ادب میں جدیدیت کا مفہوم

جدیدیت کا ایک تاریخی تصور ہے، ایک فلسفیانہ تصور ہے اور ایک ادبی تصور ہے۔ مگر جدیدیت ایک اضافی چیز ہے، یہ مطلق نہیں ہے۔ ماضی میں ایسے لوگ ہوئے ہیں جو آج بھی جدید معلوم ہوتے ہیں۔ آج بھی ایسے لوگ ہیں جو در اصل ماضی کی قدروں کو سینے سے لگائے ہوئے ہیں اور آج کے زمانے میں رہتے ہوئے پرانے ذہن کے آئینہ دار ہیں۔


ہمارے ملک میں مجموعی طور پر جدیدیت انیسویں صدی سے شروع ہوتی ہے۔ یہ جدیدیت مغرب کے اثر سے آئی ہے۔ یورپ میں نشاۃ الثانیہ نے ازمنہ وسطیٰ کو ختم کر دیا۔ ہمارے یہاں نشاۃ الثانیہ مغرب کے اثر سے انیسویں صدی کے وسط میں رونما ہوا۔ یورپ میں جدیدیت کی تاریخ تین سو سال سے زیادہ کی ہے۔ ہمارے یہاں سو ڈیڑھ سو سال کی۔ اس لئے جدیدیت نے جو رنگ یورپ میں بدلے ہیں ان کے پیچھے کشمکش اور آویزش کی خاصی طویل تاریخ ہے۔ اس کے مقابلے میں ہندوستان میں جدیدیت نو عمر ہے اور ہندوستانی ذہن ابھی تک مجموعی طور پر، اور پورے طور پر جدید نہیں ہوسکا ہے۔ اس پر ازمنہ وسطیٰ کے ذہن کا اب بھی خاصا اثر ہے۔ اگر ذہن جدید بھی ہو گیا ہے تو قومی مزاج جو صدیوں کے اثرات کا نتیجہ ہوتا ہے، اب بھی ازمنہ وسطیٰ کے تصورات سے نکل نہیں سکا ہے مگر چونکہ بیسویں صدی میں صدیوں کی منزلیں دہائیوں میں طے ہوتی ہیں، اس لئے گزشتہ بیس پچیس سال میں جدیدیت کے ہر روپ اور رنگ کے اثرات ہمارے یہاں ملنے لگے ہیں۔


اس صورت حال کی وجہ سے مجموعی طور پر جدیدیت کے ساتھ انصاف نہیں ہو پاتا۔ اس کا معروضی طور پر تصور نہیں ہوتا۔ ایک بڑا گروہ جو ابھی پرانے تصورات میں گرفتار ہے، اس جدیدیت کو مغرب کی نقالی اور اپنی تہذیب سے انحراف کہہ کر اس کی مخالفت کرتا ہے۔ ایک چھوٹا گروہ جو نسبتاً بیدار ذہن رکھتا ہے اور اپنی ناک سے آگے دیکھنے کی کوشش کرتا ہے، جدیدیت کو اپنانا چاہتا ہے۔ مگر اس گروہ میں بھی دو قسم کے لوگ ہیں۔ ایک وہ جو جدیدیت کی روح کو سمجھتا ہے اور اس کے ہر روپ کا تجزیہ کر کے اس سے مناسب توانائی اخذ کرتا ہے مگر دوسرا گروہ موجودہ آزادی خیال اور جدید نسل اور قدیم نسل میں خلیج سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے وجود کی اہمیت کو منوانے کے لئے اور اپنے مختلف ہونے کا جواز پیش کرنے کے لے جدیدیت کے نام پر ہر سماجی، اخلاقی اور تہذیبی ذمہ داری سے آزاد ہونا چاہتا ہے۔


اس لئے اس بات کی ضرورت ہے کہ جدیدیت کی اندھی پرستش یا اس پر سستے اور سطحی تبرے کے بجائے اس کا معروضی مطالعہ کیا جائے، اس کی خصوصیات متعین کی جائیں اور ان خصوصیات کی روشنی میں اس کی قدر و قیمت اور ضرورت کو واضح کیا جائے۔ پھر ادب میں اس کا ارتقا آسانی سے دیکھا جاسکے گا اور ہم طر ف داری یا جانب داری کے بجائے سخن فہمی اور سنجیدہ شعور کا ثبوت دے سکیں گے۔


ادب میں جدیدیت کے واضح تصور کی ایک خاص اہمیت یہ ہے کہ پہلے جو کام مذہب یا فلسفہ بڑی حد تک انجام دیتا تھا، اب یہ دونوں کے بس کا نہیں رہا۔ ہاں ادب اس خلا کو پر کرنے کی کوشش کر رہا ہے جو مذہب یا فلسفیانہ نظاموں کی گرفت کے ڈھیلے ہونے سے پیدا ہوا ہے۔ ادب اس خلا کو پر کر سکتا ہے یا نہیں یہ ایک علیحدہ سوال ہے لیکن اس میں شک نہیں کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی نے عقائد میں بڑے رخنے پیدا کئے ہیں اور جہاں اس نے بے پناہ علم، بے پناہ طاقت، بے پناہ تنظیم، خاصے بڑے پیمانے پر یکسانیت، نئے نئے ادارے، ایک عمومیت اور آفاقیت پیدا کی ہے، وہاں بہت سی نئی مشکلات، نئی الجھنیں، نئے خطرے اور نئے وسوسے بھی دیے ہیں۔


