افغانستان میں زلزلوں کی وجوہات کیا ہیں؟
22 جون 2022 بدھ کی رات افغانستان کے پاکستان سے ملحقہ صوبے پکتیکا میں چھے اعشاریہ ایک شدت کے زلزلے نے ایک ہزار سے زائد جانیں نگل لیں۔ عالمی طاقتوں کے ستم سے ستائے افغانیوں کے لیے یہ ایک نئی آزمائش ہے۔ ایک تو عالمی پابندیاں، پھر امریکہ نے بھی امداد روک رکھی ہے اور اوپر سے یہ ناگہانی آفت۔ کم وسائل اوربلند حوصلے سے افغان حکومت کو سب سے نمٹنا ہے۔
افغانستان میں زلزلے کا مرکز خوست کے شہر سے چوالیس کلومیٹر دور تھا۔ زلزلے کی شدت اس قدر تھی کے اس کے جھٹکے پاکستان سمیت بھارت میں بھی محسوس کیے گئے۔ افغانستان کے آفات سے نمٹنے والے ادارے کے ڈپٹی وزیر مولوی شریف الدین مسلم نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ زلزلے کے نتیجے میں کئی ایک دیہات تباہ ہوگئے ہیں۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ افغانستان میں کتنی بار زلزلے آچکے ہیں، افغانستان میں بار بار زلزلے کیوں آتے ہیں اور افغانستان میں سب سے بڑا زلزلہ کب آیا تھا۔۔۔۔؟ آئیے ان سوالات کے جواب تلاش کرتے ہیں:
افغانستان میں زلزلے کیوں آتے ہیں؟
ایسا نہیں ہے کہ افغانستان کا خطہ زلزلوں کی تباہ کاریوں سے ناواقف ہے۔ جرمن خبر رساں ادارے نے امریکی جیولوجیکل سروے کے حوالے سے بتایا ہے کہ افغانستان میں گزشتہ پانچ برس میں تقریباً پچاس دفعہ زلزلوں کے جھٹکے محسوس کیے گئے ہیں۔ لیکن اس زلزلے کو گزشتہ دو دہائیوں کے دوران آنے والے شدید زلزلوں میں قرار دیا جا رہا ہے۔ ماہرین افغانستان میں زلزلوں کی بہتات کی وجہ اس کی جغرافیائی حدود کو قرار دیتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے: افغانستان کا قومی کھیل کون سا ہے؟
افغانستان کوہندوکُش کے پہاڑی سلسلے میں واقع ہے جو کے جغرافیائی لحاظ سے الپائیڈ بیلٹ پر آتا ہے۔ یہ بیلٹ زلزلوں کے حوالے سے دنیا میں دوسرے نمبر پر مشہور ہے۔ مزید براں افغانستان میں زمین کے کرَسٹ (قِشرُ الارض یعنی زمین اوپری تہہ) کی تین اہم زمینی تَہیں آ کر جڑتی ہیں جنہیں ٹیکٹونِک پلیٹیں کہا جاتا ہے۔ جنہیں بالترتیب عربین پلیٹ، انڈین پلیٹ اوریوریشین پلیٹ کہتے ہیں۔ جب یہ پلیٹیں آپس میں ٹکراتی ہیں تو زلزلے کا باعث بنتی ہیں۔ اب بھی انڈین اور یوریشین پلیٹیں آپس میں ٹکرائی ہیں تو زلزلے کا باعث بنی ہیں۔
یہ بھی پڑھیے: افغانستان میں سردی کا موسم بھی سخت آزمائش بن کر آتا ہے
افغانستان میں گزشتہ تیس برسوں میں آنے والے بڑے زلزلے:
گزشتہ تیس برسوں میں زلزلوں نے کئی دفعہ افغانستان کے مرد کوہستانیوں کو آزمایا ہے۔ ان تیس برسوں میں بیس سے زائد بار زلزلے آئے ہیں۔ الجزیرہ ویب سائٹ نے ان کی ٹائم لائن مرتب کی ہے جو کہ یہاں درج کی جا رہی ہے:
