افغانستان میں پوست کی کاشت : تصویر کا دوسرا رخ
اقوام متحدہ کے منشیات کے خلاف کام کرنے والے ادارے UNODC کی 2021 کی عالمی رپورٹ بتاتی ہے کہ دنیا میں ایک کروڑ دس لاکھ سے زائد افراد نشے کے عادی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اس وقت دنیا میں استعمال ہونے والے دو مہلک منشیات افیون اور ہیروئین کی 80 فیصد پیداوار افغانستان میں ہوتی ہے۔ UNODC کے مطابق، گزشتہ تین سے چار سالوں میں ان منشیات کی پیداوار میں شدید اضافہ دیکھا گیا ہے۔ یہاں تک کہ 2019 میں 37 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔
یہ سب حقائق خاصے تلخ ہیں اور سب کو معلوم ہیں۔ لیکن دل خراش بات یہ ہے کہ عالمی طاقتیں جو گزشتہ چالیس سال سے افغانستان میں خون کی ہولی کھیلتی رہی ہیں، ان غریب حال افغانوں کی مدد کرنے کی بجائے ، کہ وہ اپنی معیشت کو ان مکروہ منشیات کی پیداوار سے ہٹا کر کسی انسانیت دوست شے کی پیداوار پر چلا سکیں، وہ الٹا ان کی موجودہ حکومت سے اپنے مطالبات منوانے کے لیے دباؤ ڈال کر ان کی مشکلات میں اضافہ کر رہی ہیں۔ اس ضمن میں، امریکہ کا افغانیوں کے نو ارب ڈالر کے ذخائر کو بغیر کسی وجہ کے روک دینا سر فہرست ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ امریکہ کے حکم پر اس خارجی امداد کا بھی رک جانا ہے جو افغانیوں کے سالانہ بجٹ کا 75 فیصد حصہ ہوا کرتی تھی۔
اب بھلا آپ خود بتائیں کہ امریکہ اور دیگر مغربی طاقتیں بیک جنبش قلم جب افغانیوں کے پیسے صرف اپنے مفادات کے حصول کے لیے روکیں گے تو کیا وہاں پوست کی کاشت جیسے مظاہر بڑھیں گے یا گھٹیں گے۔ اپنے اس قسم کے اقدامات سے وہ افغانیوں کی اس مکروہ دھندے سے جان چھڑانے میں مدد کریں گے یا ان کو مزید اس طرف دھکیلیں گے؟ یہ سوالات تو تلخ ہیں ہی لیکن سب سے تلخ حقیقت یہ ہے کہ مغربی طاقتیں جو اپنے آپ کو بہت انسان دوست بتاتی ہیں وہ افغانیوں کے پیسے اس وقت دبائے بیٹھی ہیں جب وہاں چار کروڑ افراد میں سے 95 فیصد کے پاس کھانے کی کمی ہے اور پچاس فیصد سے زائد کے بھوک سے مر جانے کا اندیشہ ہے۔ ان میں تیس لاکھ ایسے بچے شامل ہیں جو پانچ سال کی عمر سے کم ہیں۔ اب وہاں سرد موسم چل رہا ہے جو کہ خاصا سخت ہوا کرتا ہے۔
آپ اب خود بتائیں کہ چار کروڑ انسانوں کی زندگیاں داؤ پر لگا کے جوا کھیلنے والی طاقتیں کس منہ سے تنقید کرتی ہیں کہ افغان منشیات فروش ہیں اور ان کی مکروہ تجارت سے انسانیت کو خطرہ ہے۔ آخر انسانیت کے یہ سگے بھی تو افغانستان میں بیس سال بر سر اقتدار رہے تھے، کھربوں ڈالر خرچ کیے تھے۔اس مہذب دنیا کے عالمگیر چیمپئنز نے لاکھوں انسان موت کی گھاٹ اتارے تھے۔ کیوں نہ یہ مکروہ تجارت روک لی؟
یہ تمام باتیں تو اپنی جگہ مصمم ہیں ہی۔ لیکن ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ آخر وہ کیا وجہ ہے کہ افغانیوں کی جان اس مکروہ کاروبار سے چھڑائے نہیں چھٹتی۔ الجزیرہ میں شائع ہونے والے ایک اداریے کے مطابق: 2018 کی امریکی سگار رپورٹ میں درج کیا گیا کہ امریکہ نے 2002 سے 2017 تک افغانستان میں پوست کی کاشت کو روکنے کے لیے 8 سے 6 ارب ڈالر خرچ کیے لیکن ناکام رہا۔ اسی قسم کی کوششوں کی رپورٹس طالبان کی طرف سے اپنے پچھلے دور اقتدار میں بھی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ 2000 میں طالبان نے پوست کی کاشت پر افغانستان میں پابندی لگا دی۔ لیکن اس پر عوام کی طرف سے ایسا رد عمل آیا کہ اس پابندی کا نفاذ شدید مشکل ہوگیا۔ عوام کی اس قدر مزاحمت، دونوں قوتوں کے لیے، اس بات کی غماز ہے کہ پوست کی کاشت ان کی معیشت سے گہری منسلک ہو چکی ہے۔ اس کی کاشت پر پابندی ان کے لیے بقا کا مسئلہ کھڑا کر دیتی ہے۔ اس صورتحال میں پوست کی کاشت کاری کو یک دم رکوا دینا اپنے اندر خود ایک زیادتی نظر آتی ہے۔ جب تک کہ ان کو متبادل نہ دے دیا جائے۔ انہی خیالات کا اظہار موجودہ افغانی حکومت کے کابل کے ترجمان نے اپنے بی بی سی کے ساتھ انٹرویو میں بھی کیا۔ انہوں نے کہا کہ جب تک ہم افغانیوں کو کوئی متبادل نہیں دے پاتے، تب تک کیسے ہم پوست کی کاشت پر پابندی لگا دیں۔ ان کی یہ بات سب حالات کو دیکھتے ہوئے خاصی معقول بھی معلوم ہوتی ہے۔ خاص طور پر تب جب آدھی آبادی کے بھوک سے مر جانے کا اندیشہ ہو۔ لیکن اس پر مغربی طاقتوں کی افغانیوں کے پیسے روک دینے کی منطق سمجھ نہیں آتی۔ یہ نہ صرف غیر اخلاقی معلوم ہوتی ہے بلکہ غیر انسانی بھی ہے۔
بہر حال، سو باتوں کی ایک بات یہ ہے کہ موجودہ افغان معیشت منشیات فروشی میں دھنسی ہوئی ہے۔ اس کا واحد حل یہ ہے کہ افغانیوں کو کوئی متبادل دیا جائے کہ وہ پوست کی کاشت چھوڑ کر اپنی زمینوں کو کسی حیات بخش فصل کے لیے کھود سکیں۔ اس کے لیے دنیا کو موجودہ افغان حکومت کو حقیقت سمجھتے ہوئے ان کے ہاتھ مضبوط کرنا ہوں گے۔ یہی افغانیوں اور انسانیت کے حق میں بہتر معلوم ہوتا ہے۔ ورنہ یہ تو آپ اور ہم جانتے ہیں، آپ ظلم کو کیسا بھی روپ دیں ، کوئی بھی شکل بنا کر پیش کر لیں، امن آئے گا اور نہ بہتری کی کوئی صورت ہی برآمد ہوگی۔