سائنس اور ٹیکنالوجی سے جو کلچر پیدا ہوا ہے، اس نے مشین سے کام لے کر انسان کو بہت طاقت اور بڑی دولت عطا کی لیکن اس نے انسان کے اندر جو جانور موجود ہے اس کو رام کرنے میں کوئی نمایاں کامیابی حاصل نہیں کی۔ یہ تمام تر سائنس اور ٹیکنالوجی کا قصور نہیں ہے کیونکہ سائنس اور ٹیکنالوجی اس معاملے میں غیر جانب دار ہے مگر جب اس نے پرانی بندشوں کو ڈھیلا کیا، پرانے عقائد اور نظریات پر ضرب لگائی تو نئے فتنوں کو بھی جنم دیا۔ پھر اس نے عقل کی پرستش ایک میکانکی انداز سے کی اور اس چیز کو نظر انداز کیا جسے بعض فلسفی حیات بخش عقل اور اقبال عشق کہتے ہیں۔ اس نے باطن اور اس کے اسرار کی اہمیت کو محسوس نہیں کیا۔ اس نے محنت کے ساتھ تفریح کے مواقع بھی پیدا کئے اور تفریح کو سستے ہیجان یا بے معنی مصروفیت کے لئے وقف کردیا۔ جیسے جیسے تفریح کی ضرورت بڑھتی گئی ویسے ویسے تفریح ایک ایسا زہر بنتی گئی جو بالآخر ذہن کی صحت کو مجروح کر دیتا ہے۔


اس نے ہلاکت کے ایسے آلے ایجاد کئے جن کی وجہ سے انسانیت کا مستقبل ہی مشکوک نظر آنے لگا۔ اس نے جنگوں کو اور ہول ناک بنا دیا اور فوجوں کے علاوہ شہری آبادی کو بھی خطرے میں ڈال دیا۔ اس نے انسان سے فطرت کی آغوش چھین لی اور غدار شہروں کی ویرانی میں اسے تنہائی کا احساس دلایا۔ اس نے فرد پر جماعت کی آمریت لادی اور ایک بے رنگ یکسانیت کی خاطر انفرادی صلاحیت اور میلانوں کو مجروح کیا۔ اس نے جبلت کو پست اور عقل کو بلند سمجھا مگر جبلت نے اس سے اپنا انتقام لے لیا۔ چنانچہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے پیدا کردہ مسائل کے حل کے لئے کچھ لوگوں نے ایک فلسفیانہ بشریت کا سہارا لیا، کچھ نے ایک طرح کی وجودیت کا اور کچھ نے ایک نئے ہیومنزم کا۔ مگریہ سب نے محسوس کیا کہ انسانیت کے درد کا درماں صرف سائنس اور ٹیکنالوجی کے پاس نہیں ہے۔


انسان کو ایک عقیدے، ایک لنگر، ایک سمت اور میلان کی ضرورت ہے اور گو ایسا میلان مذہب یا فلسفہ اب بھی دے سکتا ہے مگراس کو دلوں میں جاگزیں کرنے کے لئے، اس کے جذبات کو آسودگی اور روح کو شادابی عطا کرنے کے لئے ادب کے راستے فاقہ زدہ جذبات کو سیرابی کا سامان کر کے، لفظ کے علامتی استعمال سے اس کا جادو جگا کر، دو تہذیبوں کی خلیج کو پر کیا جا سکتا ہے اور انسانیت کے لئے نشہ اور نجات دونوں کا سامان بہم پہنچایا جا سکتا ہے۔


کہنا یہ ہے کہ ادب میں جدیدیت کے واضح تصور پر موجودہ دور میں ادب کے صالح رول کا انحصار ہے کیونکہ اس صالح رول پر انسانیت کی بقا کا دارومدار ہے۔ انسانیت کی بقا صرف ادب میں نہیں سائنس میں بھی ہے مگر صرف سائنس اسے تباہی کی طرف لے جاسکتی ہے اور صرف ادب کے نتائج ہم پچھلے دوروں میں دیکھ چکے ہیں۔ اس لئے جدید ادب کے عرفان پر ادب کا ہی نہیں، انسانیت کا مستقبل بھی بڑی حد تک منحصر ہے۔ سائنس اور ادب دونوں اب حقیقت کی تلاش کے دو راستے مان لئے گئے ہیں اور دونوں کے درمیان بہت سی پگڈنڈیاں بھی ہیں اور پل بھی۔


جدید دور میں ادب کی اہمیت اور ادب کے راستے سے انسانیت کی نجات پر زور دینے کی ایک اور وجہ ہے اور وہ ہے سائنس اور ٹیکنالوجی کے دور میں زبان کے امکانات سے ناواقفیت اور لفظ کے امکانات اور لفظ کے جادو اور لفظ اور ذہن کے تعلق اور لفظ کی وضاحت اور ذہن کی براقی اور ادب میں لفظ کے رمزی اور علامتی اور تخیلی اور تخلیقی استعمال کی وجہ سے اس کی شخصیت پر اثر اور پورے آدمی تک اس کی رسائی کی اہمیت۔ پھر یہ بات بھی فطری ہے کہ انسان جو روزی کی جستجو اور جینے کی مہم کے سر کرنے کی تلاش میں سرگرداں رہتا ہے بعض اوقات ان قدروں کو نظر انداز کر دیتا ہے جو اس کے وجود کو معنویت اور معیار عطا کرتی ہیں، جن سے آدمی انسان بنتا ہے اور جو تہذیب و اخلاق کو ایک قیمتی سرمایہ بناتی ہیں، اس لئے ادب کے ذریعہ سے ان قدروں کو جس طرح جاگزیں کیا جاسکتا ہے اورآئندہ کے لئے بھی نوائے سینہ تاب بنایا جاسکتا ہے، اس کا احساس بھی ضروری ہے۔ ہاں اپنے دور کے فیشن اور فارمولا کی وجہ سے اس کے سارے امکانات، پورے منظر اور پورے وجود کے متعلق غلط فہمی ممکن ہے جسے دور کرنا ہر لحاظ سے ضروری ہے۔


جدیدیت کسے کہتے ہیں؟ وہ کون سی آواز ہے جو اس دور کے ادیبوں اور شاعروں کے یہاں مشترک ہے۔ خواہ یہ شاعر اور ادیب ایک دوسرے سے کتنے ہی مختلف کیوں نہ ہوں۔ وہ کون سی خصوصیت ہے جو ہم کسی نہ کسی طرح پہچان لیتے ہیں اور جب کسی فن پارے میں اسے پاتے ہیں تو بے ساختہ اس سے محبت یا نفرت کرنے لگتے ہیں۔ اس خصوصیت، آواز، مزاج، یا روح کو ہم کیسے واضح کریں۔ کیا یہ الہام ہے۔ کیا یہ علامتی رنگ ہے۔ کیا یہ پرائیویٹ حوالہ (REFRENCE) ہے۔ کیا یہ محتلف اور متضاد آوازوں کے ٹکرانے کا دوسرا نام ہے؟ کیا یہ ابدی قدروں کے بجائے وقتی اور ہنگامی قدروں کی عکاسی ہے؟ کیا یہ تعمیم کے بجائے منفرد یا شخصی انداز کہی جا سکتی ہے؟


