ادب میں اظہار و ابلاغ کا مسئلہ
ادب بنیادی طور پر انسانی جذبات و احساسات کے اظہار سے عبارت ہے۔ یہ اظہار تخلیقی تحریک اور میلان کا نتیجہ ہے جس سے عام لوگ کم ہی بہرہ ور ہوتے ہیں۔ عام لوگ احساس رکھتے ہیں مگر اس کا اظہار نہیں کر سکتے۔ انھیں زبان وبیان پر وہ قدرت حاصل نہیں ہوتی جو اپنے احساس کو فنی اظہار کا جامہ عطا کرنے کے لیے ضروری ہے۔ ادیب کو اس کے برخلاف اپنے احساسات کے اظہار پر پوری قدرت ہوتی ہے اور اس کے اندر یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ اپنے خیالات کو قابل فہم بناسکے۔ ادیب اپنے تجربات کے اظہار کے دوران اس پہلو کو خاص اہمیت دیتا ہے اور اس طرح سے گویا اس کے فن کارانہ عمل کی تکمیل ہوتی ہے۔ یہ صحیح ہے کہ بعض فن کار تخلیقی ادب کے اس پہلو کو مناسب اہمیت نہیں دیتے اور اپنی محدود حسیاتی تسکین اور آسودگی ہی کو اپنی تخلیقی کاوشوں کا مقصود اور مدعا سمجھتے ہیں جیساکہ ایک رومانی شاعر نے ایک موقع پر کہاتھا،
“There is Joy in singing when none hear besides the singer”
ہمارا آئے دن کا مشاہدہ ہےکہ بعض لوگ غسل خانے میں نہاتے وقت آپ سے آپ گنگنانے لگتےہیں لیکن ظاہر ہے کہ یہ ایک وقتی مسرت کے اظہار کی کیفیت ہے جس کا تخلیقی فن کے شعوری عمل سے کوئی تعلق نہیں۔ ادیب جو کچھ لکھتاہے وہ محض اس کی ذاتی اور بے معنی لذت اندوزی کے لیے نہیں ہوتا، بلکہ اس کا مقصد واضح طورپر اپنے جذبات واحساسات کو دوسروں تک منتقل کرنا ہے، اس لیے ہر اظہار ایک معنی میں ابلاغ ضرور ہوتا ہے لیکن کسی اظہار کا مکمل ابلاغ بننا اسی وقت ممکن ہے جب فن کار اور قاری کے درمیان ذہنی ہم آہنگی موجود ہو۔ ادب میں اظہار وابلاغ کے اس عمل کو سمجھنے کے لیے ہمیں ریڈیو کی مثال کو سامنےرکھنا چاہیے جس میں تین چیزیں ہوتی ہیں۔ ٹرانسمیٹر، میڈیم اور ریسیور اور یہ تینوں چیزیں مل کر ہم تک آواز پہنچانے کا سبب بنتی ہیں۔ اگر ان میں سے کوئی چیز بھی ناقص ہو اور اپنا فرض ادا کرناچھوڑدے تو ظاہر ہے آواز کا کامیابی سے منتقل ہونامحال ہوگا۔
یہاں اظہار وابلاغ کا مسئلہ دوہرا یعنی فن کار اور قاری دونوں کا مسئلہ بن کر ہمارے سامنے آتاہے۔ ادب میں ابلاغ کی دشواری محض فن کار کے انداز فکر یا طریق اظہار کے ہی نقص کی وجہ سے پیدا نہیں ہوتی بلکہ اکثر یہ دشواری اس لیے بھی پیدا ہوتی ہےکہ خود قاری کا ذہن فن کار کے ذہن کا ساتھ نہیں دےپاتا، خصوصاً وہ فن کار جو انفرادی ذہن اور انوکھے طرز کے حامل ہوتے ہیں، ان کی باتیں مشکل سے سمجھی جاتی ہیں۔ ہر دور میں ایسے شعراء اور ادباء موجود رہے ہیں جو عصری تقاضوں کے تحت نئے افکار، نئے میلانات اور نئے معیاروں کو روشناس کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ وہ لوگ جو دیکھے بھالے حسن کے خوگر اور مانوس سانچوں کے عادی ہوتے ہیں وہ آسانی سے ان سے ذہنی ہم آہنگی پیدا نہیں کرپاتے اور اسی لیے ان کی باتوں کو مہمل اور بے معنی بھی قرار دیتے ہیں۔ غالب کے ساتھ بھی یہ معاملہ پیش آیا تھا، ان کے عہد میں بھی ان کی زبان اور اندازِ بیان پر اعتراض کیے گئے۔ غالبؔ نے خود بھی محسوس کیا تھاکہ لوگ ان کی بات کو سمجھتے نہیں تھے، اسی لیے انہیں کہنا پڑا،
