ادھوراپن

تم جو کہتے ہو مجھ سے اکثر
کے نام تیرے پہ نظم کہہ دوں
سنو پھر تم میں چاہتی ہوں
سرد رتوں کی اداس شامیں
میں سنگ تیرے یوں بتاؤں
کلائیاں سونی پڑی ہیں کب سے
میں نام تیرے کنگن پہنوں
گلاب گجروں سے خوب مہکوں
خواب آنکھوں سے خود جو دیکھوں
تمہیں دکھاؤں
گہری نیندوں سے فجر کے لئے
خود جاگوں تمہیں جگاؤں
حدیث کسا روز جمعہ
سنوں تم سے تمہیں سناؤں
تمہاری گودی میں سر رکھے
ڈھلی دوپہر سو جاؤں
میرے جیون کی بہار تم ہو
میرا یہ جوبن سنگار تم ہو
مرے بخت کا راج تم ہو
میرے سر کا تاج تم ہو
تمہیں خبر ہے میرے مزاج میں
رومان کم ہے محبت کا اظہار کم ہے
تمہی ہو جان جاں جاناں
میں کیسے تم کو یہ جتاؤں
میری آنکھوں کی روداد پڑھ لو
یا دھڑکنوں کی زباں سناؤں
میرے ہونے کی تمثیل تم ہو
میں ادھوری ہوں تکمیل تم ہو