کیا اس کی روح طنزیاتی ہے یا کنایاتی اور بہ ظاہر ایک سنجیدگی اور اس سنجیدگی کے پردے میں طنز جسے ہجو ملیح بھی کہہ سکتے ہیں؟ کیا یہ ہیروپرستی کے خلاف اعلان جنگ کا نام ہے اور ہر ہیرو کے مٹی کے پاؤں دکھا کر سب کو ہیرو بنانے کا حیلہ؟ کیا بت شکنی کے پردے میں یہ ایک نئی بت پرستی ہے؟ کیا اس کا مقصد محض کسی شہرت کی سطحیت کو واضح کرنا اور کسی آئیڈیل ادارے یا شخصیت کے ساتھ جو جذباتی غلاف ہے اس کا پردہ چاک کرنا ہے؟ کیا یہ انسان کی بلندی کا رجز ہے، یا اس کی پستی کا المیہ؟ کیا یہ سائنس کا قصیدہ ہے یا اس کا مرثیہ؟ کیا یہ علوم کی روشنی سے ادب کے کاشانے کو منور کرنے کا دوسرا نام ہے یا ایک نوزائیدہ بچے کے حیرت، خوف اور جستجو کے جذبے کی مصوری؟


کیا یہ انسانی شعور کے ارتقا کی تازہ ترین کہانی کا باب ہے یا اس کے لاشعور کے تہہ در تہہ رازوں سے پردہ اٹھانے کی کوشش؟ کیا یہ روایت فن، قدیم سرمائے کی صدیوں کی کمائی سے محرومی اور اس پر ہٹ دھرمی کی آئینہ دار ہے یا یہ بے زاری ناواقفیت کی بنا پر نہیں بلکہ سچی بے اطمینانی اور تجربے کی آخری حدوں کو ضبط تحریر میں لانے کا نام ہے؟ یہ اور ایسے بہت سے سوالات ہیں جو کئے جا سکتے ہیں اور لطف یہ ہے کہ ان میں ہر سوال ایک جواب بھی رکھتا ہے جو اپنی جگہ غلط نہیں، مگر تعبیروں، توجیہوں، تصویروں کے اس جنگل میں ایک واضح اور جامع تصور آسان نہیں۔ پھر بھی یہ کوشش ضروری ہے۔


پہلے اس سلسلے میں کچھ شاعروں کی روح کی پکار سن لینا چاہئے۔ یہ طریقہ گو سائنس اور فلسفے کا نہ ہو لیکن اس سے بہت سے مسائل خود بہ خود حل ہوجائیں گے۔


بودیلیر اپنی ایک نظم میں دو آوازوں کا ذکر کرتا ہے۔ ایک کہتی ہے کہ زمین ایک میٹھا کیک ہے۔ اگر تم اسے کھالو تو بے پناہ مسرت ملے گی اور تمہاری بھوک بھی اسی زمین کے برابر کی ہو جائے گی۔ دوسری کہتی ہے آؤ خوابوں میں سفر کرو، جو معلوم ہے اس کے آگے۔ پھر وہ کہتا ہے کہ اس وقت سے میرے زخم، میرے مقدر کا آغاز ہوتا ہے۔ وجود کی وسعت کے بعد، تاریک غار میں، میں عجیب دنیائیں دیکھتا ہوں اور اپنی غیرمعمولی بصیرت کے جلوے کی سرشاری میں ایسے سانپ اپنے پیچھے گھسیٹتا پھرتا ہوں جو میرے جوتوں کو کاٹتے ہیں۔


ایک دوسری نظم میں وہ سستے اوزان کو ایک ایسے جوتے سے تشبیہ دیتا ہے جو بہت بڑا ہے اور اس قسم کا ہے کہ ہر پاؤں میں آسکتا ہے اور ہر پاؤں سے اتارا جا سکتا ہے۔ ایک اور جگہ کہتا ہے کہ خطابت کی گردن مار دو اور جب یہ کر رہے ہو تو قافیہ کی بھی کچھ اصلاح کرو کیونکہ اگر ہم اس پر کڑی نگاہ نہ رکھیں تو نہ معلوم یہ کیا گل کھلائے۔ ایک اور نظم میں کہتا ہے کہ یہ عجیب بات ہے کہ منزل ہمیشہ بدلتی رہتی ہے اور چونکہ یہ کہیں نہیں ہے اس لئے کسی جگہ بھی ہوسکتی ہے۔ انسان جس کی امیدیں کبھی مضمحل نہیں ہوتیں، ہمیشہ ایک پاگل کی طرح آرام کی تلاش میں دوڑتا رہتا ہے۔ مگرسچا مسافر جو نئے سفر کی خاطر نکلے، جس کے ساتھ سفر میں غبارے کی طرح ہلکا دل ہو، جو اپنی تقدیر سے گریز نہ کرے اور ہمیشہ کہے چلو بغیر جانے کہ کیوں۔


لار کاکی ایک نظم میں خانہ بدوشوں کی شہری محافظوں کے ایک دستہ سے لڑائی دیکھئے۔


جج محافظ دستے کے ساتھ زیتون کے درختو ں سے ہوکر آتا ہے۔ خون جس میں پھسلن ہے، اپنی خاموش ناگ دھنی میں کراہتا ہے۔


والٹ وہٹمن خطاب کر رہا ہے،


ادوار اور گزرے ہوئے واقعات عرصے سے وہ مسالہ جمع کر رہے ہیں جس کو مناسب سانچہ نہیں ملا۔