نہ ستایش کی تمنا نہ صلے کی پروا
گر نہیں ہیں مرے اشعار میں معنی نہ سہی
لیکن اس معاملے میں بجائے کسی اعتذار کا رویہ اختیار کرنے کے انھوں نے اپنے انداز بیان کی اس طرح داد بھی چاہی،
آگہی دامِ شنیدن جس قدر چاہے بچھائے
مدعا عنقا ہے اپنے عالم تقریر کا
گر خامشی سےفائدہ اخفائے حال ہے
خوش ہوں کہ میری بات سمجھنا محال ہے
غالبؔ نے اس سلسلے میں ایک جگہ ایک بہت ہی معنی خیز اشارہ کیا ہے جس سے نہ صرف ان اعتراضات کی حقیقت سمجھ میں آتی ہے بلکہ خود زیر بحث مسئلے کے کچھ اہم گوشے بھی سامنے آتے ہیں۔ یہ شعر غور،
ہوں گرمیٔ نشاط تصور سے نغمہ سنج
میں عندلیبِ گلشنِ ناآفریدہ ہوں
غالبؔ ان شعرا میں تھے جو رسم ورہِ عام کے پابند نہیں ہوتے بلکہ ایک جداگانہ اندازِ نظر کےحامل اور ایک خاص طرز کے علمبردار ہوتے ہیں۔ وہ اپنی شاعری کے ذریعے فکر وفن کی کچھ نئی جہتوں اور نئی سمتوں سے آشنا کرانا چاہتے تھے۔ انھوں نے محسوس کیا کہ ان کے دور میں جو شعری اسالیب مروج تھے، وہ ان کے ممکنات فن کو پوری طرح بروئے کار لانے میں معاون نہیں ہوسکتے تھے۔ ان کے عہد تک جو زبان رائج تھی، وہ کثرتِ استعمال کی وجہ سے اپنا رس کھوچکی تھی۔ اس پر اتنا رندا چلایاگیا تھا اور پالش چڑھائی گئی تھی کہ اس کی فطری سادگی، حقیقی رعنائی اور واقعی رنگ روپ پر بہت کچھ پردا پڑچکا تھا، اس لیے مجبوراً انھیں بیدلؔ اور دوسرے فارسی شعراء سے استفادہ کرکے اپنی ایک نئی زبان بنالینی پڑی۔
ظاہر ہےکہ اس وقت لوگو ں نے اس کی افادیت اور امکانات کو نہ سمجھا اور ان کے طرز کو مہمل اور بے معنی قرار دے دیا لیکن بعد میں اس کے واضح اثرات مرتب ہوئے۔ لوگوں نے غالبؔ کے چراغ سے چراغ جلائے اور آج اردو کے بہت سے نمایندہ شعرا پر ان کے اثرات دیکھے جاسکتے ہیں۔ غالبؔ کے کلام پر ان کے دور میں جو اعتراضات کیے گئے وہ حقیقت میں صحیح نہیں تھے، بلکہ کچھ معترضین کی کوتاہ فہمی اور سخن ناشناسی کا نتیجہ تھے۔ اس قسم کےاعتراضات ہر اس شاعر پر کیے جاتے ہیں جواپنے زمانے سے آگے دیکھتاہے اور عندلیبِ گلشنِ ناآفریدہ ہوتاہے۔ غالبؔ کی مثال سے یہ حقیقت واضح ہوجائے گی کہ جب شاعر کی آنکھیں کھلی ہوتی ہیں تو زمانے کی آنکھیں عام طور پر بند ہوتی ہیں اور جب زمانے کی آنکھیں کھلتی ہیں تو شاعر کی آنکھیں بند ہوچکی ہوتی ہیں۔
بات یہ ہے کہ شاعر یا ادیب عام لوگوں سے زیادہ مرتب ذہن رکھتا ہے۔ اس کے احساسات محدود نہیں ہوتے۔ نہ وہ رسمی رد عمل رکھتاہے بلکہ وہ زندگی کے حقایق اور اسرار ورموز سے جس طرح آگاہ ہوتا ہے اس طرح ایک عام آدمی نہیں ہوتا۔ اس کی نظر زیادہ گہری، زیادہ محیط، زیادہ جامع، زیادہ وسیع اور زیادہ حقیقت بیں ہوتی ہے۔ وہ اپنےاعلیٰ افکار، گہرے جذبوں اور قیمتی اور معنی خیز تجربوں کے ذریعے ہمیں زندگی کی صداقتوں کا بھرپور شعور عطا کرتا ہے اور اس طرح ہماری فکر کو کچھ روشن اور ذہن کو مرتب بناتا ہے۔ ادب سے ہم کو جو مسرت حاصل ہوتی ہے وہ ہمیں ایک بصیرت تک پہنچانے کا سبب بنتی ہے۔ رابرٹ فراسٹ کہتاہے،
