افسانہ: خسارے ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے ساتھ ہی جینا پڑتا ہے
زندگی میں بعض خسارے ایسے ہوتے ہیں جن کے ساتھ جینا ہی پڑتا ہے۔ایک ایسے ہی خسارے کی کہانی ملاحظہ کیجیے:
"خسارہ ہے ماں جی۔۔۔۔ بس خسارہ ہی خسارہ ہے۔"
وہ بوجھل دل کے ساتھ سوچ رہا تھا اور اس کی آنکھیں کسی سیلاب کی پیش گوئی کر رہی تھیں ۔ وہ اپنی ماں جی کی قبر کے پاس ڈرے سہمے بچے کی طرح ٹانگیں سمیٹ کر ان پر سر ٹکائے گولا سا بنا سکڑا سمٹا سا بیٹھا ہوا تھا۔
وہ جب بھی کبھی دکھی ہوتا تھا تو اسے دنیا میں سب سے پرسکون جگہ اپنی ماں جی کی آخری آرام گاہ ہی لگتی تھی ۔ جب بھی وہ پریشان ہوتا تو چپکے چپکے زندگی سے نظر بچا کر ادھر نکل آتا تھا ۔ کچھ دیر یہاں ماں جی کے پاس بیٹھتا ، انہیں اپنی بپتا سناتا اور واپس چلا جاتا تھا ۔ لیکن واپس جاتے ہوئے یہ یقین لے کر جاتا تھا کہ اس کی پریشانی دور ہو جائے گی ۔۔۔اور۔۔۔ سچ مچ اس کا مسئلہ حل ہو جاتا تھا ۔ اس کے اس تیقن اور عقیدے کے پیچھے اس کے تحت الشعور میں محفوظ شاید وہ چھوٹا سا واقعہ تھا۔
تب شہود ابھی تازہ تازہ اپنے آبائی گاؤں سے شہر اپنے ماموں کے ہاں شفٹ ہوا تھا۔ اس کے والد کے انتقال کو تب تین چار برس بیت چکے تھے۔ اس نے کالج کی تعلیم مکمل کرلی تھی اب یونیورسٹی میں داخلہ لینا تھا۔ اس نے شہر آتے ہی ایک آدھ ہوم ٹیوشن ڈھونڈ لی تھی اور ایک اکیڈمی میں بھی پڑھانا شروع کر دیا تھا۔ یونیورسٹی کے داخلے شروع ہونے میں ایک دو ماہ باقی تھے اس لیے شہود نے پڑھانا شروع کردیا تاکہ اپنے اخراجات کے معاملے میں اسے کسی سے مدد نہ لینی پڑے۔
اسے پڑھاتے ہوئے ایک ماہ ہو گیا تھا۔ اس شام وہ بڑا خوش تھا کہ آج اسے ایک گھر سے ٹیوشن کی فیس وصول ہونا تھی۔حسب وعدہ اسے ادائیگی کر دی گئی اور خوشی خوشی وہاں چل دیا۔ وہ ماموں کے فلیٹ پہ پہنچا۔۔۔ کپڑے بدل کر کھانا کھایا اور اپنے کمرے میں پہنچ کر موبائل فون پر گھر کا نمبر ڈائل کرنے لگا۔ وہ ماں جی کے ساتھ یہ خبرشیئر کرنا چاہتا تھا۔ اس کے خبر سنانے پر ماں جی نے دعا دی۔
" ماشاءاللہ ! خوش رہو پتر۔۔۔ اللّٰہ تمہیں اتنا نوازے کہ رکھ رکھ کے بھولو!"