امریکہ معمار لایا ہے اور اپنے مخصوص اسالیب۔


ایشیا اور یورپ کے غیر فانی شاعر اپنا کام کر چکے اور دوسرے کروں کو رخصت ہوئے ایک کام باقی ہے انہوں نے جو کچھ کیا ہے اس پر بازی لے جانے کا کام ایسٹ کو کر نظم میں ایلیٹ اپنی ابلاغ کی مشکلات اس طرح بیان کرتا ہے،


بس میں یہاں ہوں درمیانی راستے میں، بیس سال مجھے ملے۔
بیس سال جو زیادہ تر ضائع ہوئے
لفظوں کا استعمال سیکھنے کی کوشش کرتے ہوئے، اور ہر کوشش
ایک بالکل نیا آغاز ہے اور ایک مختلف قسم کی ہار
کیوں کہ آدمی صرف یہ سیکھ پایا ہے کہ لفظوں سے کس طرح بازی لے جائے
ان چیزوں کے لئے جواسے اب کہنا نہیں ہیں یا اس طرح جس طرح
اب وہ انہیں کہنے کے لئے راضی نہیں ہے۔ پس ہر کوشش
ایک نیا آغاز ہے، واضح تلفظ پر ایک حملہ
میلے ساز و سامان سے جو برابر ناقص ہوتا جاتا ہے
جذبے کی غیر قطعیت کے عمومی ہجوم میں


ایک اور جگہ کہتا ہے،


مسافر آگے بڑھو، ماضی سے فرار نہ کرتے ہوئے
مختلف زندگیوں میں، یا کسی مستقبل میں
تم وہی نہیں ہو جنہوں نے اسٹیشن چھوڑا تھا
یا جو کسی ٹرئس تک پہنچ گئے


مایا کو وسکی نعرہ لگاتا ہے،


جہاں آدمی سے اس کی نظر کاٹ دی گئی ہے
بھوکوں کے سروں کے قریب جو ابھرتے ہیں
انقلاب کے کانٹوں دارتاج میں
میں انیس سو سولہ کو طلوع ہوتے ہوئے دیکھتا ہوں
اور تمہارے ساتھ میں اس کا پیش گو ہوں


اور،


ہمارا سیارہ محبت کے لئے مناسب و موزوں نہیں ہے
ہمیں اپنی مسرت مستقبل میں سے چیز نکالنا ہے
اس زندگی میں مرنا مشکل نہیں ہے
زندگی کرنا یقینا ًزیادہ مشکل ہے


آڈن ’پہلی ستمبر‘ میں کہتا ہے،


میرے پاس جو کچھ ہے ایک آواز میں ہے
جس سے بار بار لپٹے ہوئے جھوٹ کو کھول دوں
وہ رومانی جھوٹ جو سڑک پر چلنے والے شہوانی آدمی کے دماغ میں ہے
اور اقدار کا جھوٹ جس کی عمارتیں آسمان کو ڈھونڈتی ہیں
ریاست ایسی کوئی چیز نہیں ہے
اور کوئی تنہا وجود نہیں رکھتا
بھوک کوئی چارہ کار نہیں دیتی
نہ شہری کو اور نہ پولیس کو
ہمیں ایک دوسرے محبت کرنا ہے یا مر جانا ہے۔


کنگسلے امس (KINGSLYAMIS’’ POETS OF 1950‘‘) میں کہتا ہے۔ اب کوئی فلسفیوں، مصوروں، ناول نگاروں یا نگارخانوں یا دیومالا یا بیرونی ملکوں کے شہروں کے متعلق اور نظمیں نہیں چاہتا۔ کم سے کم میں توقع کرتا ہوں کہ کوئی نہیں چاہتا۔ اور فلپ لارکن کہتا ہے مجھے روایت پر کوئی اعتقاد نہیں، نہ ایک عام اساطیری زنبیل میں اور نہ نظموں میں۔ کبھی کبھار دوسری نظموں یا شاعروں کی طرف اشارے آڈن نے بہت پہلے اس شاعری کی طرف اشارہ کیا تھا جو ترس میں ہے۔ رابرٹ گریوز کہتا ہے کہ مایوسی سے ایک اسٹائل سیکھو، لارکن کہتا ہے ’’بدی میرے دوست صرف یہی ہے ایک سچ جسے ہم نہیں سمجھتے۔‘‘ ڈگلس کہتا ہے کہ آج جذباتی ہونا اپنے لئے اور دوسروں کے لئے خطرناک ہے۔


رومانی شاعر اپنے آپ کو ایک ہیرو سمجھتا تھا۔ سماج اسے کچھ سمجھے، اسے اپنے پر بھروسہ تھا۔ وہ اپنی مخصوص نظر کی مدد سے سماج کو فائدہ پہنچانا چاہتا تھا اور سیاسی لیڈر اور پیغمبر کا بار اٹھانے کے لئے بھی تیار تھا۔ جدید شاعر کو جو بصیرت ملی ہے وہ اسے اپنے کو سمجھنے کے لئے استعمال کرتا ہے۔ رومانی شاعر کے لئے بچپن روح کی آواز سننے کے لئے ایک کھوئی ہوئی معصوم جنت تھا۔ جدید شاعر کے لئے بچپن میں بلوغ کے قبل از وقت اشارے بھی ہیں۔ اب فنکار جس دنیا کو دیکھتا ہے نہ صرف اس دنیا کے متعلق بلکہ اپنے متعلق بھی، اس کے دل میں شکوک پیدا ہوتے ہیں۔ اس وجہ سے تخلیق کے متعلق اس کا تصور بدل گیا ہے۔


جدید شاعری سے پہلے نظم آئینے کی طرح شفاف ہوتی تھی۔ مواد جتنا پیچیدہ ہے اتنی ہی فن میں مہارت کی ضرورت ہے۔ کہتی ہے مری طبع تو ہوتی ہے رواں اور والی بات۔ جدید شاعر یہ دیکھتا ہے کہ مصرع خیال سے مطابقت رکھتا ہے یا نہیں اور ایک پیچیدہ بحث اتنی ہی الجھی ہوئی اور اکھڑی اکھڑی زبان میں بیان کرتا ہے تاکہ خیال کے موڑ، اس کا ابہام اور اس کا تضاد سب آ جائے۔ گو اس کی وجہ سے جدید شاعری کے پڑھنے والے کم ضرور ہوئے مگر اس کا ابہام اور خطابت کے خلاف اس کا جہاد در اصل ذہن کی اس رو کو پکڑنے کی کوشش ظاہر کرتا ہے، جس کے لئے موجودہ الفاظ یا تو ناموزوں ہیں یا بے جان۔