“Poetry begins in delight and ends in wisdom”
یہ بات مسرت کا وہ سطحی اور محدود مفہوم نہیں جس کا رشتہ ذاتی پسند وناپسند سے جوڑ دیا جاتا ہے۔ ادب میں معیار خالصۃً سخن فہمی ہے اور اسی کے تحت چیزوں کے حسن وقبح کی پرکھ ہوتی ہے اور پسندیدگی وناپسندیدگی کااظہار کیا جاتا ہے، جو لوگ ادب کے مطالعے میں ادب کے اس تصور اور معیار کو سامنے نہیں رکھتے اور اس میں سستا نشہ یا چٹخارا ڈھونڈھتے ہیں وہ ادبی تصورات کی صحیح لذت سے آشنا نہیں ہوسکتے اور نہ ادیب کے ذہن وفکر کی رسائی اور اس کے تجربات کی معنی آفرینی کی واقعتاًداد دے سکتے ہیں۔
ادب میں جو بعض اوقات ابلاغ کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے اس کا سبب یہی ہے کہ ادب کے مطالعے میں صحیح معیار کو ملحوظ نہیں رکھا جاتا اور اس سے بالکل غلط مطالبے کیے جاتے ہیں، ایسےمطالبے جو ادب کے مزاج، اس کے منصب ومقصد اور اس کی کارفرمائیوں سے بے خبری کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ کچھ لوگ ادب کو محض نشۂ نجات یا چٹخارا سمجھتے ہیں، کچھ اس میں سیاسی مسائل کا حل تلاش کرتے ہیں اور کچھ اسےمحض فارمولا تصور کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ادب میں اخلاقی، سماجی اور سیاسی سبھی طرح کے پہلو ہوسکتے ہیں لیکن اس کا جمالیاتی پہلو ان تمام پہلوؤں پر مقدم ہوتا ہے۔ ٹی ایس ایلیٹ ادب کے اس جمالیاتی پہلو کو بڑی اہمیت دیتا ہے اور یہ تسلیم کرتا ہے کہ ادب کی عظمت کو اگرچہ صرف ادبی معیاروں سے نہیں جانچا جاسکتا لیکن ادب کے عدم اور وجود کو صرف ادبی معیاروں ہی سے پرکھا جاسکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ ادب کے جمالیاتی مزاج اور تقاضوں کو نظرانداز کرکے اس میں ایک خاص قسم کا نظریہ یا نشہ ڈھونڈتے اور اس سے حربے کا کام لینا چاہتے ہیں وہ ادب کے ساتھ انصاف نہیں کرتے۔
ادب انقلاب نہیں لاتا بلکہ انقلاب کے لیے ذہن کو صرف بیدار کرتاہے۔ ادب تلوار، بندوق یا گولی نہیں ہے، ہاں وہ ان چیزوں کا اثر ضرور رکھتاہے۔ ادب سے صحیح طورپر لطف اندوز ہونے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے ذاتی تعصبات کو خیرباد کہہ کے ادب کے اپنے مفہوم ومعنی کو سمجھنے کی کوشش کریں، ادب جس طرح ویرانے کو گلزار اور گلزار کو ویرانہ بناتا ہے، اس سے آگاہ ہوں اور ادب سے اتنا ہی مطالبہ کریں جتنا یہ دے سکتا ہے۔ جب تک ادب کے مطالعے میں اس اندازِ نظر کو نہیں اپنایا جاتا اور ادبی معیار کا احترام اور پابندی نہیں کی جاتی، ادب سے ہمیں سچا شعور اور بصیرت حاصل نہیں ہوسکتی اور نہ ادبی اظہار کے ابلاغ بننے کے امکانات روشن ہوسکتے ہیں۔
