کیا افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد خلیجی ممالک امریکہ پر اعتماد کھو رہے ہیں؟
افغانستان سے امریکی انخلاء کے بعد ، خلیج میں تین ہیوی ویٹ ممالک بڑی احتیاط سے آگے بڑھ رہے ہیں - ہر ایک اس بات کا حساب لگا رہا ہے کہ وہ امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات میں کیا حاصل کرسکتا ہے یا کیا کھو سکتا ہے۔افغانستان میں ہونے والی حالیہ پیش رفت خطے کی سلامتی کے بارے میں ان ممالک کے بالخصوص اور سب خلیجی ممالک کے بالعموم خیالات کو کیسے تبدیل کررہی ہے ، اس کا ذرا گہرائی میں جائزہ لینے کی ضرورت ہے:
قطر: سب کی نظروں میں ہے لیکن پھونک پھونک کر قدم رکھ رہا ہے:
امریکی انخلا کے دوران قطر کی مدد کی بدولت تقریباً 124،000 افغانیوں میں سے 57000 کو دوحہ کے ذریعے پروسیس کیا گیا تھا ، اس مدد سے امریکہ کی نظر میں قطر کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔ امریکی قیادت تسلیم کرتی ہے کہ قطر کسی بھی امریکی شراکت دار کی نسبت اس بات کا زیادہ علم رکھتا ہے کہ طالبان رہنما کیسے سوچتے ہیں۔ دس سالوں سے ، قطر نے امریکہ اور طالبان کے درمیان ثالثی کی ہے ۔ یاد رہے کہ طالبان نے امریکہ کی منظوری اور حمایت سے 2013 میں دوحہ میں اپنا دفتر کھولا تھا جو بعد ازاں طالبان سے مذاکرات کرنے اور ان پر نظر رکھنے کے کام بھی آتا رہا ہے۔
قطر ، ترکی ، روس ، چین اور پاکستان کے ساتھ فعال تعلقات رکھنے والے ممالک میں امریکہ کے قریب ترین ہے۔ یہ ان ممالک میں سے واحد ملک ہے جس کی امریکہ کے ساتھ کوئی مخالفت نہیں ہے اور نہ ہی امریکی اعانت کے بدلے مراعات کی فہرست ہے جو اسے اس سے حاصل ہونے کی امید ہے۔ اس سے قطر اس وقت بہت مضبوط پوزیشن میں ہے۔
لیکن قطر کو محتاط رہنا ہوگا۔ طالبان کے ساتھ بڑے مضبوط تعلقات کا ایک پہلو یہ ہے کہ افغانستان کے نئے حکمرانوں یعنی طالبان کے بین الاقوامی برادری سے کیے گئے وعدوں کے حوالے سے قطر کو مورد الزام ٹھہرایا جاسکتا ہے۔ بظاہر اب تک طالبان نے اپنے وعدوں پر عمل نہیں کیا ہے اور اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو قطر کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔ قطری حکام جانتے ہیں کہ طالبان کی طرف سے وعدے پورے نہ کیے جانے کا نتیجہ واشنگٹن کے نزدیک کیا مطلب رکھتا ہے۔ انہیں معلوم ہے کہ ابھی کچھ عرصہ قبل ہی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے بعد کیا ہوا ، اس کے بعدامریکی کانگریس نے امارات کو سعودی عرب کے ساتھ قریبی تعلقات کی سزا دی اور متحدہ عرب امارات کو اپنی خارجہ پالیسی میں سخت نگرانی میں رکھ لیا۔
متحدہ عرب امارات کی واشنگٹن میں قطر کے مقابلے میں کہیں زیادہ ساکھ رہی ہے، ایک طویل عرصے تک کام کرنے والے سفیر کی طرف سے بنائے گئے تعلقات، افغانستان کی لڑائی میں لڑاکا دستوں کی مدد کرنے اور اسرائیل کے ساتھ ہونے والے حالیہ معاہدے کو معمول پر لانے جیسی پالیسیوں نے امارات کو امریکہ کے بہت قریب کردیا تھا ۔ اگر امارات کےساتھ امریکہ یہ سلوک کرسکتا ہےتو قطر کے ساتھ اس سے زیادہ برا بھی ہوسکتا ہے۔ فی الوقت تو قطر امریکہ کے قریب ہے لیکن یہ قریبی قائم رکھنا قطر کے لیے ضروری ہے۔
قطراگرچہ اس وقت طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کے لیے دباؤ نہیں ڈال رہا ، لیکن ان کے ساتھ انسداد دہشت گردی کی بنیاد پر بات چیت کی وکالت کر رہا ہے۔ اس کے وزیر خارجہ نے تین ہفتے قبل کہا تھا کہ اگر طالبان ملک کو مستحکم کرنے میں ناکام رہے تو یہ دوسرے دہشت گرد گروہوں کے لیے اقتدار پر قبضہ کرنے کے مواقع پیدا کر سکتا ہے۔