دلچسپ بات یہ ہے کہ جدید یوروپی شاعر یونان کی دیومالا اور اس کے ادب اور اپنی ساری یونانی اور لاطینی میراث کو نظر انداز نہیں کرتا بلکہ اس سے اپنے حالات کی تعبیر کرنے اور اس کی ترجمانی کرنے کے لئے رمز، علامت اور اشارے لیتا ہے مگر ہمارے یہاں اکثر یہ لاعلمی ملتی ہے۔ پھر جدید شاعر ایک حس کو دوسری حس میں بیان کرتا۔ لارکا کے یہاں خون جو بہہ رہا ہے بولنے لگتا ہے اور زمین پر سرخ تقاطر اپنے رنگ سے نہیں بلکہ اپنی مفروضہ خاموش دھن سے محسوس کیا جاتا ہے۔ جدید شاعر بیان کے بجائے تبصرے پر زور دینے کی وجہ سے حسیات کے بیانوں کو ملا دیتا ہے۔ آواز بھی حسیات اور رشتوں کو ظاہر کرنے کے لئے استعمال کی جاتی ہے۔ غرض شاعر کا بٹا ہوا ذہن، سیاست کے فریب سے اس کا نکل آنا، ایک مخصوص بصیرت پر اصرار، ماضی کے متعلق بدلا ہوا رویہ، فن میں کمال کا مختلف تصور اور خود اس کے ذہن کی الجھنیں یہ سب اس کو پرانے شاعر سے علیحدہ کرتی ہیں۔


کلاسیکل ہیومنزم نے حسن کا جو تصور دیا تھا اس میں چونکہ اکتا دینے والی یکسانیت آگئی تھی اس لئے بدصورتی کے حسن کو دیکھنے کی سعی شروع ہوئی۔ ادب پر مذہب اور اخلاق اور سماج کی گرفت بہت سخت رہی تھی، اس لئے ان تینوں کے بارے میں آہستہ آہستہ آزاد خیالی آئی لیکن جدید شاعر کا زبان اور وقت کے متعلق جو تصور ہے وہ بنیادی تبدیلی ظاہر کرتا ہے۔


انگلستان کے رومانی شعرا نے ایک ایسی ڈکشن کی ضرورت محسوس کی جو عام بول چال کے قریب ہو۔ ورڈس ورتھ نے اس کی وکالت کی مگر اسے نہ پاسکا۔ بائرن اسے پا گیا لیکن اس کی وکالت نہ کرسکا۔ ٹینی سن اور آرنلڈ گرینڈ اسٹائل کو واپس گئے۔ براؤننگ جہاں اپنی ایجاد کا ثبوت دیتا ہے وہاں بھی ادب کے آہنگ کو برتتا ہے نہ کہ بول چال کے۔ روایت کے فارم اس کے آہنگ اور اس کی زبان سے بھرپور بغاوت والٹ وہٹمن کے یہاں ملتی ہے۔ وہٹمن کی وجہ سے آزاد نظم کو مدد ملی جو جدید شاعری کا نمایاں میڈیم ہے۔ مگر وہٹمن کی تقلید وہی شاعر کر سکتا تھا جو اپنے پیام میں اتنا سرشار ہوکہ اس کی خطابت بھی اس پیام کی گرمی کی وجہ سے فطری معلوم ہوتی ہو۔ ہاں مایا کو وسکی اور پابلو نرودا دونوں اس سے خاصے متاثر ہیں کیوں کہ وہ بھی وہٹمن کی طرح اپنے آپ کو آنے والے دور کا نقیب سمجھتے ہیں۔


نئی شعری زبان اور اس کا آہنگ لافورج (LAFORGUE) سے زیادہ متاثر ہیں۔ لافورج کے یہاں سنجیدہ لہجے میں طنز چھپی ہوئی ہے اور اسے شہروں کی مخصو ص بولی، لوک گیت، عام موسیقی کی محفلوں کے ترنم کا خاصا احساس ہے۔ ایلیٹ نے پروفراک کی زبان اس سے سیکھی، لافورج نے وزن یا قافیہ دونوں کو چھوڑا نہیں مگر قافیے کی پابندی ایک مقررہ قاعدے کے مطابق ضروری نہیں سمجھی۔ لافورج کے یہاں وقت یا تصور تکرار کے ایک چکر کے مطابق ہے جس میں وہی واقعات جو ادب کی تاریخ میں ایسے ہی واقعہ کی یاد دلاتے ہیں یا بچپن یا کسی پریوں کی کہانی سے لئے گئے ہیں، بار بار آتے ہیں۔ اس سے مذہب کے متعلق نیا تصور نکلتا ہے۔ یہاں کسی دینیات یا مسلک کے بغیر خدایا مذہبی عقیدے کا تجزیہ ہے، گوایلیٹ جیسے شعرا کے یہاں رومن کیتھولک عقیدے کی طرف واپسی بھی مل جاتی ہے۔


جب شاعر کے پاس کوئی ایسا عقیدہ نہ رہا ہو جو اس کے پورے وجود کو معنی و مقصد دے سکے۔ جب اسے کسی پیام سے دلچسپی نہ رہی، جب وہ فلسفے، سیاست، مذہب اور اخلاق کی گرفت سے آزاد ہونے کی کوشش کرنے لگا اور جب اس نے کائنات کو سمجھنے یا سمجھانے کی کوشش چھوڑ کر اپنی ذات کے عرفان کی کوشش کی اور اپنے تجربے کا تجزیہ بھی اسے عزیز ٹھیرا تو اسے ایسی زبان کی ضرورت نہ رہی جو اپنی ذات سے باہر دیکھنے والے شعرا کے واضح اظہار کے لئے کافی تھی مگر اس کے محشر جذبات کی ترجمانی سے قاصر تھی۔ اس کے لئے کبھی سر ریلزم کے ذریعہ وجدان کے سرچشموں تک پہنچنے کی کوشش ہوئی، کبھی علامتی اظہار کی۔ یہاں پرانے قصوں، روایتوں، دیومالا سے بڑی مدد ملی جن کے پیرائے میں ان کیفیتوں کا اظہار ممکن کوسکا جو صاف اور واضح اور براہ راست اظہار میں ممکن نہ تھا۔


