ادب اور تہذیب

کبھی کبھی یہ سوال پوچھا بھی جاتا رہا ہے اور خود میرے ذہن کو بھی الجھاتا رہا ہے کہ کسی قوم کی تہذیبی زندگی سے اس کے ادب کا کیا تعلق ہوتا ہے۔ بادی النظر میں یہ سوال ایک جانی بوجھی چیز سے متعلق ہے اور ہر شخص کسی نہ کسی شکل میں یہ جانتا ہے کہ تہذیب ایک ملک کے فنون لطیفہ، ادب، فلسفیانہ خیالات، طرز معاشرت، مادی ترقی اور زندگی کے متضاد اور متصادم عناصر کو متوازن بناکر اجتماعی زندگی میں ہم آہنگی کا ایک خوشگوار احساس پیدا کرنے سے الگ کوئی چیز نہیں ہے۔ طبقاتی سماج میں مختلف طبقوں کے لئے اس کی نوعیت مختلف ہو سکتی ہے لیکن کسی نہ کسی قسم کی تہذیبی زندگی کا وجود، طریق پیداوار پر قدرت رکھنے کی مناسبت سے لازمی ہے۔


تہذیب کیا ہے؟ اس کے متعلق میں نے ایک جگہ لکھا تھا کہ ’’جب ہم یہ لفظ (تہذیب) استعمال کرتے ہیں تو اس سے کسی قوم یا ملک کی داخلی یا خارجی زندگی کے تمام اہم پہلوؤں سے مجموعی طور پر پیدا ہونے والی وہ امتیازی خصوصیات مراد ہوتی ہیں جنھیں اس ملک کے لوگ عزیز رکھتے ہیں اور جن کے حوالے سے وہ دنیا میں پہچانا جاتا ہے، انسان قدروں کے بنانے اور محفوظ رکھنے کی جد وجہد میں اپنی قومی تہذیب پیدا کرتا ہے، وہ تہذیب اس کے ماضی سے سے ہم آہنگ ہوتی ہے اور دنیا کی عام رفتار ترقی سے نسبت رکھتی ہے۔ تہذیب قومی زندگی کی ساری جذباتی، روحانی اور مادی امنگوں اور خواہشوں کا احاطہ کر لیتی ہے، اس کو بناتی اور سنوارتی ہے، اسے ایک ایسا نصب العین بخشتی ہے جو زمانے کی ضروریات کا ساتھ دے سکے۔ وہ ان ساری طاقتوں کو سمیٹے ہوئے آگے بڑھتی ہے جو ماضی نے اسے عطا کی ہیں۔‘‘


میرے خیال میں تہذیب سے عام طور پر یہی باتیں مقصود ہوتی ہیں۔ اس طرح تہذیب ایک قوم کے شعور کی مظہر بن جاتی ہے لیکن اس کی سطح کبھی یکساں نہیں ہوتی کیونکہ تہذیبی اقدار یکساں طور پر ہر طبقے کی ایک نہیں ہوتیں۔ یہی وجہ ہے کہ ادب تہذیبی ارتقا کا ایک جز اور اس کا ترجمان بن کر زندگی کی اس کشمکش کو پیش کرتا ہے جو کبھی فرد اور جماعت کی کشمکش کی شکل میں رونما ہوتی ہے، کبھی جماعت اور جماعت کی کشمکش کی شکل میں، اور ادب اس اظہار میں جس قدر زیادہ عمومی انداز اختیار کرتا یا زیادہ سے زیادہ لوگوں کی زندگی کا ترجمان بنتا ہے، اسی قدر وہ تہذیب کے عمومی پہلوؤں سے زیادہ قریب ہوتا ہے۔


ہر ملک و قوم کا کوئی نہ کوئی تہذیبی سرمایہ ہوتا ہے، چاہے وہ قوم بہت زیادہ متمدن نہ کہی جا سکے پھر بھی وہ اپنے وجود کو برقرار رکھنے کے لئے کچھ بنیادیں رکھتی ہے، جس سے وہ آڑے وقتوں میں خود کو سنبھالتی ہے، اس کے گیت، رقص، موسیقی، قصے، کہانیاں، ضرب الامثال سب اس کے وجود کا جز بھی ہیں اور مظہر بھی۔ اگر ان کا تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ تمام چیزیں قومی خصوصیات رکھتی ہیں لیکن ان کا نصب العین انسانی ارتقاء کی کوششوں سے ہم آہنگ ہوتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو صدیوں کے انقلابات نے انھیں چکنا چور کر دیا ہوتا۔ یقیناً ہر بڑے تغیر کے بعد تہذیب اور ادب کا کچھ حصہ بیکار ہوکر ختم ہو جاتا ہے لیکن جو کچھ انقلابات کے جھٹکے سہہ لینے کے بعد بھی زندہ رہتا ہے وہ حقیقتاً ایک ملک اور قوم کی روح کا آئینہ دار ہوتا ہے، اس میں بقا کی جو قوت ہے، وہ اس قوم کی قوت بقا کا آئینہ ہے جو آزمایش اور انقلاب کی بھٹی میں تپائی گئی ہے۔