امریکہ کا مسلسل اصرار اس بات پر ہے کہ وہ افغانستان کو بنیادی طورپر دہشت گردی سے پاک کرنا چاہتا ہے اور اسی مقصد کے لیے وہ دوسرے ملکوں سے رابطہ بھی کررہا ہے۔ قطر کا کردار یہاں ایک رابطہ کارکا بھی ہے اور کسی حد تک قطر کو اپنی اس اہمیت کا ادراک بھی ہے لہٰذا فی الوقت امریکہ کے ساتھ تعلقات میں اسے کوئی خاص پریشانی نہیں ہے۔
سعودی عرب: امریکہ سے آہستہ آہستہ دور ہورہا ہے:
سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اور امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن کے درمیان طے شدہ ملاقات دو ہفتے قبل منسوخ کر دی گئی تھی، اگرچہ بعد ازاں بیان دیا گیا کہ یہ کچھ عرصہ بعد ہو گی۔ دریں اثنا، سعودی نائب وزیر دفاع شہزادہ خالد بن سلمان نے آسٹن کے روسی ہم منصب سے ملاقات کی جو سعودی عرب اور روس دونوں کی طرف سے امریکہ کے لیے ایک اشارہ ہے۔ ریاض چاہتا ہے کہ واشنگٹن جان لے کہ وہ کشیدہ امریکہ روس تعلقات کو بھی استعمال کرسکتا ہے ۔ دوسری طرف روس بھی افغانستان کے معاملے میں زمینی حقائق کو امریکہ سے زیادہ جاننے کا دعوے دار ہے جس کا ثبوت وہ افغانستان میں اپنی مسلسل موجودگی کے ذریعے فراہم کرتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ سعودی عرب پچھلے کچھ سالوں سے امریکہ پر اپنے کلی انحصار سے پیچھے ہٹ رہا ہے۔ اس کی وزارت دفاع میں چینی مشیر سرایت کر چکے ہیں ، جبکہ مملکت نے امریکہ کو اعتماد میں لیے بغیر ہی چینی مدد سے سویلین ایٹمی پروگرام تیار کرنے کے لیے اقدامات کیےہیں۔اسی طرح حال ہی میں ، سعودی عہدیداروں نے ایران کے ساتھ بات چیت میں حصہ لیا جو اس بات کا ایک مزید اشارہ ہے کہ وہ اب اپنی حفاظت مکمل طور پر امریکہ کے ہاتھ میں نہیں چھوڑ رہا ہے۔
موجودہ امریکی انتظامیہ ریاض پر اپنے چھوٹے چھوٹے احسانات جتاتی رہتی ہے لیکن یہ احسانات اکثر سعودیوں کے نزدیک اب غیر اہم ہوتے جارہے ہیں جنہوں نے حال ہی میں ایک بڑا ٹیکس ادا کرنا شروع کیا ہے اور اس وجہ سے وہ زیادہ قریب سے دیکھ رہے ہیں کہ ریاستی فنڈز کیسے خرچ کیے جاتے ہیں۔ اس پرمستزاد امریکہ کی طرف سے ایک دباؤ سعودی عرب پر یہ بھی رہا ہے کہ وہ افغانستان سے نکلنے والے مہاجرین کی ایک معقول تعداد کو قبول کرے،حالانکہ یہ سعودی عرب کے لیے دو طرح سے چیلنج تھا، ایک تو آبادی میں اضافہ اور دوسرے اپنی معیشت پر ناتجربہ کار اور بے ہنر افغانیوں کا بوجھ برداشت کرنا۔
اگرچہ سعودی حکومت یہ تسلیم کرتی ہے کہ واشنگٹن اسے ایران ایٹمی معاہدے پر مذاکرات جیسے مسائل میں مسلسل شامل رکھتا ہے ، لیکن وہ اس حقیقت پر افسوس کا اظہار کرتا ہے کہ اس نے بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا کے لیے کوئی وژن نہیں سنا۔ افغانستان سے انخلا کی نوعیت نے ریاض کو حیرت میں ڈال دیا ہے کہ کیا واشنگٹن پورے علاقے (جیسے شام ، لبنان ، عراق اور لیبیا) سے بھی اپنے انخلا کی تیاری میں ہے؟
سعودی عرب چاہتا ہے کہ امریکہ حقانی نیٹ ورک ، آئی ایس آئی ایس اور القاعدہ جیسے دہشت گرد گروہوں کے بارے میں انٹیلی جنس معلومات اس کے ساتھ شیئر کرتا رہے لیکن اگر امریکی خفیہ معلومات اکٹھا کرنے کی صلاحیتیں اب زمین پر نہ ہونے کی وجہ سے پست ہو جاتی ہیں تو ، سعودی عرب ممکنہ طور پر اس مقصد کے لیے بھی دیگر ذرائع پر انحصار کرے گا۔ مثال کے طور پر پاکستان کی انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) اہم ہے جس کا نہ صرف طالبان پر اثر و رسوخ ہو گا ، بلکہ وہ پاکستان کو دی جانے والی اپنی کثیر امداد کو افغانستان میں القاعدہ اور داعش جیسی تنظیمات کے خاتمے کے ساتھ مشروط کرسکتا ہے یا پاکستان پر اس حوالے سے دباؤ بھی ڈال سکتا ہے۔ اسی تناظر میں رواں ہفتے ریاض نے بھارت اور پاکستان کے درمیان کشمیر کے سیاسی تنازع میں ثالثی کی پیشکش بھی کی ہے۔
