھے گر گیا۔" وہ جلدی سے واپس آیا۔ "یہاں گرا ہوگا۔" وہ بیٹھ کر وہاں سڑک ٹٹولنے لگا۔ "کہیں میں کلاس میں ہی تو نہیں چھوڑ آیا؟" اس نے خود سے سوال کیا۔ "نہیں نہیں ابھی تو چنگچی والے کو کرایہ دیا ہے۔ تب تو پاس ہی تھا۔" "پھر کہاں گیا؟ کہیں چنگچی والا ہی تو نہیں لے اڑا؟ او نہیں یار! جیبیں ساری دیکھ اپنی۔ یہیں کہیں ہوگا۔ جلدی کر ٹریفک چل پڑے گی۔۔۔ یار کدھر مر گیا۔۔۔ اسے بھی ابھی غائب ہونا تھا۔۔۔"
سڑک پر اب ٹرک تقریباً موڑ کاٹ چکا تھا۔ کچھ لوگ ڈرائیور کو برا بھلا بھی کہہ رہے تھے۔ "نظر آ رہی ہے جگہ جہاں سے ٹرک گزار رہے ہو۔ پوری سڑک بلاک کر دی ہے۔ لمبی لمبی لائنیں لگ گئی ہیں۔" ادھر ڈرائیور لوگوں سے سخت سست سن رہا تھا اور اُدھر فاروق صاحب خود کو سنا رہے تھے۔
"او یار کہیں بیگ میں ہی تو نہیں رکھ دیا!" پھر جلدی سے فاروق نے بیگ کی اگلی جیب کھولی۔ اندر ہاتھ مارا۔ پرس وہیں پڑا تھا۔ "یہ پڑا ہے۔ بچہ بغل میں ڈھنڈورا شہر میں۔ گدھا دماغ ہی پایا ہے ویسے میں نے بھی۔ کچھ اس میں رہتا ہی نہیں۔ لاکھ یاد رکھنے کی کوشش کرو۔" اتنے میں ٹرک گزر چکا تھا اور ٹریفک کی روانی بحال ہو چکی تھی۔ "او یار! پھر آدھا گھنٹا انتظار! مجھ سے نہیں ہوتا۔ میں ایسے ہی سڑک پار کروں گا۔ مرتا ہوں تو مر جاؤں۔ ایک ہی دفعہ جان چھوٹے گی۔" خود کو یہ کہتے ہوئے فاروق نے سڑک پار کرنے کے لیے قدم بڑھا دیا۔ ایک زور دار ہارن کی آواز سنائی دی۔ فاروق گھبرا کر پھر رک گیا۔ لیکن گاڑی میں سے آواز آئی۔ "گزر جائیں حافظ صاحب!" فاروق نے گھبراتے گھبراتے دو قدم آگے بڑھائے۔ گاڑی میں سے پھر آواز آئی۔ گزر جائیں، کوئی نہیں ہے۔" فاروق تھوڑا سا گڑبڑایا اور جلدی سے سڑک پار کر گیا۔ یہ تقریباً روز کا منظر تھا۔ یوں ہی تماشا ہوتا اور یوں ہی فاروق کی سڑک پار ہوتی۔ نہ ٹریفک رکتی اور نہ ہی ایسا ہوتا کہ وہ سڑک پار نہ کر پائے۔ مشکل ہی سے صحیح لیکن سب ہو جاتا۔ یہ زندگی ہے، یہاں کچھ نہیں رکتا۔ کسی کے لیے بھی نہیں۔ ہلکی سی مدد کرتی آواز ہوتی ہے اور آپ کو پار کر جانا ہوتا ہے۔