ادب میں طنز کی جگہ
اگر یہ صحیح ہے کہ ادب زندگی کا ترجمان اور مصور ہونے کے ساتھ ساتھ اس کا نقاد بھی ہے تو نقدونظر کے تمام آلے، ادب کے ذریعہ سے زندگی کی کشمکش کو سمجھنے سمجھانے اور اس کی ارتقا پذیری اور زوال آمادگی کا تجزیہ اور اظہار کرنے میں ادیب کے شعور کے مطابق کام میں لائے جا سکتے ہیں۔تنقید کے مواقع اسی وقت زیادہ حاصل ہو سکتے ہیں جب کسی واقعہ یا تحریر سے خاص قسم کا اثر مترتب ہو اور اسی اثر کو ظاہر کرنے میں ذہن وفکر کی تمام صلاحیتیں کام میں لگ جائیں۔ اگر یہ اظہار، اختلاف یا ناپسندیدگی، نفرت یا نکتہ چینی کی شکل میں نمایاں ہو تو کبھی کبھی لکھنے والے کے مزاج اور انداز بیان کی مطابقت سے طنز کی شکل بھی اختیار کر سکتا ہے بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ غیر متناسب یا بے محل عناصر کی تنقید میں سنجیدگی سے زیادہ طنز کو اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ اسی لئے مفکرانہ ادب میں طنز کو کوئی معمولی جگہ نہیں ملنا چاہئے کیونکہ اس میں اثر انگیزی کی صلاحیت ہے جو شاعری کے سوا کسی اور صنف ادب میں اتنی مقدار میں نہیں پائی جاتی۔دوسرے اصناف ادب کی طرح طنز کی تعریف اور تحدید بھی آسان نہیں۔ بعض لوگ طنز اور مزاح کو اس طرح الجھا دیتے ہیں کہ طنز کی حقیقت مزاح میں چھپ جاتی ہے۔ اس کا سبب یہی ہے کہ مزاح کی مختلف شکلوں کے درمیان حد فاصل کھینچنا دشوار ہے۔ طنز، مزاح کے سوا کچھ اور بھی ہے اور یہی ’’کچھ اور‘‘ گرفت میں نہیں آتا۔ یوں تو مزاح اور ظرافت کی فلسفیانہ توجیہ میں بہت سی موشگافیاں کی گئی ہیں۔ ہنسی کے عضویاتی اور جسمانی عمل سے لے کر اس کی ذہنی اور روحانی کیفیت تک بہت سے اشارے کئے گئے ہیں لیکن طنز میں ایک تضادی کیفیت ہے جو خوشگوار تکلیف یا ناگوار لطف کے نام سے تعبیر کی جا سکتی ہے۔ طنز میں ناگواری کی جو کیفیت ملتی ہے، شاید اسی کی وجہ سے بہت سے لوگ اسے مزاح سے الگ کرکے دیکھتے ہیں۔تھیکرے اور میریڈتھ دونوں نے مزاح کی اہمیت تو تسلیم کی ہے لیکن طنز کی نہیں، اصل حقیقت یہ ہے کہ طنز کا وجود مزاح کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ ہاں مزاح طنز سے بالکل پاک بھی ہو سکتا ہے۔ خالص ظرافت میں ارسطو کے خیال کے مطابق بھداپن اور بدصورتی کا احساس ہو سکتا ہے لیکن اذیت کا احساس نہیں ہونا چاہئے۔ اس طرح ایک بات تو طے ہو سکتی ہے کہ طنز مزاح کی ایک قسم ہے جس میں مقصد کے بدل جانے سے بعض ایسی خصوصیتیں پیدا ہو جاتی ہیں، ظرافت جن کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ طنز اور مزاح میں تفریق نمایاں کرنا آسان نہ ہو لیکن معلوم یہی ہوتا ہے کہ ظرافت کا مقصد تفریح ہے اور طنز کا مقصد افراط وتفریط کی اصلاح۔