علامتی اظہار بالواسطہ اظہار کا وہ طریقہ ہے جو اس دور میں اس لئے مقبول ہوا کہ یہ دور کوئی سبق دینے یا کسی قصے کی زیبائش کرنے کا قائل نہیں بلکہ ان ننگے لمحوں کی مصوری کا قائل ہے جو کبھی کبھار اور بڑی کاوش کے بعد یا بڑے ریاض کے بعد ہاتھ آتے ہیں۔ اس علامتی اظہار میں نہ صرف اساطیری سرمائے سے کام لیا گیا بلکہ نئے (MYTH) بھی ایجاد کئے گئے۔ یہی وجہ ہے کہ عام پڑھنے والوں میں یہ طرز مقبول نہ ہوسکا مگر جدید شاعری کا یہ نمایاں میلان اس لئے بن گیا کہ اس میں شاعر کی روح کے ریگستان میں سفر کی ہر منزل اور ہر موڑ کا اس طرح گہرا احساس دلانا ممکن ہو گیا اور پھر زبان کو بھی اس اظہار کے ذریعہ سے نئی وسعتیں، گہرائیاں اور امکانات ملے۔


غرض آزاد نظم کے فروغ اور اس میں علامتی اظہار کو ہم جدیدیت کا خاصا اظہار کہہ سکتے ہیں۔ ایلیٹ نے کسی جگہ کہا ہے کہ کسی قوم کی واردات میں کم چیزیں اتنی اہم ہیں جتنی شاعری کے ایک نئے فارم کی ایجاد۔ یہ نیا فارم نہ صرف بدلے ہوئے حالات سے وجود میں آتا ہے اور تجربے اوراس کی تعبیر وتشریح کے لئے نئے امکانات دیتا ہے بلکہ ایک نئی ذہنی رو کو عام کرتا ہے جو بالآخر کسی نہ کسی طرح اس کے پورے حلقے کو متاثر کرتی ہے۔


شاعر اب اپنے سے باتیں کرتا ہے اور اس لئے اس کا لہجہ شخصی، دھیما اور کہیں کہیں بول چال کی زبان کی طرح اکھڑا اکھڑا ہے۔ اس لئے اب اسے مجمع کی ضرورت نہیں بلکہ ایسے پڑھنے والے کی ضرورت ہے جو اس شخصی لہجے پر کان دھرے اور اسے سمجھ سکے۔ یعنی شاعر سے یہ مطالبہ اب ضروری ہو گیا ہے کہ وہ اس ذہنی سفر میں شاعر کا ساتھ دے سکے، اس کے اشارے کنائے سمجھ سکے۔ آج کا شاعر ایسی زبان استعمال کرتا ہے جو بیسویں صدی کے ذہن، بول چال کے طریقے، آہنگ اور نمائندہ میلانات کا ساتھ دے سکے۔ بہت سے پڑھنے والے یہاں ابھی اٹھارہویں اور انیسویں صدی کی فضا یا مشہور اساتذہ کے اسلوب سے مناسبت ڈھونڈتے ہیں اورجب نہیں پاتے تو اس جدیدیت کو ہی کوئی مرض سمجھنے لگتے ہیں۔


ایزرا پاؤنڈ کے اس مشورے کو نئے شاعروں نے قبول کر لیا ہے کہ اپنی شاعری کو نیا بناؤ۔ آج شاعری ان مقاصد کے لئے استعمال نہیں ہوتی جو نثر میں زیادہ کامیابی سے یا بہتر طور پر پورے کئے جا سکتے ہیں۔ اگر شاعر کے پاس صرف خیالات ہیں جن کا وہ پرچار کرنا چاہتا ہے یا کسی ذاتی ضرورت کی وجہ سے جن کا تجزیہ کرنا چاہتا ہے توہ وہ بھی وہ نثر میں کرتا ہے۔ شاعری میں خیالات صرف مجرد خیالات کی شکل میں نہیں آتے بلکہ شاعرانہ تجربے کی صورت میں آتے ہیں۔ یہ خیالات کی ایک دنیا کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ یہ ایک علامت ہیں جو دوسری علامتوں سے جڑی ہوئی ہیں اور ایک ایسی وحدت کا کام دیتے ہیں جس کی جڑیں شاعر کی زندگی اور اس کے قومی شعور میں دور تک پھیلی ہوئی ہیں۔


بہترین جدید شاعری میں جہاں خیالات ہیں، خواہ وہ سیاسی ہوں یا سماجی یا فلسفیانہ تو وہ بہ قول ایلیٹ کے صرف یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ان خیالات کے ہجوم میں گھرا ہوا شاعر کیا محسوس کرتا ہے۔ جدیدیت خیالات کی آقائی میں ہے نہ کہ غلامی میں۔ جدید شاعر کوچونکہ موجودہ زندگی کے مختلف اور متضاد عناصر میں ایک ذہنی تنظیم پیدا کرنی ہوتی ہے، اس لئے اس تنظیم کے لئے اسے مجرد خیال سے مخصوص اور ٹھوس تجربے تک اور پھر مجرد خیال تک جست لگانی ہوتی ہے، اسے ذہن اور جذبے دونوں میں ایک نئی وحدت قائم کرنی ہوتی ہے اور ذہن کو اس صحت اور سادگی تک لانا پڑتا ہے جس میں مانگے کے یا دوسروں کے لادے ہوئے خیالات نہیں بلکہ فرد کے تجربے کی صداقت ہو۔ یہ صداقت سائنس کے نئے نئے انکشافات سے کم اہم نہیں ہے۔