1۔ 1991ء: 31 جنوری 1991ء میں شدید زلزلے کے جھٹکوں نے پاکستان، افغانستان اور اس وقت کے سویت یونین میں 848 افراد کو موت کی نیند سلا دیا۔ اسی برس اپریل میں بھی بدخشاں صوبے میں زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے لیکن زیادہ جانی نقصان نہیں ہوا۔
2۔ 1997ء: میں پندرہ سو افراد لقمہ اجل بنے اور دس ہزار گھر تباہ ہوگئے۔ اس زلزلے کا مرکز افغانستان اور ایران کی سرحدی علاقہ تھا۔ اس زلزلے کی شدت سات اعشاریہ دو رکارڈ کی گئی۔
3۔ 1998ء: 20 فروری 1998ء کو شمال مشرقی افغانستان میں آنے والے زلزلے میں دوہزار سے زائد افراد جاں بحق ہوئے۔ یہ علاقہ 30 مئی 1998 ایک بار پھر زلزلے کی زد میں آیا۔ تیس برس میں یہ سب سے بڑا زلزلہ تھا جس میں ساڑھے چار ہزار سے زائد افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
4۔ 2002ء:مارچ 2022ء میں دو بار(تین مارچ اور پچیس مارچ) زلزلے آئے اور ایک ہزار سے زائد افراد دنیا سے چل بسے۔
5۔ 2015ء: 26 اکتوبر2015ء کو افغانستان کی تاریخ کا شدید ترین زلزلہ سات اشاریہ پانچ شدت سے زمین ہلا کر 399 افراد کی قبر کھود گیا۔
6۔ 2022ء :جنوری 2022 میں بھی زلزلے نے بائیس افراد افغانستان اور ایران کی سرحد کے نزدیک زلزلے کی شدت سات اشاریہ دو رکارڈ کی گئی۔ رواں برس فروری اور مئی میں بھی کم شدت کے زلزلے محسوس کیے گئے۔
7۔ 2022ء: 22 جون 2022 کو ایک بار پھر افغانستان کی سرزمین زلزلے سے لرز اٹھی۔ تازہ صورت حال کے مطابق اس زلزلے میں ڈیڑھ ہزار کے قریب افراد لقمہءاجل بن چکے ہیں۔
سورس: ویکی پیڈیا، الجزیرہ
حاصل کلام:
افغانستان میں حالیہ زلزلے سے وہاں حالات نہایت سخت ہیں اور وہاں کے لوگ وسائل کی کمی کی وجہ سے دوہری مشکل کا شکار ہیں۔ عالمی میڈیا رپورٹ کر رہا ہے کہ وہاں غربت کا عالم اس وقت یہ ہے کہ ماں باپ اپنے بچے بیچنے پر مجبور ہیں۔ یہ کوئی غربت کا آخری درجہ ہی ہو سکتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ افغانستان امریکی پابندیاں ہیں، جن کے باعث افغانستان نہ کھل کر تجارت کر پا رہا ہے اور نہ امریکہ اس کے اثاثے اس کے حوالے کر رہا ہے۔ تمام تر ظلم پر صرف میڈیا پر شور ہے اور کچھ نہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ افغانستان سے تجارتی پابندیاں ہٹائی جائیں اور انہیں اپنے معاملات اپنی ثقافت کے مطابق حل کرنے کی آزادی دی جائے۔ یہ ان کا حق ہے۔ یہ ناگہانی آفت عالمی برادری کے لیے موقعہ ہے کہ وہ امریکہ پر دباؤ ڈالے کے بس کرے وہ اپنی تھانے داری۔ دنیا میں صرف وہی عینک ہی درست نہیں دکھاتی جو اس نے پہن رکھی ہے۔ ہر قوم کو اپنے مطابق معاملات حل کرنے کی آزادی ہے۔ عالمی طاقتوں کو اس کی پاسداری کرنی چاہیے۔ ورنہ انسانیت اسی طرح خوار ہوتی رہے گی۔