طنزنگاری کی حدیں ظرافت سے جس جگہ جدا ہوتی ہیں، وہاں صرف مقصد اور انداز بیان کی دیواریں کھڑی کی جا سکتی ہیں لیکن جو چیز طنز کے سلسلہ میں سب سے زیادہ غور طلب ہے وہ طنز اور حقیقت کا تعلق ہے۔ حقیقت کا ادراک کئے بغیر طنز پیدا ہی نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اگر کسی کے پاس حقیقت کا کوئی تصور ہی نہیں ہے تو وہ کسی قسم کے توازن کی جستجو کر ہی نہیں سکتا۔ طنز کے لئے حقیقت کے ایک ایسے مرکز کی ضرورت ہے جسے ادیب کی نظر میں عمومیت اور توازن حاصل ہو اور جس سے گھٹنا یا بڑھنا اس عمومیت اور توازن میں فرق ڈالتا ہو۔یہی وجہ ہے کہ ہر شخص طنز کا حربہ استعمال نہیں کرسکتا۔ طنز نگار کے پیش نظر حقیقت کا ایک عقلی اور مادی تصور ضرور ہونا چاہئے ورنہ اس کا طنز مضحکہ خیز اور بے نتیجہ بن کر رہ جائےگا اور جس جگہ طنز میں مضحکہ خیزی کا پہلو پیدا ہو وہاں طنز کامیاب نہیں رہ سکتا۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ طنز محض تخیلی نہیں ہو سکتا۔ اس کا نشانہ کسی مادی حقیقت کو ہونا چاہئے، محض لفظی الٹ پھیر سے ضلع جگت بنتا ہے۔ معنویت طنز پیدا کرتی ہے اور معنویت کے لئے حقیقت کی اساس لازمی ہے۔زندگی کی مادی رفتار خیالات پیدا کرتی، ان سے اثر لیتی، اپنی رَو سے فلسفے، مذہب، اخلاق اور تمدن کے دوسرے مظاہر کو جنم دیتی ہوئی چلتی ہے۔ انھیں نئے سانچوں میں ڈھالتی ہے۔ نئی صورتوں میں نمایاں کرتی، نئی شکلوں میں تشکیل دیتی ہوئی آگے بڑھتی ہے لیکن دونوں کا تعلق کسی ایسی یکسانی اور ہم آہنگی پر مبنی نہیں ہوتا کہ کسی حکیمانہ اصول سے ان تغیرات کے تمام گوشوں کو بے نقاب کیا جا سکے یا ان کی توضیح وتشریح میں تمام تفصیلات کا جائزہ لیا جا سکے۔ تجزیہ بڑی حد تک دونوں کے تعلق کو واضح کر سکتا ہے لیکن اگر مطابقت ملے تو اس کے وجوہ اور اگر نہ ملے تو اس کے وجوہ کی جستجو، سائنس، فلسفے اور منطق کا کام ہے۔مقصد یہ ہے کہ جہاں ادب اور زندگی میں مطابقت ملتی ہے وہاں بھی حکیمانہ نگاہ کی ضرورت ہے جو اس تعلق کی نوعیت معلوم کر سکے اور جہاں اختلاف نظر آتا ہے وہاں اختلاف کا سبب معلوم کر سکے۔ ادب میں حقیقت کی جستجو کا یہی مطلب ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ انسان انفرادی یا اجتماعی طور پر طبقوں اور گروہوں میں بٹ کر شعوری یا غیر شعوری طور پر بعض ایسی حرکتیں کرتے ہیں جو کسی دوسرے شخص، طبقے، گروہ یاجماعت کی نظر میں کھٹکتی ہیں اور اختلاف یا تنقید کی صورت پیدا ہوتی ہے اور اسی اختلاف اور تنقید کا ذکر طنز نگار اپنے مخصوص انداز بیان کے ساتھ کرتا ہے۔عام طورپر معتدل اور نارمل زندگی میں چند اخلاقی، ادبی، سیاسی، مذہبی، تہذیبی اور سماجی معیار بن جاتے ہیں۔ ان پر مسلسل عمل پیرا ہونے کی وجہ سے ان میں ایک طرح کی روانی پیدا ہو جاتی ہے۔ ہر شخص یا اکثر اشخاص ان چیزوں کو اسی طرح دیکھنے کے عادی ہوتے ہیں۔ رسم ورواج اور روایات بنا لیتے ہیں اور عادتاً اسے درست تسلیم کرتے ہیں، جب اس مقررہ معیار سے کوئی آگے بڑھ جاتا ہے یا کوئی گروہ اس سے پیچھے چھوٹ جاتا ہے تو نکتہ چینی کے دروازے کھلتے ہیں اور اس تصادم میں طنز کے تیرونشتر کام میں لائے جاتے ہیں۔ دونوں طرف اپنی بات کے صحیح ہونے کا خیال اس درجہ پختہ ہوتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کے نقطۂ نظر کا احترام بھی نہیں کرنا چاہتے۔یہ فلسفہ معاشرت کا ایک اہم مسئلہ ہے کہ انسانی رسم ورواج، روایت اور ادب سے زندگی میں جو تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں، ان کے قبول یا رد کرنے میں عام افراد کو کیا رویہ اختیار کرنا چاہئے۔ جب ایک طریقہ بالکل بدل چکتا ہے اور کوئی شخص اسے اپنے کلیجے سے لگائے رکھتا ہے تو بدل جانے والوں کے یہاں اس قدیم طریقہ کا مذاق اڑانے کا جذبہ ضرور پیدا ہوتا ہے کیونکہ سماجی زندگی میں جو تبدیلی ہوتی ہے، اس کا انکار کرنے والے غلط روی کے مجرم نظر آنے لگتے ہیں۔ یہ بحث الگ ہے کہ کس کا راستہ صحیح ہے اور کس کا غلط ہے۔ کس کا نقطۂ نظر درست ہے اور کس کا نادرست۔ہوتا یہی ہے کہ مقررہ معیار سے ادھر یا ادھر ہونے والے طنز کے تیروں کا نشانہ بنتے ہیں، ہو سکتا ہے کہ طنزنگار کا نقطۂ نظر محض انفرادی ہو یا اس کے مزاج میں کلبیت پائی جاتی ہو اور وہ خود سماج کے عام معیار ارتقاء اور تغیر کو شک کی نگاہ سے دیکھتا ہو لیکن ہمیں طنز نگار کے نقطۂ نظر کا مطالعہ سماجی نقطۂ نظر سے ہی کرنا چاہئے، کیونکہ ایک انفرادیت پرست اور رجعت پسند طنزنگار ہر اس چیز کا مذاق اڑائے گا جو سماج میں تغیر اور ارتقاء کا مطالبہ کرتی ہے اور ترقی پسند طنزنگار رجعت پرستی، قدامت پسندی اور انحطاط دوستی پروار کرےگا، یعنی ادب کے دوسرے شعبوں کی طرح طنزنگاری کو بھی سماجی حقیقت پسندی ہی کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش مفید ہو سکتی ہے۔ طنز نگاری کو محض ایک تفریحی مشغلہ سمجھ کر تنقیدی نقطۂ نظر سے دیکھنا طنز نگاری کے طبقاتی رجحان پر پردہ ڈالنے کے مترادف ہوگا۔فرد، سماج اور فطرت، ادب کے یہی موضوع ہیں۔ طنزنگار بھی مختلف شکلوں میں انھیں کو اپنا موضوع بناتا ہے۔ انفرادی کمزوریوں یا شہزوریوں کی بہت سی شکلیں ہو سکتی ہیں۔ ان کا انوکھا پن قابل تحسین بھی بن سکتا ہے اور قابل ملامت بھی۔ جہاں دوسرے اصناف ادب سے دلچسپی لینے والوں کو فرد کی اور باتیں متوجہ کرتی ہیں۔ طنز نگار اس انوکھے پن، عجب اور عدم اعتدال پر نگاہ رکھتاہے جو اس کے حقیقت کے تصور سے مختلف ہے۔ جسمانی کمزوریوں یا فطرت کے بخشے ہوئے نقائص کا مذاق اڑانا اچھے طنز نگار کو زیب نہیں دیتا، وہ حملہ انھیں نقائص اور زیادیتوں کو پر کرتا ہے، جنھیں دور کرنے پر انسان قادر ہے۔ ایک اندھا اگر کسی چیز کو نہ دیکھے تو یہ طنز کا موضوع نہیں، اگر آنکھوں والا نہ دیکھے تو طنز نگار کا قلم جنبش میں آ سکتا ہے۔بہرحال فرد بھی طنز کا موضوع بن سکتا ہے لیکن اس میں کینہ پروری، طعن وتشنیع، غصہ اور دشنام طراز ی کا رنگ پیدا ہو جائےگا تو طنز نگاری ہجو کی حد میں داخل ہو جائےگی۔ گو یہ ضروری نہیں کہ ہر ہجو میں محض انفرادی غم وغصہ کا اظہار ہوتا ہم ہجو میں بدنیتی اور ذاتی ناپسندیدگی کا جذبہ نمایاں ہوتا ہے۔ اردو میں سوداؔ کے یہاں دونوں طرح کی ہجویں ملتی ہیں۔ کسی سے ان کی ذاتی پرخاش ہے اور کسی سے اصولی، مذہبی، علمی یا معاشرتی۔ دونوں کے خاکے مختلف رنگ رکھتے ہیں اور دونوں کے مقاصد مختلف ہوتے ہیں۔ ذاتی نقص جب سماج کے لئے نقصان رساں بن جاتا ہے، اس وقت فرد پر طنز بھی اہمیت رکھتا ہے، چنانچہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ سماجی یا اخلاقی اصلاح کی پشت پناہی کے بغیر طنز نہیں ہو سکتا ہے۔ جہاں کوئی اعلیٰ اخلاقی یا اصلاحی مقصد مفقود ہوگا، وہاں طنز کا وار نشانہ پر ٹھیک نہیں بیٹھےگا۔فرد کی سماجی حیثیت جب طنز کا موضوع بنتی ہے تو اس کا دائرہ وسیع ہوکر اس شعبہ زندگی کو پوری طرح گھیر لیتا ہے جس کی نمائندگی کوئی شخص فرد کی حیثیت سے کرتاہے۔ یہاں سے سماجی اور سیاسی طنزنگاری شروع ہوتی ہے جس کی اہمیت ایک صنف ادب کی حیثیت سے مسلم نہیں ہے بلکہ احاطۂ اثر اور دائرۂ عمل کے لحاظ سے بھی اس بات پر زور دینے کی ضرورت نہیں کہ ہر دور میں طنزنگاری کے انداز مختلف ہوں گے۔ جاگیردارانہ نظام میں انفرادی ہجو کے علاوہ ان اخلاقی قدروں کا ذکر طنز کے لئے لازمی ہوگا جن کو اس دور میں اہمیت حاصل تھی، چنانچہ فردوسیؔ، انوریؔ، عبید، زاکانی، سوداؔ اور انشا کی ہجویات میں درباری زندگی، جاگیردارانہ نظام کی اخلاقیات اور ذاتی منافرت اور اختلاف کا رنگ اتنا گہرا ہے کہ ان کے سماجی پہلو واضح نہیں ہوتے۔ درباروں میں طعن وتعریض، حاضر جوابی اور بذلہ سنجی سے کام بنتے تھے اور یہ کام اپنی ذات تک محدود ہوتے تھے، اس لئے فارسی اور اردو میں سیاسی اور سماجی طنز جستہ جستہ قدیم شعراء کے یہاں ملتا ہے دورِ جدید میں جو معاشی، معاشرتی اور سیاسی تبدیلیاں ہوئی ہیں، انھوں نے سوداؔ کی ہجووں کی جگہ طنزنگاری پیدا کی جس کی تہہ میں موجودہ معاشی نظام کی کشمکش اور سیاسی تصادم کی کارفرمائی ہے۔ سوئفٹؔ کی بے پناہ طنز نگاری سرمایہ دارانہ سماج کی بدعنوانیوں کے بغیر پیدا ہو ہی نہیں سکتی تھی۔ اکبرالہ آبادی اپنی قدامت پسندی اور مذہبیت کے باوجود موجودہ دور کے سوا اور کہیں کھپ نہیں سکتے تھے۔ آج سرمایہ داری اور سامراج کا بوسیدہ نظام سیاسی طنز کو نئی توانائی بخش رہا ہے۔ اگر نگاہ اردو ادب تک محدود رکھی جائے تو اس کا اظہار کبھی کبھی جوشؔ کی شاعری میں اور اکثر وبیشتر کرشن چندر کے افسانوں میں ہوتا ہے۔ یہ انداز نظر کی تبدیلی بھی اس بات کا ثبوت پیش کرتی ہے کہ اگر طنز کی تہہ میں سماجی حقیقت نہ ہو تو وہ ایک حربے کی حیثیت سے استعمال کیا جا سکتا ہے، حالانکہ طنز میں حقیقت کو اس طرح کام میں لایا جا سکتا ہے، جس طرح کارٹون بنانے والا واقعات اور افراد کو اپنے کام میں لاتاہے۔ کبھی کبھی حقیقت مبالغے میں چھپ جاتی ہے اور حقیقت کے اس پہلو پر زور ہوتا ہے جس کے نقص کو طنز نگار اپنے قلم اور پڑھنے والوں کے ذہن کا مرکز بنانا چاہتا ہے۔طنز میں حقیقت کی جگہ کا سوال پھر آ گیا تو فرائڈکا خیال آیا، جس نے ظرافت اور مزاح کا تجزیہ اپنے جنسی فلسفۂ نفس کی روشنی میں کیا ہے اور مزاح کی تخلیق کو بھی خواب کی تخلیق سے مشابہ ظاہر کیا ہے۔ دونوں میں حقیقتیں بھیس بدل کر ظاہر ہوتی ہیں اور نقاب چہرے پر ڈال لیتی ہیں جس سے پہچانے نہ جا سکیں لیکن یہ صحیح نہیں کیونکہ لاشعوری اندھیرے سے بھیس بدل کر نکلنے والی ظرافت خواب سے بالکل مختلف نظر آتی ہے۔ یہاں فرائڈؔ کے خیال کی تنقید مقصود نہیں۔ کہنا صرف یہ ہے کہ اس نے بھی ایک حیثیت سے حقیقت کی بنیادی جگہ کو تسلیم کیا ہے، حالانکہ اس کے یہاں تقریباً ساری حقیقتیں لاشعور کی دنیا میں بستی ہیں۔ فرائڈ کے اشارات سے یہ بات ضرور واضح ہو جاتی ہے کہ طنز میں حقیقت پیچیدہ ہوکر انداز بیان کے لوازم کے ساتھ رونما ہوتی ہے۔ اس میں تشبیہ اور استعارے کے پیچ ہوتے ہیں۔ تمثیلوں کی طرف اشارے ہوتے ہیں اور علامات اور تلمیحات کے پردہ میں طنز کا وار کبھی سیدھا نہیں ہوتا اور اگر سیدھا ہوا تو ہلکی سی خراش ڈال کرگذر جاتاہے۔ طنز کی پیچیدہ اور چھپی ہوئی حقیقت کچھ تو انداز بیان سے کھلتی ہے اور کچھ پڑھنے والے کے تخلیقی ذہن کی شمولیت سے، کیونکہ طنز نگار کا مقصد اگر محض انفرادی اور ذاتی غم وغصہ کا اظہار نہیں ہے تو اس کا تخاطب عقل اور عمومی تصورات سے ہوتا ہے۔ طنز ان اصناف ادب میں سے ہے جن میں موضوع کے ساتھ انداز بیان کا تعلق بہت گہرا ہوتا ہے۔ بلکہ بعض اوقات تو انداز بیان ہی پر طنز کا انحصار ہوتا ہے۔ ایجاز اور اختصار، ذکاوت اور ذہانت کے میل سے طنز کے تیرونشتر تیار ہوتے ہیں۔ دشمن سے دشمنی کا اظہار اور پڑھنے والوں کی ہمدردی حاصل کرنا، زہر میں بجھے ہوئے جملے لکھنا اور پڑھنے والوں کو اپنے ساتھ رکھنا آسان نہیں، لیکن طنزنگار کے انداز بیان کا یہ جادو ہے کہ پڑھنے والا نہ صرف اس سے متاثر ہوتا ہے بلکہ اپنے گریبان میں منہ ڈال کر خود اپنی شخصیت کا جائزہ لینے لگتا ہے۔