ہماری زندگی بڑی پستی میں بسر ہو رہی ہے مگر ہماری دسترس خیالات تک ہے۔ آج فرد میں خلوص کی اور دیانت کی جو کمی ہے، جدید شاعری اس کی کمی کو پورا کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ جدید شاعری کچھ کہتی نہیں، کچھ کرتی ہے۔ اس کے نزدیک شاعری نثر سے زیادہ خوبصورت یا زیادہ زوردار پیرایہ اظہار نہیں ہے۔ جو لوگ روایتی شاعری کے عادی ہیں وہ اس بات پر خفا ہوتے ہیں کہ جدید شاعری سے ایک مرتب سلسلہ خیالات اور ایک مرکزی تصور انہیں نہیں ملتا۔ جدید شاعری ایک شخصی اور نجی اسرار بن گئی ہے۔ یہ فرد کی تنہائی کا عکس ہے۔ آج انسان اپنی کائنات میں کوئی اطمینان کا گوشہ نہیں بنا سکتا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس نظام سے الگ ہے۔ وہ جب دیکھتا ہے کہ اس کے حلقے میں وہ پورا خیال نہیں ہے جو پہلے اس کے پاس تھا اور اس کے اپنے باطن میں ایسی پیچیدگیاں ہیں جن سے وہ بے خبر تھا تو وہ پریشان ہو جاتا ہے۔


سماج میں گروہ بندی، مذہب کی بندشوں اور روایت کے رشتہ کا ڈھیلا ہونا، تبدیلیوں کی تیز رفتاری، یہ سب باتیں شاعر کو اپنی دنیا اور گرد و پیش کی دنیا میں تعلق پیدا کرنے سے روکتی ہیں۔ وہ اپنے آپ سے اپنا رشتہ قائم نہیں کر پاتا۔ تنہائی سے گھبراکر وہ اور زیادہ تنہائی کی منزلیں طے کرتا ہے۔ وہ تعلیم سے گھبراتا ہے، نظریات اسے خوف زدہ کرتے ہیں۔ افادی، اخلاقی، سیاسی شاعری اسے زہر لگتی ہے۔ یہ خیالات سے بغاوت نہیں، دوسروں کے خیالات کا غلام ہونے سے بے زاری ہے۔ لیکن ان سب باتوں کے پیچھے ایک نئے عقیدے کی جستجو بھی ہے۔ یہ ہے ایک شخصی عقیدہ۔ اب نظم پر کوئی ڈیزائن لادا نہیں جاتا۔ یہ خیال کی رو ہے۔ زندہ، مانوس، محسوس کیا ہوا خیال جس نے نظم کو ایک تنظیم عطا کی ہے۔ بڑی شاعری بڑے خیالات سے وجود میں نہیں آتی۔ شاعری ترس میں بھی ہے، غصے میں بھی، فریب سے نکلنے میں بھی۔ یعنی شاعری اس ہیجان اس تخمیر میں ہے جو غم، غصہ، طنز، کوئی بھی کیفیت پیدا کر سکتا ہے۔ نثر میں آپ اپنی بات دوسروں تک پہنچاتے ہیں۔ نظم میں اپنے تک۔


ادب جس طرح فلسفے، سیاست، مذہب، اخلاق کی بندشوں سے شاعری میں آزاد ہو کر جدید ہوا ہے، اسی طرح ناول میں بھی اس نے اپنی آزادی کی کوشش کی ہے گو ناول کے ارتقا کو دیکھتے ہوئے یہاں چست قصے سے کردار نگاری تک اورکسی عہد کی تہذیب سے خاندانوں کے عروج و زوال کی داستان تک حقیقت نگاروی کے کئی رنگ ملتے ہیں۔ مگر لارنس، جوائس، ٹامس مان، کافکا، کامیو، گراہم گرین، ہیمنگ وے، سال بیلوتک یہ بات واضح ہوگئی کہ اب ناول ماضی کی تہذیب کی رد کرتا ہے اور اس لئے اس پر طنز کرنے پر مجبور ہے اور اس کا کھوکھلاپن دکھائے بغیر اسے چارہ نہیں۔


ناول اب فرد کی تنہائی، اس کی قنوطیت، اس کے احساس شکست کا آئینہ دار ہے۔ اس لئے اس کے گرد کوئی منظم اور مربوط قصہ نہیں بن سکتا۔


سرل کانولی نے غلط نہیں کہا تھا، ’’مغرب کے عام باغوں کے اب بند ہونے کا وقت ہے اور آج سے ایک فن کار صرف اپنی تنہائی کی گونج اور اپنی مایوسی کی گہرائی سے پہچانا جائے گا۔‘‘ اس گہرائی کی وجہ سے جوائس کے تجربات جدیدیت رکھتے ہوئے زیادہ معنی خیز نہیں معلوم ہوتے۔ لارنس کی خون کی پکار سائنسی میکانیت کے خلاف رد عمل کی وجہ سے اہمیت رکھتے ہوئے اپنے فلسفے کی وجہ سے نہیں بلکہ انسانی جذبات کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کی وجہ سے قابل قدر رہے گی۔ مگر ابھی ایک عرصے تک کافکا کی معنویت پر غور کیا جائے گا جو کہتا ہے کہ ’’ہمارا فن صداقت کے سامنے خیرگی ہے۔ وہ روشنی جو چہرے کو مسخ کر رہی ہے سچ ہے، مگر اور کچھ سچ نہیں۔‘‘


کافکا سے پہلے کسی نے اندھیرے کو اس قدر صفائی سے پیش نہیں کیا۔ نہ مایوسی کی دیوانگی کواس قدر سنجیدگی اور ہوش سے۔ اس کی شکست وریخت میں ایک دیانت ہے۔ وہ ایک دھوکے باز دنیا کے نظام اخلاق کا ناپنے والا ہے۔ اسی طرح کامیو جو نراج کو تنظیم نہیں بلکہ نراج ہی کہتا ہے، وہ اس نسل کا ترجمان ہے جو دہشت کے اس عہد میں بھی جسے عام کساد بازاری، عالم گیر جنگ، آمریت سے سابقہ رہا اور جسے دوسری جنگ عظیم کے بعد حقیقی امن کے بجائے سرد جنگ کی اعصابی کیفیت ملی۔ کامیو نے یہ دیکھ لیا تھا کہ ہمارے دور کی دہشت اور بے چینی کی ذہنی بنیاد اٹھارہویں اور انیسویں صدی کے آئیڈیالوجیوں کی عطا کی ہوئی ہے۔ مغرب ذہن کے پیچھے بے تحاشا دوڑ رہا تھا۔ اس نے عقل کی فرعونیت کو جنم دیا جو بہت دن بعد ترقی کرتے کرتے جنگوں، جیل خانوں اور جلادوں کے تشدد میں ظاہر ہوئی۔


