ادھوری نظم

اندھیری شام کے ساتھی
ادھوری نظم سے زور آزما ہیں
بر سر کاغذ بچھڑنے کی
سنو ۔۔۔تم سے دل محزوں کی باتیں کہنے والوں کا
یہی انجام ہوتا ہے
کہیں سطر شکستہ کی طرح ہیں چار شانے چت
کہیں حرف تمنا کی طرح دل میں ترازو ہیں
سنو۔۔۔ ان نیل چشموں سخت جانوں بے زبانوں پر
جو گزرے گی سو گزرے گی
مگر میں اک ادھوری نظم کی ہیجان میں کھویا
تمہیں آواز دیتا ہوں
کہ تنہا آدمی تخلیق سے عاری ہوا کرتا ہے
جان من!
سنو۔۔۔ میرے قریب آؤ
کہ مجھ کو آج کی رات اک ادھوری نظم پوری کر کے سونا ہے!