جس جگہ یہ احساس ہو جائے کہ طنز کسی ذاتی کینے اور بغض کا نتیجہ ہے، اس جگہ دوسروں کی ہمدردیاں ساتھ نہیں ہو سکتیں لیکن اگر طنز میں فراخ دلی، وسیع القلبی اور انسانی ہمدردی کے عناصر نظر آئیں تو طنزاعلیٰ ادب بنتا ہے۔ حالات کو بہتر بنانے کی خواہش، انسان دوستی کا جذبہ اور ذاتی غصہ کو پی جانے کی طاقت کے بغیر کوئی اچھا طنز نگار نہیں بن سکتا۔ اس نکتہ پر اس قدر زور دینا اس لئے ضروری ہے کہ بعض حضرات سوئفٹؔ اور دوسرے طنز نگاروں کوانسانی بہبودی کے جذبہ سے خالی پاتے ہیں، حالانکہ انھیں یہ نہیں معلوم کہ طنز منفی ہوتے ہوئے بھی مثبت اثر پیدا کرتا ہے۔بہرحال طنز نگاری ہلکی پھلکی مزاح نگاری کی طرح بے مقصد نہیں ہوتی، وہ ہنسی کے سوا کچھ اور ہوتی ہے۔ یہ بات یاد رکھنا چاہئے کہ مزاح کے بغیر طنز گالی بن جاتا ہے۔ اور وہ اثر پیدا نہیں کرتا جس کے لئے طنز کا حربہ استعمال کیا جاتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ طنز میں مبالغے کا عنصر بعض اوقات اسے ایک طرفہ بنا دیتا ہے اور حقیقت کے اچھے پہلوؤں کو نظر انداز کرتا معلوم ہوتا ہے لیکن اپنے مقصد اور اثراندازی کے پیش نظر اپنے اخلاقی اور اصلاحی مقصد کے لئے، صرف انھیں عناصر کو طنز کی روشنی میں لانا مناسب معلوم ہوتا ہے جو اصلاح چاہتے ہیں۔طنزنگار اپنی پوری قوت ایک خاص نکتے پر مرکوز کردیتاہے تاکہ وہ ضروری اثر پیدا کر سکے۔ یہی وجہ ہے کہ جس پر طنز کا وار ہوتا ہے، اگر وہ شگفتہ طبیعت اور وسیع القلب نہ ہو تو برداشت نہیں کر سکتا۔ ایک مغربی شاعر نے طنز کو سائی (سیہہ) سے تشبیہ دی ہے۔ خاص جذبات کے تحت جس کے جسم کے تمام کانٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اس کا یہی مطلب ہے کہ طنزنگار کبھی اپنی مدافعت کے لئے اور کبھی حملہ کرنے کے لئے اپنے زہر آلود تیروں اور نشتروں سے مسلح ہو جاتا ہے۔سماجی اور سیاسی طنز کو ادبیات عالم میں بہت اہم جگہ حاصل ہے کیونکہ اس سے نہ صرف مخالف طاقتوں کو پسپا کرنا مقصود ہوتا ہے بلکہ خود اپنی جماعتی اور قومی زندگی کی اصلاح بھی اسی کے ذریعہ سے ہوتی ہے۔ طنزنگار سے زیادہ اور کسی میں یہ جرأت نہیں ہوتی کہ وہ خود اپنی حکومت اور اپنی قوم کی خامیوں کا مذاق اڑا سکے۔ غالباً چینی مصنف لن یوٹانگؔ نے لکھا ہے کہ اگر جنگ چھڑنے والی ہو تو آمادۂ جنگ ملکوں کے طنز نگاروں اور مزاح نویسوں کو فیصلہ کرنے کے لئے اکٹھا کر دینا چاہئے، اور جنگ کبھی شروع نہ ہو سکے گی۔ اس طرح طنز نگار انسان دوست بن کر ہمارے سامنے آتا ہے۔ وہ معاشرت میں توازن اور انصاف قائم کرنے کی جد وجہد میں زبردست آلے کی حیثیت اختیار کر سکتا ہے۔ طنز کا پودا معاشرتی ہیجان اور سیاسی کشمکش کی ہواؤں میں سے پنپتا ہے کیونکہ جب کچھ نئے خیالات قبول کرنے اور کچھ پرانی روایات کے چھوڑنے کا وقت آتا ہے تو سماج کا وہ روایتی توازن درہم برہم ہوتا ہے جس میں عمومیت اور مانوس انداز پیدا ہو چکا تھا۔ طنز نگار کی ظرافت اور خوش دلی میں درد وغم کی ایک ہلکی سی آمیزش بھی پائی جاتی ہے جو اس کی انسان دوستی اور بہتری کی زبردست خواہش کا نتیجہ ہوتی ہے اور اس کے طنز کی تلخی میں گہرا درد کروٹیں لیتا معلوم ہوتا ہے۔اس وقت اردو طنزنگاری کا تجزیہ یااس پر تبصرہ پیش نظر نہیں ہے، حالانکہ مذکورہ بالا خیالات کے آئینہ میں اردو طنزنگاری کی مختصر تاریخ کا جائزہ لینا کچھ ایسا مشکل نہیں رہ جاتا تاہم یہ کہنا بے محل نہ ہوگا کہ طنز کی سماجی اور سیاسی نوعیت پوری طرح دور جدید میں ہی نمایاں ہوتی ہے، کیونکہ موجودہ معاشرتی اور سیاسی ہل چل میں طنزنگار کے لئے موضوع اور مواد کی کمی نہیں۔ غلامی، مغرب کی نقالی، اقتصادی زبوں حالی، بے روزگاری، جنسی بے راہ روی، غم دوراں اور غم جاناں، فرقہ پرستی، رجعت پسندی، ترقی پسندی، رشوت، چور بازاری، سرمایہ داری، جاگیرداری اور صنعتی دور کی قدروں میں تصادم، فریب ِآزادی، جمہوریت، حقوق نسواں، انجمن سازی، موت کی سوداگری اور کفن فروشی، ان گنت موضوع ہیں جن کی شکل کہیں نہ کہیں ٹیڑھی ہے اور طنزنگار کی حساس، ہمدرد اور دور رس نگاہ اس ٹیڑھے پن کا پتہ چلا لیتی ہے۔ یہ موضوعات اس شکل میں دور جدید سے ے پہلے اگر تھے بھی تو اس طرح بے ہنگم اور ٹیڑھے میڑھے نہ تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اردو کے دور جدید نے ایسے طنز نگار پیدا کئے جو کشمکش، تصادم، اضطراب اور ہیجان کے سماجی اور سیاسی پس منظر میں اس کے نقوش ابھار سکتے ہیں جن سے دور جدید کی سماجی اور سیاسی زندگی کا گھناؤنا پن، اپنی تلخی اور بدعنوانی کے ساتھ نمایاں ہوجائے۔ محفوظ علی، اکبر الہ آبادی، ظفر علی خاں، قاضی عبد الغفار، سند باد جہازی، رشید احمد صدیقی، پطرس، جوشؔ ملیح آبادی، کرشن چندر، کنہیا لال کپور میں ابھی کوئی سروینیٹر، سوئفٹؔ اور ڈکنس تک نہیں پہونچا ہے لیکن اس میں سے کسی کسی کے یہاں کبھی کبھی طنز کا وہ اعلیٰ معیار جھلک اٹھتا ہے جس میں بیک وقت ظرافت، تلخی، انداز بیان کی ندرت، گہری انسانیت اور مقصد کی بلندی کا احساس ہوتا ہے۔ ان کی چڑھی ہوئی کمانوں سے بھی کبھی کبھی ایسے تیر سر ہوتے ہیں جو فضا کے سناٹے کو چیر کر رکھ دیتے ہیں اور نشانے پر ٹھیک بیٹھ جاتے ہیں، گویا ہمارے طنزنگار طنز سے کام لینا سیکھ رہے ہیں۔
حاشیہ
(۱) میں طنزک کو مذکر استعمال کرتا ہوں۔ احتشام۔