آئیڈیالوجی جس طرح انسان سے اس کی انسانیت چھین لیتی ہے اس پر کامیو نے بہت زور دیا۔ اس لئے اس کے نزدیک انسانیت کے ایک نئے احساس کی ضرورت ہے جس کے لئے کلاسیکی اعتدال خصوصاً یونانی شاعری کے ہیرو لولیز کی مثال دی جا سکتی ہے جو ٹرائے کے مہم بازوں میں سب سے زیادہ انسانیت رکھتا ہے۔ اس کے STATE OF SIEGE میں وہ ایکٹر جو پلیگ کی نمائندگی کرتا ہے جس سے مراد جدید دنیا ہے اور جو آمریت کی زندگی کی تنظیم کی طرف اشارہ کرتا ہے، ان لوگوں سے جنہیں اس نے ابھی زیر کیا ہے، کہتا ہے کہ ان کی موت بھی منطق اور STATISTICS کے مطابق ہوگی۔ مگر اس کے REBEL کی فریاد میں امید کی کرن ہے۔ کامیو کی یہ بات دلچسپ ہے کہ آج ہمیں خیر کے لئے صفائی پیش کرنی پڑتی ہے۔


یہ ایک معنی خیز بات ہے کہ آئیڈیلزم کے فلسفے نے جو جدیدیت نے قریب قریب ترک کر دیا ہے ماضی میں بہت بڑا ادب پیدا کیا۔ مارکسزم نے ہمیں اتنی بڑا ادب نہیں دیا۔ ہاں وجودیت EXISTENTIALISM کے علم برداروں میں سارتر، اور کامیو کی عظمت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ یہ بھی قابل توجہ بات ہے کہ مجموعی طورپر جدید فکر مارکسزم سے اس طرح متاثر نہیں ہے جس طرح آج سے تیس سال پہلے تھی۔ آج اس پر وجودیت کا اثر زیادہ گہرا ہے۔ مارکسزم کی سرد عقلیت کے مقابلے میں وجودیت کا محسوس کیا ہوا خیال (FELT TOUCH) ادیبوں کو زیادہ متاثر کرتا ہے۔ گویہ بات واضح ہے کہ نظریہ شاعر یا ادیب پیدا نہیں کرتا بلکہ شاعر، ادیب اپنے مخصوص حالات اور مزاج کی افتاد کی بنا پر کسی نظریے سے متاثر ہوتے ہیں۔ جدیدیت نے اس لحاظ سے ایک اور بات واضح کی ہے وہ مجموعی طور پر آئیڈیالوجی کے خلاف ہے، فلسفے کے نہیں۔ آئیڈیالوجی کو وہ ایک پرچم سمجھتی ہے جو فرد اور جماعت کو عمل پر آمادہ کرے۔ فلسفہ بہرحال حریت فکر کو ظاہر کرتا ہے۔ ادیب اور فنکار اس کا پابند نہیں۔ ہاں اس سے اپنے طور پر کام لیتا ہے۔


اس دور کو ژید اخلاق اور خلوص کا مقابلہ کہتا ہے۔ موجودہ صنعتی ترقی نہ اخلاقی برتری کا نہ بہتر ذہنیت کا دعویٰ کرسکتی ہے۔ کامیو کہتا ہے کہ ’’ذہن اس لیے پراگندہ نہیں ہے کہ ہمارے علم نے دنیا کو اتھل پتھل کر دیا ہے بلکہ اس لئے کہ ذہن ابھی اس حشر کو ہضم نہیں کر سکا ہے۔‘‘


پھر بھی جدیدیت صرف انسان کی تنہائی، مایوسی، اس کی اعصاب زدگی کی داستان نہیں ہے۔ اس میں انسانیت کی عظمت کے ترانے بھی ہیں۔ اس میں فرد اور سماج کے رشتے کو بھی خوبی سے بیان کیا گیا ہے، اس میں انسان دوستی کا جذبہ بھی ہے مگر جدیدیت کا نمایاں روپ آج آئیڈیالوجی سے بے زاری، فرد پر توجہ، اس کی نفسیات کی تحقیق، ذات کے عرفان، اس کی تنہائی اور اس کی موت کے تصور سے خاص دلچسپی ہے۔ اس کے لئے اسے شعر و ادب کی پرانی روایت کو بدلنا پڑا ہے۔ زبان کے رائج تصور سے نپٹنا پڑا ہے، اسے نیا رنگ و آہنگ دینا پڑا ہے، اس کے اظہار کے لئے اسے علامتوں کا زیادہ سہارا لینا پڑا ہے۔


سوسن لینگرنے غلط نہیں کہا ہے، آرٹ ایسے فارم کی تخلیق ہے جو انسانی جذبات کی نقالی نہیں کرتے ان کی علامت ہوتے ہیں۔ اردوادب کے طالب علموں کو جدیدیت کے ہر روپ کا معروضی طور پر مطالعہ کرنا چاہئے اور فیشن یا فارمولا کے چکر سے نکل کر اپنے ذہن کو جدیدیت کی روح سے آشنا کرنا چاہئے۔ وہ ازمنہ وسطی کے ذہن کو لے کر جدید دور کی بھول بھلیاں میں اپنا راستہ تلاش نہیں کر سکتے۔ جدیدیت غالب کے الفاظ میں یہ دعویٰ کر سکتی ہے۔


بہ دادی کہ در آں خضر راعصا خفت است
بہ سینہ می سپرم راہ گرچہ پاخفت است