ادب میں بعض اوقات ابلاغ کی دشواری اس لیے بھی پیدا ہوتی ہے کہ بعض ادیب اپنے فن کارانہ عمل میں ادب کے منصب ومقصد کا خیال نہیں رکھتے اور اظہار فن کے وسیلوں پر انھیں پوری دسترس حاصل نہیں ہوتی۔ ان کے یہاں خیالات میں جو گنجلک پن اور اندازِ بیان میں جو ابہام ہوتاہے، اس کا سبب یہ ہے کہ وہ اپنی فن کارانہ صلاحیت کو جلا دینے کی شعوری اور مخلصانہ کوشش نہیں کرتے۔ وہ اس نکتے سے واقف نہیں ہوتے کہ معجزۂ فن کی نمود خونِ جگر ہی سے ہوتی ہے اور بغیر خونِ جگر کے سارے نقش ناتمام رہتے ہیں لیکن یہ فقط مسئلہ کا ایک پہلو ہے۔
ادب میں ابلاغ کا مسئلہ بالعموم اس وقت پیدا ہوتا ہے جب شاعری اور ادب کوئی نئی کروٹ لیتا ہے۔ جب کچھ نئے تجربے اور نئے میلانات ہمارے سامنے آتے ہیں، جب ہم نئے فنی معیار، اسالیب اور ہستیوں سے روشناس ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ وہ لوگ جو حسن کا مانوس اور محدود تصور رکھتے ہیں وہ ابتدا میں ان تجربوں، میلانات اور اسالیب کی معنویت کو سمجھ نہیں پاتے۔ اردو میں جب پہلی مرتبہ شررؔ، نظمؔ طباطبائی اور اسماعیلؔ نے بے قافیہ اور آزاد نظموں کے تجربے کیے تو بہت سے لوگو ں نے اسے شاعری تسلیم کرنےہی سے انکار کردیا کیونکہ وہ شاعری کو مقررہ اوزان وبحور اور ردیف وقوافی کے علاوہ کسی اور شکل میں دیکھنے کے عادی نہ تھے، وہ شاعری اور نثر کے اظہار میں جو بنیادی فرق ہے یعنی یہ کہ شاعری تخلیقی اظہار ہے اور نثر تعمیری، اسے سمجھتے نہ تھے۔
یہی وجہ ہے کہ ہمارے یہاں ایک عرصے تک نظم آزاد اور شعر منثور کی شعریت کا اعتراف نہ کیا جاسکا، پھر ایک بات اور بھی ہے جیسا کہ ابھی کہا جاچکا کچھ لوگ شاعری میں ایک قسم کا سستا نشہ ڈھونڈتے ہیں اور اسے محض تفریح وتفنن کا ذریعہ سمجھتے ہیں، اس لیے جب وہ شاعری میں گہرے فلسفیانہ، سماجی اور سیاسی حقایق کی ترجمانی دیکھتے ہیں تو اس میں انھیں کوئی لذت اور کشش محسوس نہیں ہوتی، وہ نہ تو اس کی صحیح اہمیت سے واقف ہوتے ہیں اور نہ وہ سنجیدگی سے اس کے مفہوم ومعنی کو سمجھنے کی کوشش کرتےہیں۔
اس طرح دیکھا جائے تو ابلاغ کی دشواریاں موضوع اور اندازِ بیان دونوں کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔ اچھا فن کار بہرحال وہ ہے جو نئے موضوع کو جانے پہچانے استعاروں کا روپ دیتا اور نئی شراب کو پرانی بوتلوں میں رکھتا ہے۔ حالیؔ نے کہا تھا کہ زبان میں خاموش بغیر ہی مفید ہوا کرتا ہے، اس طرح بھی دیکھا جائے تو شعری اظہار کے طریقوں اور اسالیب میں تبدیلی ہوتی رہتی ہے لیکن بعض اوقات اچھے خاصے لوگ اس حقیقت کو سمجھ نہیں پاتے اور یہی وجہ ہے کہ جب کبھی کوئی نیا انداز یا آہنگ سامنے آتا ہے تو اس کا اعتراف نہیں کیا جاتا۔