فون پر بات کرتے ہوئے اچانک اس نے اپنی جیب ٹٹولی تو اسے احساس ہوا کہ وہ خالی ہے ۔وہ صدمے سے اچھل پڑا۔
"اوہ خدایا۔۔۔۔"
اس کے منہ سے بے ساختہ نکلا۔
"کیا ہوا پتر؟"
ماں جی نے اس کی آواز میں اضطراب بھانپتے ہوئے پوچھا۔
"وہ۔۔۔ وہ۔۔۔ وہ ماں جی۔۔۔ میرے پیسے نہیں مل رہے ۔۔ میرے خدا۔۔۔ !میں کہیں گراتو نہیں آیا؟"
اس نے اپنے دوسرے ڈریس کی جیبیں اور اپنے والٹ کو الٹ پلٹ کر دیکھتے ہوئے کہا۔
جواب میں ماں جی نے اسے بہت تسلی دینے کی کوشش کی لیکن اس کی تشفی نہ ہوئی۔ یہ اپنی محنت سے کمائی ہوئی اس کی پہلی تنخواہ تھی جسے کھونے کا اسے بہت صدمہ ہوا تھا۔ ماں جی سے بات کرتے ہوئے اس کی آواز بھرا گئی تھی۔ وہ گھر جہاں وہ پڑھاتا تھا اس کے ماموں کے فلیٹ سے زیادہ دور نہ تھا ۔
وہ دیوانہ وار فلیٹ سے نکلا اور موبائل کی ہیڈ لائٹ کی روشنی میں متلاشی نگاہوں کے ساتھ راستہ کھنگالنے لگا۔ اس کا خیال تھا کہ اگر راستے میں گرے ہوئے تو اندھیرے کی وجہ سے شاید وہ محفوظ رہے ہوں کسی کے ہاتھ لگنے سے۔ وہ ٹیوشن والے گھر کے دروازے پر پہنچ گیا لیکن اسے پیسے کہیں نہ ملے۔ اس نے سوچا یہاں آ تو گیا ہوں کیوں نا گھر میں بھی پوچھ لیا جائے ممکن ہے وہ کہیں اندر ہی رقم گرا بیٹھا ہو۔۔۔۔ اس نے بیل بجائی۔ چوکیدار نے دروارہ کھولا تو اس نے اسے اپنی رام کہانی سنائی۔۔۔ وہ شہود کو اسی کمرے میں لے گیا جہاں بچے اس سے پڑھتے تھے۔۔اس نے اور چوکیدار نے مل کر کمرا چھان مارا لیکن رقم کا کہیں نام و نشان نہ ملا۔
ناچار وہ ناکام و نامراد فلیٹ پر واپس لوٹ آیا۔ اس دوران اسے بار بار گھر سے کال آ رہی تھی۔اس کا اب کسی سے بات کرنے کو جی نہیں چاہ رہا تھا۔ وہ اپنے کمرے میں آ کر لیٹ گیا اور نجانے کب کروٹیں بدلتا بدلتا نیند کی آغوش میں چلا گیا۔
"شہود پتر۔۔۔! شہود۔۔۔ پتر اٹھ جا۔۔۔ دیکھ دن کتنا چڑھ آیا ہے۔"
اگلی صبح جب وہ سوئی جاگی کیفیت میں ابھی آنکھیں بند کیے لیٹا ہوا اٹھنے کا ارادہ ہی کر رہا تھا تو اس میٹھی سی آواز کے سریلے سے الفاظ نے اسے جھنجھوڑ کر بیدار کر دیا۔
"ماں جی !۔۔۔ آپ؟"
اس نے اٹھتے ہی حیرت اور خوشی کے ملے جلے تاثرات کے ساتھ پوچھا۔
" تو اور کیا شودیا!۔۔۔ ساری رات تیری آواز مرے کانوں میں گونجتی رہی ہے۔ میں نے کہا میرا پتر پردیس میں پریشان ہو گا۔۔۔ تُو کال بھی تو نہیں اٹھا رہا تھا۔"
ماں جی نے اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔ ان کی آنکھوں میں آنسو تھے۔
" میں رہ نہیں سکی پتر۔۔۔ یہ لے پیسے۔۔۔ جن کی وجہ سے تو پریشان تھا۔۔۔ تو نے بس اب رونا نہیں۔۔۔"
