ادیب اور فرقہ واریت: ایک اور گفتگو


فراق گورکھ پوریشرکاء: شمش الرحمن فاروقی، حامد حسین حامدفاروقی: فراق صاحب! آج کل لوگ آپس میں اس مسئلہ پر گفتگو کر رہے ہیں کہ فرقہ واریت کا رجحان جو ملک میں بڑھ رہا ہے یا نظر آر ہا ہے اس کے سلسلہ میں ادیب یا شاعر یا ایک مصنف کیا کر سکتا ہے، اس سے پہلے کہ میں آپ سے کچھ پوچھوں، میں چاہتا ہوں کہ اپنا موقف واضح کر دوں پھر آپ سے consult کروں کہ آپ کا کیا خیال ہے۔فراق: بہت اچھا ہے۔فاروقی: اصل میں حضور ایسا ہے، میرا بنیادی نظریہ تو یہ ہے کہ موقعہ یا بے موقعہ شاعر اور ادیب سے یہ Expect کرنا کہ کوئی واقعہ پیش آیا اور وہ فوراً نظم کہہ دےگا یا افسانہ لکھ دےگا، یہ زیادتی ہے اس کے ساتھ۔ مان لیجیے قحط پڑ گیا تو یہ امید کرنا کہ فراق صاحب نظم کہیں گے، بلوہ ہو گیا تو فلاں صاحب افسانہ لکھیں گے۔ اس طرح کا Made to order Production جو ادیب سے متوقع ہے، میں اس کے حق میں نہیں ہوں۔ پہلی بات تو یہ ہے، دوسری بات میری یہ ہے کہ اس قسم کی ہنگامی تحریروں سے واقعی کوئی اصلاحی یا انقلابی کارنامہ انجام نہیں پا سکتا۔ ممکن ہے کہ صحافت کے Level پر، اخباروں میں، رسالوں میں کوئی بہت بڑا مضمون یا خبر آ جائے تو ممکن ہے پڑھنے والوں کو اس سے کچھ تحریک ہو، لیکن فی نفسہ ادب کے ذریعہ سے کوئی اس قسم کا اصلاحی کارنامہ انجام دینا، میں سمجھتا ہوں کہ شاید ممکن نہیں ہے۔ لیکن، تیسری بات میں یہ عرض کروں گا کہ اگرچہ یہ صحیح ہے کہ ادب فی نفسہ کوئی king roc worlds کارنامہ نہیں ہوتا لیکن ادیب کو Protest کرنے کا حق حاصل ہے۔ جب بھی کبھی وہ دیکھے کہ انسانی حقوق یا انسانی آسائشوں یا انسانی سماج پر کوئی ضرب پہنچ رہی ہے تو اس کو حق ہے کہ وہ Protest کرے۔فراق: جی ہاں۔فاروقی: اس کی گردن دباکر Protest کرایا جائے، میں اس سے متفق نہیں ہوں لیکن اگر کوئی پروٹسٹ کرتا ہے، تو یہ بری بات نہیں ہے۔حامد: انسانی نفسیات بھی یہی ہے۔فاروقی: اب ان تین بنیادی خیالات کی روشنی میں، آپ اپنے تصورات کا اظہار فرمائیں۔فراق: میری گزارش یہ ہے کہ ادب میں قومی یا انسانی اتحاد کی تحریک اگر ہم ڈھونڈیں تو دنیا کی تمام بڑی کتابوں میں اس طرف بہت واضح اشارہ ملتا ہے۔Peace of earth is good will to men.بائبل ہے، قرآن ہے، وید ہے، اس کے بعد بڑے بڑے لکھنے والے بھی ہیں۔ ایک آدرش یا آئیڈیل کے طور پر، ایک روایت قائم ہو ایسی اس مقصد کے لیے یہ ہوا۔ لیکن انسانی جماعت میں تصادم کے موقعے پیدا ہوتے گئے ہیں، ہوتے رہیں گے، جنگیں ہوتی رہی ہیں اور جو توقعات ظاہر کی گئی تھیں، وہ پوری نہیں ہوئیں۔ پھر ایک بات اور سوچ لینے کی ہے، ہم اپنے ملک میں آ جائیں، اس دور میں مہاتما گاندھی کی شخصیت سب سے بڑی رہی ہے۔ انہوں نے ۲۱، ۲۲ دن کے فاقے کیے لیکن ان کی آنکھوں کے سامنے جتنا کشت و خون ہوا اتنا شاید کبھی بھی نہیں ہوا ہوگا، ہمارے سماج میں اتنی قوتیں کارفرما ہیں کہ کسی ایک تھپڑ سے یا کسی ایک علاج سے ان کا ازالہ نہیں ہو سکتا۔ اب رہی بات لکھنے کی۔ تو پیشہ ور (پیشہ ور میں بہت برے معنو ں میں استعمال کر رہا ہوں۔ قہقہہ) وہ مسکراتے ہوئے اکثر آتے ہیں کہ ادیبوں کا فرض۔۔۔ یہ انہوں نے کہا کہ میرا پارہ چڑھا۔ غرض یہ کہ ان کی جماعت یا ان کی قائم کردہ جماعت کوئی کارنامہ دکھائے۔ چاہے برائی دور ہو یا نہ ہو۔فاروقی: گویا کہ فی نفسہ اس برائی سے لڑنے کے لیے نہیں بلکہ۔۔۔فراق: ہاں تجارت کرنا چاہتے ہیں۔حامد: تاکہ Exploitation ہو سکے۔فراق: (زور دے کر) تجارت کہوں گا میں اسے۔ جہاں تجارت کی بو آئی ,وہ مجھے نہایت ناگوار ہوتی ہے۔ اب یہ دیکھیے کہ ہوا کیا؟ کرشن چندر کی نہایت پراثر کہانی بمبئی کے ہندو مسلم فسادات پر ہے۔ اسی طرح میں نے ہندوستان اور پاکستان کے بڑے بڑے رسالوں میں پڑھا ہے کہ اس قسم کے فساد ہماری انسانیت کے لیے کس قدر شرم ناک ہیں۔ میں ان فسادات میں خود تو حصہ نہیں لے سکتا لیکن جذباتی طور پر بہت متاثر رہا ہوں۔ آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں ایسی کہانیاں پڑھ کر۔فاروقی: رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔فراق: رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں، دیر تک آدمی سوچتا رہ جاتا ہے۔ مصیبت یہ ہے کہ بس پندرہ فی صدی تو یہاں خواندگی ہے، چودہ چودہ زبانیں ہیں اور یہ خواندگی بھی استعمال کی جاتی ہے جاسوسی افسانوں کے لیے یا جنسی افسانوں کے لیے یا سنسنی خیز چیزوں کے لیے۔ تو ہمارا سماج ابھی یورپ کے اچھے ملکوں کے سماج کی طرح منظم نہیں ہے۔ ایک تو نیم بے کاری، ناخواندگی اور بڑے حصہ کا اجڈ پن، یہ تین چار چیزیں بہت کچھ ہم کو تیار رکھتی ہیں کہ ہم آدمی سے بھیڑیے بن جائیں۔ آج کل پارٹیاں، سیاسی پارٹیاں اپنے مقصد کے لیے یہ کام کرایا کرتی ہیں، پہلے انگریز اپنے مقصد کے لیے کرتا تھا، اب ہم اپنے مقصد کے لیے کرنے لگے ہیں۔ تو میراخیال یہ ہے فوراً کوئی امر تخلیق ممکن نہیں ہوا کرتی۔ میں نے ایک فقرہ پڑھاتھا ایک انگریزی کتاب میں کہ خیالات ادب نہیں بن جاتے بلکہ ضرورت ہے Emotionelisation of thought کی، جبھی جاکر کے thought سماج کو بدلتا ہے۔کچھ ادیب تو ایسے موقعوں کو یا ان خرابیوں کو اپنا موضوع بنا سکتے ہیں اور جب تک وہ چیز نہ پیدا ہو جائے جس کو انگریزی میں Vision کہتے ہیں اثر نہیں پیدا ہو سکتا، وہ افسانے کے پردے میں پروپگنڈا ہو جاتا ہے، صحافت نگاری ہو جاتی ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ تصویر درد میں اقبال نے نیا شوالہ جو انہوں نے میرے سامنے لکھنؤ کے کانگرس سیشن میں پڑھا تھا، یہ تمام نظمیں بہت کام یاب نظمیں ہیں لیکن وہ مقصد پورا نہیں ہوتا۔ اس وقت تو خیال ہمارا ہو جائےگا لیکن ہم بھی کل کو ہو جائیں گے Communal۔ دوسری چیز یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ مصنف کو کتنی چیزیں اتنا بس میں لاتی ہیں کہ وہ بڑی چیز تصنیف کر دے مان لیجیے کہ ode to Nightingale ہے اس میں تو کوئی مقصد نہیں ہوتا Ode to autumn دیوان حافظ تو پہلے تو یہ ہے کہ ہر ادیب پر یہ فرض بہ حیثیت ادیب نہیں ہوتا۔۔۔حامد: بہ حیثیت شہری ہو سکتا ہے۔فراق: جی ہاں! بہ حیثیت شہری ہو سکتا ہے کہ وہ کسی ا نجمن کا ممبر ہو جائے۔ دوڑے دھوپے۔ جو انجمنیں یا جو افراد ٹھیکیدار بن بیٹھے ہیں قومی زندگی کی اصلاح کے، ان سے بہت بچنا چاہیے۔ انہوں نے ادب کو تجارت بنا رکھا ہے۔ الگ ہو کے لکھے، جیسے ڈکنس نے انگلستان کی حکومت کی بے انصافیاں اور غریب بچوں کا تذکرہ جیسے Oliver Twist میں ہے۔ ایسا کوئی لکھے تو ایک بات ہے۔ کوئی روسو ہو کوئی والٹیئر ہو، کوئی ڈکنس ہو، کوئی ٹالسٹائی ہو تو لکھے۔ ایسے ادیب آئے دن پیدا نہیں ہوتے ہیں۔ ہم اس دور میں چھوٹے پن کے بحران سے گزر رہے ہیں۔فاروقی: مگر اسی پر یہ سوال اٹھتا ہے کہ اس قسم کی تحریر کے لیے جب تک کوئی ڈکنس، کوئی روسو نہ پیدا ہو، اس میں جان نہیں آ سکتی۔ لیکن کیا اس وجہ سے کہ ہم میں کوئی روسو، کوئی ٹالسٹائی نہیں ہے ہم اپنے غصے اور احتجاج کاا ظہار نہ کریں۔فراق: اس کا جواب بھی ہے، اس سے ذرا نیچے اترکر ہم لکھ سکتے ہیں اور لکھتے ہیں۔ کرشن چندر کو ہم ہرگز ڈکنس یا روسو نہیں مانتے لیکن اس کی تحریروں نے بڑا کام کیا ہے، عصمت کی تحریروں نے بڑا کا م کیا ہے، لیکن ’کام کیا ہے ‘ یہ Irverted comas میں ہے۔ ان تحریروں نے دل و دماغ پر اثر ڈالا ہے لیکن وہ برائی ایسی نہیں ہے، وہ مسئلہ اتنا سہل نہیں ہے کہ تحریر سے متاثر کرکے آپ لوگوں کا کردار بدل دیں۔فاروقی: اب ایک بہت ہی Concrete سا سوال لے لیں کہ احمد آباد کا واقعہ کچھ دن پہلے پیش آیا تو اس پر ادیبوں اور شاعروں اور دانش وروں میں ایک۔۔۔فراق: ہیجان۔۔۔فاروقی: ہیجان سا پید اہوا۔ ممکن ہے کہ پچھلے ۲۲، ۲۳ برس میں ہونے والے فسادات پر ترقی پسند ادیب اس لیے خامو ش رہے تھے کہ حکومت نہیں بول رہی تھی۔ اب حکومت بھی فسادات کی مذمت کر رہی ہے۔ لہٰذا وہ بھی بول رہے ہیں۔ لیکن بہرحال ایک ہیجان سا برپا ہوا کہ صاحب اتنا بڑا واقعہ ہو گیا۔ اگر فرض کیجیے کہ لوگ متوقع ہیں کہ اس موقعہ پر نظم ضرور لکھیں یا اس پر افسانہ ہم ضرور لکھیں اور ہم نہیں لکھ پاتے تو کیا ہم اپنے فرض منصبی میں ناکام ہو رہے ہیں۔فراق: میں جواب دوں گا، یہ ایک عجیب ستم ظریفی ہے اس امر میں کہ خود مجھ سے اس موضوع پر نظم لکھوائی گئی اور وہ نظم میں مسز فاروقی کو بھیج بھی چکا ہوں۔ ’’ہم ایک تھے، ہم ایک ہیں، ہم ایک رہیں گے۔‘‘ وہ تو ایک اتفاقی امر ہے۔ یہ بالکل نہیں کہا جا سکتا اور جو کہے اس کی سخت مخالفت کرنی چاہیے کہ جو ادیب اس موضوع کو نہیں لیتے اور دوسرے موضوعات پر لکھتے ہیں، وہ ادیب نہیں ہیں۔ ہم بڑے ادیب تب بھی ہو سکتے ہیں۔ اگر خود میں عشق کو یا مسائل سے کافی ہٹی ہوئی چیزوں کو اپنی نظموں میں نہ لکھتا تو تھوڑی بہت کامیابی جو مجھ کو بہ حیثیت اردو شاعر کے ہوئی یا جو مقبولیت ہوئی، وہ نہ ہوتی۔فاروقی: ایک معاملہ اور ہے۔ خیر، یہ تو تاریخی حقیقیت ہے کہ فسادات پر نئے شاعروں نے بھی نظمیں لکھی ہیں۔ عادل منصوری نے، شہر یار نے، قاضی سلیم نے۔۔۔حامد: جی ہاں، بہت سے لوگوں نے۔فاروقی: محمد علوی نے، سلیمان اریب نے، بلراج کومل نے، عمیق حنفی نے۔ خود میں نے بھی قلم گھسا ہے۔فراق: جی ہاں، کیوں نہیں، نئے شاعروں نے یقیناً نظمیں لکھی ہیں۔فاروقی: اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم نے یہ کوئی اپنا فرض جانا کہ ہم فسادات پر ہی لکھیں ہی! یہ اپنے دل کی آواز تھی۔ ہم نے اس کا اظہار کیا۔فراق: بالکل صحیح، ایک چیز اور میں کہہ دوں۔ ’فرض‘ کے لفظوں کو میں ادب کی تخلیق سے جلدی منسلک نہیں کرتا۔ آپ اچھی چیزیں اور بھی لکھیں لیکن فرض سمجھ کر نہیں لکھتے، اندر کی آواز آپ سے کہلواتی ہے۔ تخلیق ادب ایک اضطراری فعل ہے۔ البتہ اس میں سوجھ بوجھ اور آپ کا کلچر رینگ آتا ہے، کسی نہ کسی طرح پہنچ جاتا ہے۔ آپ کا مزاج ایک طرح سے آپ کی تخلیق میں ہو جاتا ہے لیکن جہاں ’’ادیبوں کا فرض‘‘ جیسے لفظ آتے ہیں، اسی وقت ہم اپنا فرض بھولنے لگتے ہیں (قہقہہ) چسٹرٹن نے ایک فقرہ لکھا ہے کہ جو لوگ بے بس ہیں، مظلوم ہیں، اگر ان کو آزادی مل جائے کہ جو چاہیں سو کریں تو سب سے پہلے وہ سوشل ورکر کو قتل کر دیں گے۔ ناصح مشفق والا رول اچھا نہیں ہوتا۔۔۔فاروقی: قابل قبول نہیں ہے۔فراق: بلکہ خیال جب ایک فارم بن جائے۔حامد: رچ بس جائے۔۔۔فراق: اس وقت وہ کام کرےگا اب جیسے Uncle Tom’s Cabin ہے یاStory of an African Farm ہے۔ ان کتابوں نے فوراً بڑا اثر کیا لیکن فوراً اثر نہیں کیا۔ برنارڈشا کے ڈراموں نے Public Opinion جسے آپ کہتے ہیں اسے Power بننا ہو تو وہ بہت شدہ شدہ وقت لیتے ہوئے اور Forces سے اپنے کو Combine کرتے ہوئے کارگر ہوتی ہے۔ ادھر ضرورت ہے کہ آپ اتحاد کے قائل ہوں اور کسی افسانے میں ذکر کریں اس کا، ادھر ایک گاندھی کی ضرورت۔فاروقی: آڈن نے ابھی حال میں لکھا ہے کہ فرض کیجیے موزارٹ اور Beethoven اورشیکسپیئر وغیرہ نہ ہوتے تو بھی مغربی یورپ کی تاریخ جو تھی وہی رہتی، اب اس پر بڑا بنیادی سوال اٹھتا ہے کہ پھر آخر ادب کی Relevance کیا ہے؟فراق: یہ۔۔۔ یہ چیز بڑی خوب صورت ہے۔ اس پر New man نے روشنی ڈالی ہے۔ اس نے کہا کہ ہم صرف علم حاصل کرنے یا نیکی کرنے کے لیے پیدا ہی نہیں ہوئے۔ ہماری زندگی کا سب سے قیمتی تقاضہ ہے Joy of understanding وجدان خود ایک ایسی چیز ہے جس کی قیمت ہوتی ہے خوا ہ فوراً اس کا نتیجہ نہ نکلے یہ Co operate کرے گا جب اور قوتیں مل کر سماج کو بہتر بنائیں گی Beethoven کی لطافتوں سے مارکس متاثر ہے، لینن متاثر ہے۔ کیوں؟ کیا کوئی انقلاب آ گیا؟فاروقی: لینن صاحب تو Beethoven کو گھنٹوں سنتے تھے اور سر دھنتے تھے۔فراق: مارکس، اس کی بیوی اور اس کے بچے برابر شیکسپیئر کو پڑھتے اس کو Qoute کرتے اور سردھنتے تھے تو اس کی Relevnce کیا ہے؟ شرافت، نیکی اور اخلاقی زندگی کے تقاضے ان کو ہم عملی طور پر تصور کر سکتے ہیں کہ ان کو فنون لطیفہ سے الگ کرکے بھی ہم دنیا میں قائم کر سکتے ہیں۔ تو پھر فنون لطیفہ کا کیا کام؟ ایک جواب تو اس کا وہی ہے، Joy of Under Standing یا کیفیت حاصل کرنا۔ دوسری چیز یہ ہے کہ آپ نے ایک گلاس دودھ پی لیا اور وہ آپ کو ہضم ہو گیا لیکن آپ دودھ سے حاصل کردہ توانائی سے زندگی میں اگر کوئی اچھے کام کرتے ہیں تو فوراً یہ نہیں کہہ سکتے کہ دودھ کے کس قطرہ نے یہ کام آپ سے کرایا۔حامد: یا دودھ ہی نے کرایا۔فراق: ہوتا یہ ہے کہ مجموعی اثر پڑا کرتا ہے۔فاروقی: Totality of Influenceفراق: ہاں! مثلاً جھونکا نسیم کا آیا، طبیعت میں تازگی آئی، آپ غزل کہنے لگے۔ غروب آفتاب دیکھا، ایک پرکیف درماندگی کا اثر ہوا آپ پر، آپ سے غزل ہونے لگی اور اگر آپ ان چیزوں سے متاثر نہ ہوں گے تو آپ ان شاعروں کی طرح شعر کہیں گے جن کے کلام میں اثر نہیں ہے۔ دوسری چیز یہ ہے کہ یہ بھی ایک Action ہے کہ مثلاً ویت نام کے عوام پر جو کچھ ہوا ہے اس کو سوچ کر ہم اس کی مدد نہ کر پائیں لیکن اداس ہو جائیں۔ ہمارا اداس ہو جانا ایک خدمت ہے۔ گوئٹے کہتا ہے،“A World is a deed”میں تو یہ بھی کہتا ہوں A Feeling also is a deed اگر دو کروڑ آدمی ان موضوعات پر تحریریں پڑھیں اور اپنے وجدان کو متاثر پائیں تو Public opinion بھی Create ہو جائےگی۔ ہم جب تک کائنات کے متعلق ایک شعور اور اس شعور سے متاثر ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتے تو ممکن ہے کہ ہم زندگی کے ضروری کام کر دیں لیکن کوئی باقاعدہ کارنامہ انجام نہیں دے سکتے۔ کانسٹبل، چور کو پکڑتا ہے اور جیلر اسے جیل میں بند رکھتا ہے تو کیا جیلر کا کام زیادہ بڑا ہوا۔ اس کی Relavence زیادہ ہوئی بہ نسبت ان لوگوں کے، جن کے اثر سے دنیا میں نیکی آئی۔ کتنی دور کمند جاتی ہے آپ کے Moralvision کی، یہ اصل چیز ہے۔ سرجان سیلی، جس چیز کو Religion of humanity کہتا ہے، اس کو بنانے میں ضرور مدد دیتی ہے شاعری۔ بلکہ رین بو، کا یہ کہنا ہے کہ جب میرے ہاتھ میں کوئی کتاب آتی ہے تو میں پہلے یہ محسوس کرنا چاہتا ہوں کہ مصنف کتنا اچھا آدمی ہے، مگر یہ چیز ایسی نہیں ہے کہ فوراً آپ اس پر انگلی رکھ دیں کہ جیسے ہی وہ ناول پڑھا، جرائم بیس فی صدی کم ہو گئے، یہ نہیں ہوتا اور ایسی اچھی تحریر کسی ایسوسی ایشن کی ممبری، کسی ریزولیوشن سے یا کسی مینی فیسٹو سے نہیں پیدا ہو سکتی۔