سعودی عرب ایک طرف یہ کبھی نہیں چاہے گا کہ افغانستان اس کی مخالف تنظیموں یا دہشت گردوں کی ایک بار پھر پناہ گاہ بن جائے۔ اس مقصد کے لیے وہ طالبان سے تعلقات قائم بھی رکھے گا لیکن طالبان کی براہ راست مدد سے گریز بھی کرے گا اور یہ کام پاکستان کے ذریعے کرے گا۔ یہاں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ طالبان کی گزشتہ حکومت کو تسلیم کرنے والے ممالک میں پاکستان اور سعودی عرب دونوں سر فہرست تھے۔
متحدہ عرب امارات: محفوظ کھیلنے والا کھلاڑی:
متحدہ عرب امارات کو افغانستان سے امریکی انخلاء سے نہیں بلکہ یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ یہ انخلا کتنے بھونڈے انداز سے ہوا۔ ائیر لفٹ کی کوششوں میں شامل اماراتیوں کے مطابق، انخلاء کے ابتدائی دنوں کے دوران، ایک اماراتی پائلٹ نے کابل ہوائی اڈے پر ائیر ٹریفک کنٹرول ٹاور سے اجازت نہ ملنے کے حکم کی خلاف ورزی کی۔ وہ ویسے ہی ائیر پورٹ پر اترا اور اماراتیوں اور کئی سو دیگر کو کامیابی سے نکال لیا۔
سقوط کابل کے بعد سے ، متحدہ عرب امارات نے افغانستان میں 250 ٹن سے زیادہ انسانی امداد پہنچائی ہے اور اپنے ہوائی اڈوں کو پانچ ہزار سے زائد افغان مہاجرین کے لیے کھول دیا ہے۔ لیکن انخلاء کے اوائل میں ایسا نہیں لگتا تھا کہ وہ افغان مہاجرین کو بالکل قبول کرے گا ، کیونکہ شہزادہ محمد بن زید کو تشویش رہی ہے کہ طالبان متحدہ عرب امارات کے خلاف کارروائی کرنے کی وجوہات تلاش کریں گے کیونکہ اس نے افغانستان میں امریکہ کے ساتھ اپنی خصوصی افواج کو شامل کیا تھا۔
امریکہ کے ساتھ تعلقات اور افغانستان کے معاملے میں ایک دوسرے سے بڑھ کر تعاون دراصل خلیجی ممالک کے آپسی انتشار کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ مثال کے طور پر امریکہ کی آنکھ کا تارا یعنی قطر امارات کو ایک آنکھ نہیں بھاتا اور اسی وجہ سے امارات نے افغانستان میں اپنے تحفظات کو پس پشت ڈال کر قطر سے آگے بڑھنے کے لیے امریکہ کے ساتھ آخری حد تک تعاون کیا ہے۔
اماراتی حکومت بھی افغانستان کے اندر دوسرے متشدد انتہا پسند گروہوں کے بارے میں فکر مند ہے۔ اس کو خدشہ ہے کہ اس کی قیادت کی جانب سے مذہبی انتہا پسندی کے خلاف آواز اٹھانا ملک کو ان گروہوں کا نشانہ بنائے گا۔ لیکن اس حوالے سے اہم معلومات کے لیے امارات اب امریکہ پر انحصار نہیں کرے گا۔ متحدہ عرب امارات اور اسرائیل میں ہونے والے معاہدے کے بعد سے اسرائیل اس خطے بالخصوص امارات کے خارجہ تعلقات کا ایک مرکزی پارٹنر ہے۔ اس سے ہٹ کرمتحدہ عرب امارات چین کے ساتھ اپنے قریبی تعلقات کو افغانستان پر نظر رکھنے کے لیے بھی استعمال کرسکتا ہے۔ چین متحدہ عرب امارات کے ساتھ بھی اچھے تعلقات رکھتا ہے اورکابل میں طالبان کی زیرقیادت حکومت کے ساتھ اپنے تعلقات کو بھی مضبوط کررہا ہے۔
مختصراً یہ کہا جاسکتا ہے خلیجی ممالک افغانستان میں امریکی انسداد دہشت گردی کے مقاصد میں شریک ہیں ، لیکن یہ ممالک اپنی سلامتی کو سر فہرست رکھنے کی کوشش میں ہیں، ان کے نزدیک آنے والے دنوں میں امریکہ کے لیے محض ایک اڈہ بننا غلط ہوگا۔
(ترجمہ و تلخیص: ٹیم الف یار)
(کرسٹن فونٹینروز اٹلانٹک کونسل کے مشرق وسطیٰ کے پروگراموں میں مڈل ایسٹ سکیورٹی انیشی ایٹو کے ڈائریکٹر ہیں۔)