انہوں نے تہہ کیے ہوئے پیسے اسے تھماتے ہوئے ہوئے کہا۔۔۔
" لیکن ماں جی آپ یوں صبح صبح کیسے۔۔۔ اور یہ پیسے؟"
وہ حیرتوں کے سمندر میں غوطے کھاتے ہوئے حقیقت کے ساحل تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔
" تیری ماں نے آنڈ گوانڈ (ہمسایوں) سے بنا کر رکھی ہوئی ہے۔ تیری کال سنتے ہی میں نے مقصوداں سے اٹھا لیے تھے پیسے اور اس کے بڑے بیٹے سے بھی بات کر لی تھی جو شہر میں کلرک ہے، کہ صبح سویرے دفتر آتے ہوئے مجھے بھی موٹر سائیکل پر بٹھا لائے۔۔۔ اس نے شہر لاکر مجھے رکشے میں بٹھا دیا اور یوں میں تیرے پاس پہنچ گئی۔"
"ماں جی !۔۔۔۔ آپ نے یونہی اتنی تکلیف اٹھائی۔۔۔ صبح صبح "
اسے الفاظ نہیں مل رہے تھے اس عقیدت کا اظہار کرنے کے لیے جو ماں جی کے لیے اس کے دل میں اس وقت موجزن تھی۔۔ جہاں لفظوں کے پر جلتے ہیں وہیں سے اشکوں کی اڑان شروع ہوتی ہے۔وہ ان کے لاغر سے ہاتھوں پر عقیدت کی مہریں ثبت کرتا ہوا زاروقطار رونے لگا۔
" رو ناں جھلیا !۔۔۔ نہ رو۔۔۔ مائیں تو ہوتی ہی اپنے بچوں کی تکلیفیں اٹھانے کے لیے ہیں۔۔۔ ان کے گھاٹے۔۔۔خسارے پورے کرنے کے لیے۔۔۔ ورنہ دنیا میں کون کسی کے حصے کی تکلیف اٹھاتا ہے۔۔۔ تو نے بس اب رونا نہیں"
ماں جی نے اس کے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔
اس دن کے بعد شہود نے کبھی کسی تقصان کسی خسارے کا غم نہیں۔اسے ایک یقین سا ہو گیا تھا کہ اس کا ہر گھاٹا پورا کردیا جائے گا۔۔۔ اس نے ماسٹرز مکمل کر لیا اور ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں نوکری بھی ڈھونڈ لی۔۔ اسے ابھی نوکری کرتے ایک دو ماہ ہی ہوئے تھے کہ اچانک ایک دن ماں جی داغ مفارقت دے گئیں۔ایک دفعہ تو شہود کی دنیا ہی تاریک ہو گئی لیکن رفتہ رفتہ اس نے دوبارہ خود کو معمول پر لانا شروع کر دیا۔
پھر یوں ہوا کہ وہ اپنے خسارے خود پورے کرنا سیکھ گیا۔ سوائے ایک خسارے کے۔۔۔
اور وہ تھا ماں کا خسارہ۔۔۔
وہ سیلزمین سے برانچ مینیجر اور آج۔۔۔ ایریا مینیجر بن گیا تھا۔۔۔ زندگی اب رفتہ رفتہ خساروں سے نکل رہی تھی لیکن کوئی بھی منافع ایک خسارے کی تلافی کرنے میں ناکام رہا تھا۔۔۔ آج وہ ماں کی لحد پر بیٹھا سوچ رہا تھا کہ کاش جیسے اس روز میرے فیس کا نقصان پورا کرنے کے لیے صبح صبح۔۔۔منہ اندھیرے وہ اسے تسلی دینے اتنا فاصلہ طے کر کے پاس پہنچ گئی تھیں۔۔
کاش۔۔۔!
اس کی زندگی کا سب سے بڑا خسارہ پورا کرنے کےلئے لوٹ آئیں۔۔ لیکن وہ جانتا تھا کہ ایسا ناممکن ہے۔۔۔ انسان کو کچھ خساروں کے ساتھ ہی زندگی بسر کرنا ہوتی ہے