فاروقی: گویا کہ آپ چاہتے ہیں کہ ادیب کے وجدان کو آزاد چھوڑ دیں اور جو راہ وہ چاہے، اختیار کرے، اگر واقعی اس میں کوئی ایسا vision یا عرفان ہے۔۔۔فراق: کبھی کبھی بلند معنوں میں۔۔۔ ایک بات پیدا ہو جاتی ہے۔ مثلاً نطشے Superman کا جو Idea ہے، اس سے خطرناک نتائج بھی نکل سکتے ہیں۔فاروقی: اور نکلے۔فراق: ہاں! نکلے۔ خودی کا جو فلسفہ اقبال کا ہے، جو کام کیا گیا اس کے نام پر، اس میں اقبال شاید نہ شریک ہوتے اور اگر شریک ہوتے تو اپنی بلندی سے اترکر۔ اس کے برخلاف گیتانجلی کی ہر نظم لاجواب نظم ہے لیکن آپ اس میں مقصد نہیں ڈھونڈ سکتے۔ چنانچہ آسکرووائلڈ نے کہہ دیا تھا کہ All art is uselessفاروقی: جی ہاں اس نے The Picture of Dorian Gray کے دیباچہ میں۔۔۔فراق: A book is Neither moral nor Immoral. It is either well written or ill written:فاروقی: مگر بڑی مشکل یہ ہے آپ اس عمر میں آکر ایسی باتیں کہہ رہے ہیں جو ہم لوگ کہتے ہیں۔فراق: ہم تو تمہاری عمر میں بھی یہی کہتے تھے۔فاروقی: میرا مطلب یہ یہ ہے کہ ہم لوگوں کو تو لوگ کہتے ہیں کہ یہ سرپھرے ہیں، لونڈے ہیں، ادب کو بے مقصد جانتے ہیں لیکن آپ جیسے بزرگ لوگ بھی یہی کہتے ہیں۔ آپ جو گفتگو ہم سے فرما رہے ہیں ہم لوگ بھی کم وبیش یہی کہتے ہیں۔فراق: لونڈے اور سرپھرے نہیں، بلکہ ایک خاص جماعت تو آپ لوگوں کو اور ہی لقب دے چکی ہے۔ (قہقہہ)فاروقی: ایک دفعہ قیوم نظر صاحب فرانس گئے اور سارتر سے ملے۔ سارتر نے ان سے پوچھا کہ ’’بھئی آپ کا الجیریا کے بارے میں کیا خیال ہے؟‘‘ انہوں نے کہا کہ میں شاعر ہوں۔ میراان باتوں کے بارے میں کوئی خیال ویال نہیں ہے۔ تو سارتر خفا ہو گیا اور کہا کہ پھر میں آپ سے بات نہیں کروں گا۔ اس کا مطلب لوگوں نے یہ نکالا ہے کہ ادیب کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ Political minded ہو۔ لیکن میرا خیال یہ ہے کہ سارتر کا مطلب یہ تھا کہ اپنے گردوپیش میں جو ہو رہا ہے۔۔۔فراق: بالکل۔فاروقی: سارتر کا مطلب صرف اتنا ہی تھا کہ ادیب کو اپنے گردوپیش میں ہونے والے حالات سے باخبر ہونا چاہیے۔فراق: اس نے تو صرف ان کا خیال پوچھا تھا اور خیال رکھنا حق ہی نہیں بلکہ فرض ہے۔فاروقی: اسی پر یاد آتا ہے کہ آپ نے ایک بار بہت اچھی بات فرمائی تھی کہ روزانہ کے جو سماجی مسائل اور سیاسی حالات ہیں، میں ان پر بہت غور کرتا رہتا ہوں لیکن جب میں شعر کہنے بیٹھتا ہوں۔۔۔فراق: تو وہ باتیں ذرا ساہٹ جاتی ہیں۔ معلوم نہیں۔۔۔ حالاں کہ آپ کے مضامین جو میں نے پڑھے ہیں، ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ میری بات ضرور Appreciate کریں گے، میرا ایک شعر ہے،میرے پاس دھرا ہی کیا تھا درد بھری کچھ آوازیں جن کے دم سے رخ ہستی پر دیکھو کیا تابانی ہےاس میں نہ الجیریا ہے، نہ ویت نام ہے، نہ قومی اتحاد ہے، نہ غریبوں کا مسئلہ ہے لیکن دل کتنا گداز ہوا ہوگا ان چیزوں سے، تب جاکر یہ مٹھاس پیدا ہوئی ہوگی شعر میں اور سنیے جب یہ شعر ہم پڑھیں گے۔