عدیم ہاشمی کی یاد میں

پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو کے نامور شاعر اور ڈراما نویس جنہوں نے عوامی تجربات کو آواز دی۔

مختصر تعارف

تخلص :عدیم

اصلی نام :فصیح الدین

پیدائش :یکم اگست، ۱۹۴۶| فیروز پور, پنجاب، ہندوستان

وفات :۰۵، نومبر، ۲۰۰۱ | شکاگو, ریاستہائے متحدہ امریکا

۶۰ اور ۷۰ کی دہائی میں پاکستان میں جدید غزل کے رجحانات منظرِعام پر آئے اور کئی ایک شعرا نے اس میدان میں اپنے فن کے جھنڈے گاڑے۔ ظفر اقبال کا نام اس سلسلے میں اہم ترین ہے۔ ان کے علاوہ خالد احمد‘ نجیب احمد‘ صابر ظفر‘ جاوید شاہین‘ سلیم شاہد اور کئی دوسروں کے نام لیے جا سکتے ہیں۔ اس فہرست میں اگر ایک نام شامل نہ کیا جائے تو یہ فہرست ہر لحاظ سے نامکمل رہے گی۔ اس کا نام ہے عدیم ہاشمی۔ نام فصیح الدین اور تخلص عدیم تھا۔ یکم اگست ۱۹۴۶ء کو فیروزپور(بھارت) میں پیدا ہوئے۔ فیصل آباد میں نشوونما ہوئی۔ ۱۹۷۰ء میں لاہور آگئے۔ بعدازاں وہ راول پنڈی منتقل ہوگئے۔ ان کا کلام ادبی جریدوں میں باقاعدگی سے چھپنے لگا۔ وہ اچھے ڈراما نویس بھی تھے اس دوران انھوں نے ریڈیو اورٹی وی کے لیے گیت لکھے۔ عدیم ہاشمی نے پاکستان ٹیلی وژن کے لیے ڈراما سیریل ’’آغوش‘‘ تحریر کیا۔ جسے ناظرین نے بہت پسند کیا۔ یہ اپنے وقت کی کام یاب ترین ڈراما سیریل تھی۔ اس کے علاوہ انھوں نے مزاحیہ ڈراما سیریز گیسٹ ہائوس کی چند کہانیاں‌ بھی تحریر کیں۔ ۲۰۰۱ء میں اپنے عزیز اورممتاز شاعر افتخار نسیم کے پاس امریکا چلے گئے۔ وہ طویل عرصے سے عارضہ قلب میں مبتلا تھے۔ ان کا بائی پاس آپریشن ہوچکا تھا ۔وہ۵؍نومبر۲۰۰۱ء کو شکاگو میں انتقال کرگئے۔ شکاگو میں‌ پاکستانیوں کے لیے مخصوص قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں ۔ ان کی تصانیف کے چند نام یہ ہیں: ’’ترکش‘، ’مکالمہ‘، ’چہرہ تمہارا یاد رہتا ہے‘، ’فاصلے ایسے بھی ہوں گے‘، ’بہت نزدیک آتے جارہے ہو‘۔

عدیم ہاشمی اپنے عہد کے عظیم ترین شعرامیں سے ایک تھے ۔ ان کی غزل، کٹ ہی گئی جدائی بھی، کب یہ ہوا کہ مر گئے، اردو ادب کی خوبصورت ترین غزلوں میں سے ایک ہے۔

عدیم ہاشمی کا یوم وفات پر ان کے کچھ منتخب اشعار بطور خراج عقیدت.

فاصلے ایسے بھی ہوں گے یہ کبھی سوچا نہ تھا

سامنے بیٹھا تھا میرے اور وہ میرا نہ تھا

۔۔۔۔۔۔۔

کیوں پرکھتے ہو سوالوں سے جوابوں کو عدیم

ہونٹ اچھے ہوں تو سمجھو کہ سوال اچھا ہے

۔۔۔۔۔۔۔

اک کھلونا ٹوٹ جائے گا نیا مل جائے گا

میں نہیں تو کوئی تجھ کو دوسرا مل جائے گا

۔۔۔۔۔۔۔

ہوا ہے جو سدا اس کو نصیبوں کا لکھا سمجھا

عدیم اپنے کیے پر مجھ کو پچھتانا نہیں آتا

۔۔۔۔۔۔۔

بچھڑ کے تجھ سے نہ دیکھا گیا کسی کا ملاپ

اڑا دیئے ہیں پرندے شجر پہ بیٹھے ہوئے

۔۔۔۔۔۔۔

ماہ اچھا ہے بہت ہی نہ یہ سال اچھا ہے

پھر بھی ہر ایک سے کہتا ہوں کہ حال اچھا ہے

۔۔۔۔۔۔۔

کٹی ہوئی ہے زمیں کوہ سے سمندر تک

ملا ہے گھاؤ یہ دریا کو راستہ دے کر

۔۔۔۔۔۔۔

ہم بہر حال دل و جاں سے تمہارے ہوتے

تم بھی اک آدھ گھڑی کاش ہمارے ہوتے

۔۔۔۔۔۔۔

میں دریا ہوں مگر بہتا ہوں میں کہسار کی جانب

مجھے دنیا کی پستی میں اتر جانا نہیں آتا

۔۔۔۔۔۔۔

مرے ہم راہ گرچہ دور تک لوگوں کی رونق ہے

مگر جیسے کوئی کم ہے کبھی ملنے چلے آؤ

۔۔۔۔۔۔۔

بکتا تو نہیں ہوں نہ مرے دام بہت ہیں

رستے میں پڑا ہوں کہ اٹھا کوئی آ کر

۔۔۔۔۔۔۔

یاد کر کے اور بھی تکلیف ہوتی تھی عدیم

بھول جانے کے سوا اب کوئی بھی چارا نہ تھا