قومی ادب انسانی ادب بھی ہوتا ہے، اس کی مثال ہر قوم کے ادب و شعر میں مل سکتی ہے کیونکہ جہاں تک انسانوں کے خوابوں اور ان کی تمناؤں کا سوال ہے، خوش اور مطمئن، آسودہ حال اور ترقی پذیر زندگی بسر کرنے کی حد تک ان میں گہری یکسانیت پائی جاتی ہے۔ دوسروں کو غلام بنانے، تفرقے پیدا کرنے، لوٹ کھسوٹ کرکے خوش حال بننے کے جذبات، زندہ رہنے اور ترقی کرنے کے جذبات کی طرح بنیادی اور خوبصورت نہیں ہیں۔ انھوں نے مخصوص سماجی اور سیاسی حالات میں جنم لیا اور ترقی کی ہے، اس لئے ادب اپنی اصل شکل میں ان جذبات کی ترجمانی نہیں کرتا بلکہ اکثر انھیں ناپائدار اور تغیر پذیر اور قابل نفرت اور گھناؤنا بناکر پیش کرتا ہے لیکن ساری دنیا کے ادب میں محبت کی پائداری اور زندہ رہنے کی خواہش، سماج میں توازن پیدا کرنے اور فطرت کو قابو میں لانے کی امنگ کسی نہ کسی شکل میں ضرور ملےگی۔


اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ہر دور میں قومی تہذیب اور قومی زندگی ادب کو متاثر کرتی ہے لیکن اس کے انھیں حصوں کو پائدار بنانے میں کامیاب ہوتی ہے جو اس وسیع تر نقطۂ نظر کی ترجماتی کرتے ہیں۔ باقی حصے زیادہ سے زیادہ تاریخی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ اٹلی اور جرمنی کا وہ ادب جو مسولینیؔ اور ہٹلر کی خوں آشام خواہشات کا آئینہ ہے، اپنے ملک میں بھی مٹ چکا ہے، بین الاقوامی ادب کا جز بننا تو بڑی بات ہے۔ یہاں تک کہ مسولینیؔ اور ہٹلرؔ کی آپ بیتیاں دیکھنے کا شوق صرف تاریخ کے طالب علم رکھتے ہیں۔ اس ادب میں اٹلیؔ اور جرمنیؔ کی قومی زندگی (بلکہ سچ پوچھا جائے تو حاکم طبقہ اور اس کے معاونوں کی زندگی) کا وہ عارضی دور اپنی جھلک دکھاتا ہے جو انسانی نقطۂ نظر سے پسندیدہ نہیں کہا جا سکتا۔ فاشزم کے تاریک سائے میں پیدا ہونے والے ادب کی تہذیب دشمنی کا تجزیہ یہاں مقصود نہیں، صرف اس بات کی طرف اشارہ کرنا ہے کہ ادب تہذیبی زندگی سے اسی وقت تعلق رکھتا ہے جب وہ اپنے اندر قوم کی منصفانہ اور انسان دوست تمناؤں کا اظہار کرے، اس کے کسی ایک طبقہ کی جارحانہ اور ظالمانہ خواہشات کبھی تہذیب اور ادب کا جز نہیں بن سکتیں۔


ادب کو تہذیبی زندگی سے متعلق کرنے کے سلسلہ میں جو اصل دشواری پیش آتی ہے اور جس کا اظہاربہت سے لوگ کھل کر نہیں کر سکتے، یہ ہے کہ عام طور پر ادب کو محض فرد کی خیال آرائیوں اور شخصی تصورات کا اظہار سمجھا جاتا ہے۔ اس ضمن میں آرٹ میں انفرادیت کی بحث کے علاوہ فرد اور جماعت کے تعلق کی بحث بھی اٹھ کھڑی ہوتی ہے اور یہ فیصلہ کرنا دشوار ہو جاتا ہے کہ ادیب کی انفرادی خواہشات اور خیالات کو کسی قوم یا ملک کے مجموعی تہذیبی تصوارت کا جز کس طرح بنایا جا سکتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ادبیات کا بڑا حصہ افراد کی کاوش فکر کا نتیجہ ہوتا ہے اور اعلیٰ درجہ کی تخلیق میں ادیب اور فن کار کی شخصیت نمایاں ہوتی ہے لیکن جس بات کو نظرانداز کر دینے سے یہ مسئلہ الجھن پیدا کرتا ہے، وہ یہ ہے کہ بہت سے نقاد اور مفکر فرد اور جماعت میں کشمکش کو لازمی چیز تسلیم کرتے ہیں۔