دل پھر طواف کوئے ملامت کو جائے ہے پندار کا صنم کدہ ویراں کیے ہوئےتو I become a good manحامد: لیکن صاحب جس گداز کا ذکر آپ نے اپنے شعر کے حوالہ سے کیا ہے، وہ ہمیں سردار جعفری کی کسی نظم یا شعر میں نہیں ملتا۔فراق: بالکل بجا آپ نے فرمایا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شاید ان کا ارادہ تو کوئی برا نہیں ہے لیکن ان کے مزاج میں ایک سختی ہے، ایک خشونت ہے مگر بہ حیثیت انسان کے وہ آپ کے لیے جان دے سکتے یں لیکن مزاج براہ راست عمل کی شکل نہیں اختیار کرتا۔ اسی لیے میرا مصرعہ ہے،گر عشق نہ ہو عمل ترقی نہ کرے۔گورکی کہتا ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی کتاب سے ایک مجرم بڑی چیز ہے۔ یہ احترام حیات ہے۔ محض ایک عادت ڈال لینا کہ صاحب وہاں آگ لگی ہے تو بجھانے کے لیے پہنچ گئے۔ آگ لگنے سے میری مراد ہندو مسلم فساد ہے۔ اخلاق کو اگر آپ نے پیشہ بنایا تو اخلاق گیا۔ میں محسوس کرتا ہوں کہ بڑے سے بڑے کام سے بڑی چیزیں ہیں بڑے جذبات۔فاروقی: یہاں ایک مسئلہ پیدا ہوتا ہے۔ ترقی پسند حضرات کی جو یہ Thesis ہے کہ ادیب بہت ہی باعمل انسان ہوتے ہیں، یہ دراصل Victorism عہد کی پیداوار ہے۔فراق: ہاں Samvel Smiles کی’Duty’ اورThift وغیرہ قسم کی کتابیں (قہقہہ)فاروقی: اس زمانے میں کچھ نقادوں نے یہ افسانہ گڑھا تھا کہ بڑے شاعر اور ادیب بڑے باعمل انسان ہوتے ہیں مثلاً سافوکلیز نے جنگ میں حصہ لیا تھا۔۔۔فراق: یابائرن۔۔۔ لیکن شیلے کا مضمون ہے Defence of Poetry اس میں وہ Conduct اور Character کا فرق بیان کرتا ہے۔ شیلے کا کہنا ہے کہ Conduct, Character نہیں ہے آدمی اپنے Conduct میں غلطی کر سکتا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس کا Character بھی خراب ہو۔ شعوری وجدانی اور نفسیاتی خواص کا ردعمل ہے اور شاعر کا Charecter ضرور بلند ہوتا ہے۔فاروقی: اسی لیے اس نے کہا ہے کہ شاعری کے لیے Devine fire کی ضرورت ہوتی ہے۔فراق: ہاں! Devine fireحسن فروغ شمع سخن د ور ہے اسدپہلے دل گداختہ پیدا کرے کوئییہاں دل گداختہ کے پہلے ہی آپ فرض منصبی جیل جانے کو سمجھتے ہیں کہ اسی لیے کہا گیا ہے کہ Patriotism اور میں تو کہتا ہوں کہ ہر ism یہاں تک کہ “Communism is the last refuge of the Scoundral.”ادب کا مقصد صرف یہ نہیں ہے کہ لوگ اپنے فرض کو پورا کریں۔ اس میں دو ہزار اور قوتیں کارفرما ہوں گی۔ اسی لیے میں نے کہا ہے : کام نہ چل سکا فراق کچھ نہ کیے بغیر بھی۔ ہر ایک کو ہملیٹ بننا پڑتا ہے۔ اب آپ یہ دیکھیں۔It is a mixed world- we have to learn to live with wrong.فاروقی: جیسا کہ King Lear میں ہے،Men must endureTheir going hence even as their coming hither Ripeness is all.فراق: ہاں! Ripeness is all