ایک افغان باپ کی بیٹیوں کی تعلیم کی جدوجہد:افغان معاشرے کی ایک خوب صورت تصویر
"ہر روز میں اپنی بیٹیوں کو موٹر سائیکل پر اسکول لاتا اور لے جاتا ہوں۔میں نے موٹر سائیکل خریدی ہے تاکہ انہیں لا اورلے جا سکوں۔ میں اپنی بساط کے مطابق پوری کوشش کر رہا ہوں۔ میں اپنی بیٹیوں کو پڑھانے کا مصمم ارادہ رکھتا ہوں۔"
یہ خوبصورت الفاظ افغانستان کے صوبہ پختکہ کے میاں خان کے ہیں جو اپنی تین بیٹیوں کو روزانہ بارہ کلومیٹر دور اسکول لاتا لے جاتا ہے اور اسکول کے باہر چار چار گھنٹے انتظار بھی کرتا ہے ۔ وائس آف امریکا VOAکو اپنے انٹرویو میں میاں خان نے بتایا کہ وہ اپنی بیٹیوں کی یہ خدمت سات سال سے کر رہا ہے۔ اس کی دو بیٹیاں ساتویں جماعت کی طالبات ہیں جبکہ ایک چھٹی جماعت میں پڑھتی ہے۔ وائس آف امریکا کے مطابق میاں خان جنوب مشرقی افغانستان کے دور افتادہ علاقے سے تعلق رکھتا ہے اور آٹھ بیٹیوں اور تین بیٹوں سمیت گیارہ بچوں کا باپ ہے۔ اس کے معاشی حالات بھی کچھ زیادہ اچھے نہیں ہیں۔ لیکن حالات سے ستائے ایک باپ کی بیٹیوں کی تعلیم کے لیے اتنی محبت ایک افغانی باپ کی اس تصویر کے تو بالکل ہی خلاف ہے جو عام طور پر میڈیا میں پیش کی جاتی ہے۔
عام طور پر میڈیا میں تاثر دیا جاتا ہے کہ افغانی لوگ خواتین کو پڑھاتے نہیں ہیں۔ وہ تو خواتین کی تعلیم کے ہی خلاف ہیں۔ موجودہ افغانی حکومت نے تو خواتین کی تعلیم پر پابندی ہی لگا دی ہے۔ اس پر فیصلہ صادر ہوتا ہے کہ یہ سب مردوں کی بالادستی پر کھڑی ثقافت کا نتیجہ ہے۔ بعض تو اپنے تبصروں کو براہ راست اسلامی تعلیمات سے جوڑدیتے ہیں کہ خوانخواستہ اسلام ہی خواتین پر جبرکرتا ہے یا ان کی تعلیم و ترقی کے خلاف ہے۔
لیکن میرا خیال ہے کہ یہ سب افغان معاشرے کے پیچیدہ اور گہرے مسائل کا کچھ زیادہ ہی سطحی تاثر ہے۔ آپ میاں خان کی کہانی پر ذرا غور کریں۔ وہ اپنی بیٹیوں کو بارہ کلومیٹر دور خود چھوڑنے جاتا ہے۔ اب یہ بات سمجھنا کوئی راکٹ سائنس نہیں کہ جہاں میاں خان رہتا ہے وہاں بارہ کلومیٹر سے کم فاصلے پر لڑکیوں کا کوئی اسکول دستیاب نہیں ہوگا۔ دوسرا یہ کہ وہاں ایسا انفراسٹرکچر، ٹرانسپورٹ اور دیگر سہولیات بھی دستیاب نہیں جس کے ذریعے لڑکیاں محفوظ طریقے سے اسکول آ جا سکیں۔ ظاہر ہے ایسے حالات میں بیٹیوں کو پڑھانا کتنا مشکل ہو جائے گا اس کا اندازہ آپ خود کر سکتے ہیں۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ باپ میاں خان کی طرح کی غیر معمولی طبیعت کا مالک تو ہو نہیں سکتا، جو بارہ کلومیٹر روز بیٹیوں کو لایا لے جایا کرے۔ پھر چار چار گھنٹے اسکول کے باہر انتظار بھی کرے۔ اس کا حل تو صرف یہ ہے کہ حکومت اور صاحب ثروت لوگ ان مشکلات کا تدارک کریں۔ اب ایسی حکومت جس کے اربوں ڈالر عالمی طاقتوں نے روک رکھے ہوں۔ عالمی ادارے چیخ چیخ کر بتا رہے ہوں کہ امریکی اقدامات کی وجہ سے نوے فیصد افغانیوں کی روٹی پوری نہیں ہو رہی۔ یہ حکومت اپنے شہریوں کی روٹی پوری کرنے کی تگ و دو میں لگی ہو۔ کیسے ممکن ہے کہ ایک سال میں یہ حکومت تعلیم کے ایسے مسائل حل کرنے میں کامیاب ہو جائے جس کے لیے اچھے خاصے معاشی وسائل درکار ہیں۔ بلکہ سوال تو عالمی طاقتوں اور ان کی بیس سالہ حکومت سے بنتا ہے کہ انہوں نے بیس سالوں میں یہ مسائل حل کیوں نہ کیے؟ ان کے پاس تو دنیا بھر کے وسائل بھی موجود تھے۔
خیر انگلیاں تو اور بھی بہت سی چیزوں پر اٹھائی جا سکتی ہے۔ پر بات صرف اتنی ہے کہ افغان جن مسائل سے گزر رہے ہیں ان کی درست وجوہات تک پہنچا جائے۔ ان کے تدارک کے لیے افغان حکومت کے ساتھ مل کر کام کیا جائے۔ نہ کہ صرف اس لیے الٹے سیدھے پراپیگنڈے کیے جائیں کہ افغانستان میں حکومت ہماری پسند کی نہیں۔ یہ فیصلہ افغانیوں پر ہی چھوڑ دیا جائے کہ وہ کس کو حکومت کا حق دینا چاہتے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے افغانی ایسی کسی طاقت کو اپنے سروں پر مسلط نہیں ہونے دیتے جس کو وہ نہیں چاہتے۔ اگر موجودہ افغانی حکومت ان کی منشا کا مظہر نہیں تو وہ خود ان کو اپنے سر سے اتار پھینکیں گے۔
اگر عالمی طاقتیں مختلف بہانے بنا کر اس افغان حکومت کا راستہ روکیں گی تو ظاہر ہے مشکلات افغان عوام کو ہی ہوں گی۔ اس عوام میں ظاہر ہے وہ لڑکیاں بھی شامل ہیں جن کو ہم سب چاہتے ہیں کہ وہ پڑھیں۔ جب افغان حکام کہہ رہیں ہیں کہ تعلیم ان کے نزدیک ہر شہری کا بنیادی حق ہے تو ہمیں یقین کرنا چاہیے۔ خاص طور پر تب جب افغانستان میں لڑکیوں کی جامعات کھل چکی ہوں۔ جب لڑکیوں کی جامعات کھلی ہوں لیکن سیکنڈری اسکول بند ہوں تو افغان حکومت سے اس کی وجوہات جاننی چاہییں۔ نہ کہ اس کا نتیجہ نکال لینا چاہیے کہ طالبان نے لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی لگا دی۔ اگر پابندی لگائی ہے تو جامعات کیوں کھلی ہیں؟ آپ بھی سوچیے ہم بھی سوچتے ہیں۔