طالبان حکومت کا خواتین کو تعلیم اور روزگار کے مواقع دینے کا اہم اعلان
افغانستان کی وزارت داخلہ نے کہا ہے کہ لڑکیوں کو جلد ہی سیکنڈری سکولوں میں واپس جانے کی اجازت دی جائے گی۔وزارت داخلہ کے ترجمان قاری سعید خوستی نے اتوار کو الجزیرہ کو بتایا کہ وزارت تعلیم کی جانب سے اس معاملے میں صحیح وقت کا اعلان کیا جائے گا۔
انہوں نےمزید کہا کہ بہت ہی کم وقت میں تمام یونیورسٹیاں اور اسکول دوبارہ کھل جائیں گے اور تمام لڑکیاں اور خواتین اسکول اور اپنی تدریسی ملازمتوں میں واپس آ جائیں گی۔
طالبان کے افغانستان پر قبضے کے بعد ، نوعمر لڑکیوں کو کہا گیا کہ جب تک محفوظ ماحول قائم نہ ہو جائے تب تک وہ گھروں میں رہیں۔ البتہ اس اعلان کے وقت بھی بچوں کی تمام کلاسز کو کھولنے کا اعلان کی گیا تھا اور ساتھ ہی پرائمری کلاسز کی بچیوں کے سکول بھی کھول دیے گئے تھے ۔
بڑی عمر کی لڑکیوں اور خواتین کے تعلیمی اداروں نے کچھ عرصہ کے لیے انٹرنیشنل میڈیا کو ایک ایسا موضوع فراہم کردیا تھا ، جس کے ذریعے وہ طالبان کی مزید کردار کشی کرر ہے تھے۔ میڈیا کا کہنا تھا کہ اس بات کے خدشات بڑھ رہے ہیں کہ طالبان اپنے گزشتہ 1990 کے سخت گیر دور کی طرف ایک بار پھر بڑھ رہے ہیں ، اور جیسا اس وقت خواتین کو تعلیم اور نوکریوں سے برخاست کردیاگیا تھا اسی طرح اس بار بھی کیا جارہا ہے۔بین الاقوامی میڈیا اس عرصہ کے دوران مسلسل یہ کہتا رہا کہ یہ حقوق نسواں کی ایک بڑی خلاف ورزی کی جارہی ہے اور اس لیے طالبان دنیاکے لیے قابل قبول نہیں ہوسکتے۔
مغربی میڈیا کے اس پروپیگنڈہ کا اثر اتنا زیادہ تھا کہ کئی ایسے اداروں کی طرف سے بھی بیانات جاری کیے گئے ، جنھیں بہرطور غیر جانب دار رہنا چاہیے۔ مثال کے طور پر اقوام متحدہ کے سربراہ نے کہا کہ ٹوٹے ہوئے وعدے افغانستان کی خواتین اور لڑکیوں کے خوابوں کو توڑ دیتے ہیں۔
لیکن ابھی ایک دو روز قبل ہی اس غبارے سے ہوا تب نکل گئی جب الجزیرہ کی اسٹیفنی ڈیکر نے کابل سے رپورٹنگ کرتے ہوئے کہا کہ "اس بات کا اشارہ کیا گیا ہے کہ یہ بہت قریب ہے کہ سیکنڈری سکولوں میں لڑکیاں اور ان کی خواتین اساتذہ بہت جلد واپس آئیں گی۔" رپورٹر کا مزید کہنا تھا کہ: یہ وہ چیز ہے جو ہم طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے سن رہے ہیں۔ ہاں ، وہ واپس آنے والے ہیں۔ لیکن اس میں وقت لگے گا۔ اور ظاہر ہے کہ اس سے بہت سی لڑکیوں کو نقصان پہنچ رہا ہے۔
اسی طرح دیگر خبروں میں بتایا جارہا ہے کہ طالبان حکومت نے سرکاری دفاتر میں کام کرنے والی خواتین کے بارے میں ان کی نوکریاں بحال کرنے اور یونیورسٹیوں کو دوبارہ کھولنے کے لیے کے اشارے دیے ہیں، اسی طرح اب یہ بھی کہا جارہا ہے کہ جلد حکومت اپنی کابینہ میں خواتین کو شامل کرنے جارہی ہے۔ تاہم طالبان ترجمان کا کہنا ہے کہ یہ سب اسلامی قوانین اور احکامات کے مطابق ہوگا اور مخلوط ماحول کی ہرگز اجازت نہیں دی جائے گی۔