پاکستان کا مستقبل عدم اعتماد سے نہیں، کامل اعتماد سے وابستہ ہے
اپوزیشن کی طرف سے پیش کی جانے والی تحریک عدم اعتماد کے بعد سے سیاسی میدان اعتماد کے بحران کا شکار نظر آرہا ہے۔ ہر آنے والی خبر کچھ دیر اپنا اعتماد برقرار رکھتی ہے ، پھر یہ خبر بھی کسی عدم اعتماد کا شکار ہوجاتی ہے۔ کون کس کے ساتھ ہے؟ کس کا اعتماد کس پر ہے اور کون کس پر عدم اعتماد کررہا ہے، کوئی سمجھ نہیں آرہی۔ ہر سیاست دان، خواہ اس کا تعلق حکومت سے ہے یا اپوزیشن سے، بڑے اعتماد سے ایک دن ایک بات کرتا ہے ، اور دوسرے دن ہی وہ اس حوالے سے معذرتیں پیش کررہا ہوتا ہے۔ افراد تو کیا، جماعتوں اور پارٹیوں کی بھی یہی صورت حال ہے۔
اب اس ساری صورت حال کا بغور جائزہ لیا جائے تو ایک بحران یہ پیدا ہوتا نظر آرہا ہے کہ ملک کے عوام کا اعتماد بحیثیت مجموعی سیات سے اور سیاست دانوں ، دونوں سے ہی اٹھتا نظر آرہاہےاور یہ شاید اس جاری کشمکش میں ملک کا سب سے بڑا نقصان ہے۔ سیاست اور جمہوریت ، خواہ کتنی ہی کمزور اور بری ہی کیوں ہو، مطلق العنانیت اور آمریت سے بدرجہا بہتر ہوتی ہے۔ لیکن فی الوقت جو صورت حال ملک میں جاری ہے، وہ صورت حال عوام بالخصوص نوجوانوں کو، جو ملک کا مستقبل ہیں، سیاسی عمل سے دلبرداشتہ اور مایوس کرنے کا باعث بن رہی ہے اوراس مایوسی و نومیدی کا نتیجہ خدانخواستہ کسی غیر جمہوری انقلاب کی حمایت کرنے یا ذہنی طور پر اس کے لیے تیار رہنے کی صورت میں بھی نکل سکتا ہے۔
عدم اعتماد کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے، اس کا ابھی شاید کسی کو اندازہ نہیں۔ لیکن اس ساری کھینچا تانی میں عوام بالخصوص نوجوانوں کے ذہنوں میں سیاسی عمل سے پیدا ہونے والی مایوسی کس قدر خطرناک ہوسکتی ہے اس کا اندازہ ابھی سے ہونا شروع ہوگیا ہے جب مختلف ٹی وی چینلز اور سروے یہ بتا رہے ہیں کہ پاکستان میں ووٹ ڈالنے کی شرح تیزی سے کم ہورہی ہے۔ بالخصوص شہری علاقوں میں جہاں اکثر عوام پڑھی لکھی ہوتی ہے، وہاں ٹرن آؤٹ زیادہ تیزی سے کم ہورہا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے لوگوں کو اب اس سے کوئی غرض نہیں کہ کون آتا ہے، کون جاتا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ مہنگائی قابو میں آئے گی اور نہ ہی امن و امان کی صورت حال بہتر ہوگی۔ لہذا جو وقت کسی نمائندے کو ووٹ ڈالنے اور اس کے لیے دوسروں کو قائل کرنے میں ضائع کرنا ہے اسے اپنی حالات سدھارنے یا کچھ کما لینے میں استعمال کیا جائے۔
عدم اعتماد کی اس تحریک کے دوران جب نوجوان یہ دیکھتے ہیں کہ وفاداریاں خریدی اور بیچی جارہی ہیں، لوٹا کریسی پورے عروج پر ہے اور کوئی بھی شخص دولت اور مراعات کے لیے اپنے وژن، اپنے مقاصد اور اپنے خوابوں سے دستبردار ہوسکتا ہے تو انہیں بھی یہی پیغام ملتا ہے کہ اس دنیا میں ایمان داری اور غیرت و حمیت کی کوئی وقعت نہیں ہے، انہیں بھی ویسا ہی کرنا چاہیے۔ یہ وہ اثرات بد ہیں جو اس عدم اعتماد کی سیاست کی وجہ سے عوام میں پیدا ہورہے ہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ عوام میں موجود اس مایوسی کو مزید پھیلنے اور بڑھنے سے روکا جائے۔ انہیں یہ بتانے اور سمجھانے کی ضرورت ہے کہ جو کچھ بھی ہورہا ہے وہ اس وجہ سے ہے کہ اچھے لوگوں نے سیاسی میدان و عمل سے فاصلہ پیدا کرلیا ہے۔ کیچڑ کو صاف کرنے کے لیے اس میں اترنا پڑتا ہے لیکن مقصد اس کی صفائی ہو تو یہ عمل برا نہیں بلکہ محبوب گنا جاتا ہے۔ انہیں اس حوالے سے تیار کرنے اور آگے بڑھنے کا عندیہ دیا جانا چاہیے، اور اس کام کو ملک کے باشعور اور مخلص لوگوں کو اپنے ذمہ لے لینا چاہیے۔ ہمیں اپنی نئی نسل کو عدم اعتماد اور اعتماد کے بحران سے نکال کر اپنی قوت ارادی اور قوت بازو پر مکمل اعتماد سکھانا ہوتا ، تب ہی ممکن ہے کہ ہمارے ملک اعتماد سے آگے بڑھ سکے!