۱۹۱۲ء میں جب اقبالؔ نے لکھنؤ میں پیارے صاحب رشیدؔ کو اپنا کلام سنایا تو وہ اقبالؔ کے کلام کو محض اس وجہ سے نہ سمجھ سکے اور نہ سمجھنے پر آمادہ ہوئے کہ اس کا انداز اور آہنگ اردو شاعری کے روایتی انداز وآہنگ سے مختلف تھا۔ پیارے صاحب جس زبان اور اسلوب سے مانوس اور جس ادبی روایت کے پروردہ تھے، اس میں محاورہ اور روز مرہ کو خاص اہمیت حاصل تھی۔ یہ روایت جس کا سلسلہ زہرِ عشق سے ملتاہے اس میں ایک خاص شان، ایک خاص حسن، ایک خاص انفرادیت، ایک خاص وقار اور ایک خاص رکھ رکھاؤ تھا جسے تسلیم نہ کرنا زیادتی ہوگی لیکن اس کے ساتھ ہی زبان واسلوب کا جو ایک نیا مزاج اور نیا معیار سامنے آرہاتھا اور جس کی نمائندگی اقبالؔ کے کلام سے ہورہی تھی، اس کی بھی ایک اہمیت تھی۔ پیارے صاحب شاید زبان کی فطری ارتقائی عمل سے ناواقف تھے۔ ان کے سامنے زبان واسلوب کا جو مخصوص ومحدود معیار تھا، اس کی وجہ سے سے وہ اقبالؔ کے کلام کے نئے انداز وآہنگ کو نہ سمجھ سکے۔
یہاں اس پہلو کو بھی سامنے رکھنے کی ضرورت ہے کہ فن کاراپنے مفہوم کا محض سادہ، معلوماتی یا جذباتی اظہار نہیں کرتا بلکہ اس کا علامتی اظہار بھی کرتا ہے اور علامتی اظہاربہرحال براہ راست اظہار سے بہتر ہوتا ہے اور دراصل یہی ادبی اظہار کی اعلیٰ ترین شکل بھی ہے کیونکہ یہ علامتی اسلوب اظہار ہی ہے جس میں زبان کی تمام صلاحیتوں اور امکانات سے بدرجہ اولیٰ کام لیا جاسکتاہے۔ غالبؔ نے جب کہا تھا،
گنجینۂ معنی کا طلسم اس کو سمجھیے
جو لفظ کہ غالبؔ مرے اشعار میں آئے
تو ان کا مقصد ادبی اظہار کے انھیں امکانات کی طرف اشارہ کرنا تھا جو الفاظ کے تخلیقی اور علامتی استعمال کو بروئے کار لاتے ہیں لیکن عام لوگ ادبی اظہار کے ان امکانات کو سمجھ نہیں پاتے اور نہ ہی الفاظ کے اندر جو تہ در تہ معنی پوشیدہ ہوتے ہیں، ان کا ذہن پہنچ پاتا ہے۔ اس لیے ہم ادب میں جس طرح کا ابلاغ چاہتے ہیں، وہ عام طور پر مشکل سے مل پاتا ہے۔ کسی شعری اور ادبی اظہار کا مکمل ابلاغ بننا اسی وقت ممکن ہے جب ہم اسے پوری طرح اپنی ذہنی گرفت میں لے سکیں اور اس کے مفہوم ومعنی کا کلی ادراک کرسکیں۔ ہمیں صرف الفاظ کے معنی ہی معلوم نہ ہوں بلکہ کیفیات تک بھی پہنچ سکیں جو اسے معرض وجود میں لانے کا سبب بنیں۔
حقیقت تو یہ ہے کہ یہ مسئلہ محض فن کار کا نہیں بلکہ قاری کابھی ہے۔ کسی ادبی اظہار کا اس طرح ابلاغ بننا محض فن کار کی کاوشوں پر مبنی نہیں بلکہ اس کا تعلق بڑی حد تک قاری کے ذہن اور رویے سے بھی ہے۔ جہاں فن کار کو یہ کوشش کرنی چاہئے کہ وہ خواہ مخواہ اپنے اور پڑھنے والوں کے درمیان پردہ حائل نہ کرے، وہاں پڑھنے والے کابھی یہ فرض ہے کہ وہ اپنے آپ کو برضا ورغبت ادیب کے حوالے کردینے کےلیے تیار رہے۔ فن کار اپنے شعور وبصیرت کو اسی وقت عام کرسکتا ہے جب پڑھنے والا واقعی اس کے ساتھ ذہنی سفر پر آمادہ ہو اور صرف ادیب سے یہ توقع نہ رکھتا ہو کہ وہ اپنے سارے موتی بکھیردے بلکہ خود بھی موتی کو موتی سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔
کسی فن سے لطف اندوز ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہم اس کے آداب سے پوری طرح واقف ہوں، ظاہر ہے کہ وہ شخص جو موسیقی اور رقص کے آداب سے واقف نہیں، اس کے لیے ان فنون سے حقیقی لطف اٹھانا ممکن نہ ہوسکے گا اور اس کا قوی امکان ہے کہ وہ موسیقی کو محض ایک شور اور رقص کو بلاوجہ اعضاء کا توڑنا مروڑنا سمجھے۔ اسی طرح جو شخص شاعری کے حقیقی رمز سے واقف نہیں وہ اس کے صحیح لطف وکیف سے ہرگز آشنا نہ ہوسکے گا۔ اس لیے اگر شاعر قاری سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ اس سے شکایت کرنے یا اس پر تنقید کرنے سے قبل شاعری کے آداب سے بھی واقف ہو اور اس کا آشنائے راز بھی ہو تو اس کا مطالبہ غلط نہیں کہا جاسکتا۔
ادب میں ابلاغ کے مسئلے کا مطالعہ ہمیں قدیم وجدید کی اس جاری رہنے والی آویزش کے پس منظر میں کرنا چاہیے جس کی وجہ سے ادب میں نئے تجربے، نئے خیالات اور نئے اسالیب ہمیشہ سامنے آتے رہتے ہیں۔ ادب میں یہ مسئلہ کچھ نیا نہیں بلکہ زندگی اور زمانے کے بدلتے ہوئے تقاضوں کے ساتھ ہمیشہ پیدا ہوتا رہتاہے۔ سرسید اور حالیؔ کے ساتھ بھی یہ مسئلہ پیش آیا تھا اور غالب اور اقبال کے ساتھ بھی، عظمت اللہ کے ساتھ بھی اور ترقی پسندوں کے ساتھ بھی اور آج نئی شاعری کے ساتھ پیش آرہا ہے، خصوصاً آج یہ مسئلہ اور زیادہ شدت کے ساتھ ہمارے سامنے آگیا ہے۔
اس کا سبب یہ ہے کہ ہمارے یہاں گزشتہ تیس برسوں میں بہت سے نئے تجربے ہوئے اور ابتدا میں عام طورپر یہ ہوتا ہے کہ وہ لوگ جو حسن کا مانوس تصور رکھتے ہیں، جو محض لکیر کے فقیر ہیں اور متعین شاہراہوں پر چلنے کے عادی ہیں، وہ نئے راستے پر چلنے والوں کو ٹھیک سے نہیں سمجھ پاتے لیکن ہمیں اس حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ ادب میں ہمیشہ نئے تجربے ہوتے اور نئےراستے کھلتے رہتے ہیں اور یہ نئے تجربے خلا میں نہیں ہوتے بلکہ کسی نہ کسی روایت کی توسیع، ترمیم اور اس پر اضافہ ہوتے ہیں۔
ادیب جب کوئی نیا تجربہ کرتاہے تو صرف جدید علوم اور تازہ ترین افکار ہی کو اپنے سامنے نہیں رکھتا بلکہ مذہبی قصوں، دیومالا اور بھولی بسری روایات سے بھی الفاظ وعلامات اخذ کرتاہے۔ وہ ماضی کے پورے سرمایے پر نظر دوڑاتا ہے، اس سے شعوری طور پر استفادہ کرتا ہے اور اس طریقے سے اپنے تجربے کو نیا حسن، نئی معنویت اور نئی توانائی عطا کرتاہے۔ ادیب اس سارے عمل میں جس طرح غور وفکر اور محنت وکاوش سے کام لیتا ہے، اسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔
ادب میں آج جو تجربے ہورہے ہیں، ان کے مطالعے میں ہمیں اس پہلو کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے اور ان حقایق کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے جو ان تجربوں کے پیچھے کارفرما ہیں۔ آج کا دور سائنس اور ٹیکنالوجی کادور ہے۔ اس کی بدولت نئے نئے افکار اور نئی نئی معلومات ہمارے سامنے آرہی ہیں، ہمارا ان سے متاثر ہونا فطری بات ہے لیکن ہمارے یہاں پھر بھی صورتِ حال ذرا مختلف ہے۔ ہم ایک طرف تو جِٹ ایج میں داخل ہورہے ہیں، دوسری طرف بیل گاڑی بھی ہمارے ساتھ چل رہی ہے لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ ہم صرف بیل گاڑی کو اپنی زندگی کی حقیقت سمجھیں، جٹ کو نہیں۔ ہمارے ادب میں آج جو تجربے ہورہے ہیں، انہیں اسی صورتِ حال کی روشنی میں سمجھنے کی ضرورت ہے لیکن یہاں یہ واضح کردینا ضروری ہے کہ نئے تجربوں پر زور دینے کےیہ معنی نہیں کہ ہم انھیں آنکھیں بند کرکے قبول کرلیں یا انھیں اس لیے محترم سمجھیں کہ ان پر سائنس یا فلسفے کی مہر ہے۔
ادب کا کام سائنس یا فلسفے کی بے معنی نقالی نہیں، سائنس اور فلسفے سے جو افکار ومعلومات حاصل ہوتی ہے، ان کی ادھ کچری تشریح وتفسیر نہیں بلکہ انھیں جاندار اور معنی خیز بناکر پیش کرنا ہے۔ حال میں ٹائمس لٹریری سپلیمنٹ کے جو شمارے “Cross Current” کے نام سے نکلے تھے، ان میں انگلستان اور یورپ کے ادیبوں نے ادب کے اس پہلو پر خاص زور دیا تھا اور تسلیم کیا تھا کہ ادب سے جس طرح زندگی اور انسانیت کا شعور حاصل ہوتا ہے، اس کی اپنی مستقل اہمیت ہے اور یہ اہمیت سائنس اور فلسفے کی بے پناہ ترقی کے باوجود بھی ہمیشہ باقی رہے گی۔
آج کے ادب میں جو تجربے ہورہے ہیں، ممکن ہے ان سے یہ شعور اور بصیرت حاصل نہ ہوتی ہو۔ یہ تجربے محض تجربے کی خاطر کیے گئے ہوں، یا محض اپنے آپ کو مختلف دکھانے کے لیے، ان میں کوئی خلوص اور انفرادیت نہ ہو، ان میں نئے مزاج یا نئے شعور کاکوئی عکس نہ ہو، ان میں آرنلڈ کے الفاظ میں جوش، جذبے اور توانائی کے باوجود ذہن اور علم کافقدان ہو، ان میں زیادہ تر نقالی اورفیشن پرستی ہو، ان سے کسی دور کا ادب بھی خالی نہیں ہے۔ انگلستان میں آج جو کتابیں لکھی جارہی ہیں، ان میں New states man کے بیان کے مطابق اسی فی صدی ایسی ہیں جو ردی کی ٹوکری میں پھینک دینے کے لایق ہیں لیکن جو بیس فی صدی ہیں، وہ بہرحال ایسی ہیں جن سے انگلستان کی ذہنی زندگی کا بھرم بھی قایم ہے۔ اس لیے اگر جدید شاعری کا تھوڑا سا بھی حصہ ایسا ہے جس میں خلوص ہے، جس سے زندگی کا شعور اور بصیرت حاصل ہوتی ہے تو ہمیں اس کا ہمدردی کے ساتھ مطالعہ کرنا چاہیے اور اسے سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
جدید شاعری کا مطالعہ کرتے ہوئے ہمیں ایک طرف تو آج کے حالات و مسائل کو سنجیدگی سے سمجھنا چاہیے جن کی وجہ سے جدید شاعری میں تنہائی، مایوسی، افسردگی اور شکستہ دلی کے جذبات کو درآنے کا موقع ملا ہے، دوسری طرف ہمیں آج کے شاعر کے اس پرائیویٹ وژن اور شخصی نظر کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے جسے پیش کرنے کا وہ دعویدار ہے اور جو دراصل اس کی سب سے بڑی دولت ہے۔ ممکن ہے آج کے شاعر کا اس کی ذاتی نگاہ سے مطالعہ کیا جائے تو ہم پر اس کے تجربے کے وہ اسرار ورموز منکشف ہوسکیں جو ہمارے لیے ایک نئے ایمان، نئی انجمن آرائی، نئی آئینہ سامانی کا سبب بن سکیں۔