چنانچہ تحلیل نفسی کی عمارت کا بڑا حصہ اسی مفروضہ پر قائم ہے کہ انسان سماج کے ساتھ مجبوراً تعاون کرتا ہے، ورنہ اس کی انفرادیت تو سماج سے بالکل الگ ہی رہنا چاہتی ہے۔ یہی خیال دوسری الجھنوں تک لے جاتا ہے کیونکہ اس میں ایک طرف تو انسانی فطرت کو بعض جبلتوں کا مجموعہ قرار دے دیا جاتا ہے جو بدل نہیں سکتیں اور دوسری طرف یہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ کسی سماجی نظام میں افراد کو بہ حیثیت فرد کے مسرت حاصل کرنے اور اپنی جائز خواہشات پوری کرنے کا موقع مل ہی نہیں سکتا۔ یہ دونوں باتیں صحیح نہیں ہیں، نہ تو انسانی فطرت غیرتغیرپذیر ہے اور نہ سماج فرد کا دشمن ہے، اس لئے وہ ادیب جو اپنی انفرادیت کو سماج کے عام مفاد سے الگ لے جاکر اپنی خواہشات اور اپنے افکار کو لوگوں پر لادنا چاہتا ہے، وہ گویا تہذیب کی ان اقدار کی مخالفت کرتا ہے جسے انسانوں کی عام جدوجہد نے صدیوں کی صبر آزما گھڑیوں کے بعد جنم دیا ہے اور اسے انسان کے مستقبل پر بھروسہ نہیں ہے بلکہ وہ اس اندھی جبلت کا وکیل ہے جو کبھی نہیں بدلتی۔


ان عقائد کے ساتھ کوئی ادیب انسانوں کے تہذیبی ارتقاء کا قائل ہی نہیں ہو سکتا۔ اس کے یہاں ادب اور تہذیب کے تعلق کی جستجو فضول ہوگی کیونکہ اس کی وہ انفرادیت جو سماجی زندگی سے صرف اپنی یا اپنے چند ہم خیالوں کی بات منوانے کے لئے برسرپیکار ہے، عام تہذیبی زندگی کا جز کبھی نہ بن سکےگی۔ اچھا ادیب اپنی انفرادیت کو برقرار رکھتے ہوئے بھی اپنی ادبی جدوجہد کو سماج کے عام مفاد کے کام میں لاتا ہے اور اپنے خیالات کے پردے میں اجتماعی خیالات کی ترجمانی کرتا ہے۔ ادب ایک تہذیبی عمل ہے اور تہذیب کا کوئی ادارہ محض فرد کی کاوش کا مرہون منت نہیں ہے۔ اس میں قوم کی زندگی کا دل دھڑکنا چاہئے۔


ابھی درمیان میں قدروں کا ذکر آیا تھا، ان کے تعین کے سلسلہ میں بھی پیچیدگی پیدا ہوتی ہے۔ قدریں تہذیب کے انھیں عناصر پر مشتمل ہوتی ہیں جو صدیوں کی تخلیقی اور تعمیری جد وجہد سے پیدا ہوتی ہیں اور جن سے ایک تہذیب اور اس کے عزیز رکھنے والے پہچانے جاتے ہیں۔ قدریں بدلتی رہتی ہیں، ان کی حدیں بدلتی رہتی ہیں لیکن تہذیب کے ہر دور میں ان کا وجود پایا جاتا ہے۔ قدیم ادبیات میں اخلاق، انسان دوستی، محبت اور فن کے مخصوص تصورات تھے جو اچھی تصانیف کی قیمت معین کرنے میں مدد دیتے تھے، وہ تصورات اس زمانے کی معاشی، اقتصادی اور معاشرتی زندگی سے ہم آہنگ تھے اور انھیں اسی نظام نے پیدا کیا تھا جس کی بنیاد زراعتی پیداوار، اس کے پیدا کرنے کے طریقوں اور اس پر قبضہ رکھنے کی صورتوں پر تھی لیکن مختلف اسباب ارتقائی اور انقلابی اثرات کی وجہ سے انسان کا علم، ذہن، انداز نظر اور تہذیبی تصورات کے متعلق اس کا نقطۂ نظر بدلا۔


فطرت پر قابو پانے کی جد وجہد میں اس نے اپنے کو بدل لیا، نتیجہ یہ ہوا کہ ان قدروں میں بھی تبدیلی ہوئی جنھیں وہ عزیز رکھتا تھا۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس کے جسم کی ساخت بدل گئی لیکن مشینوں نے اس کے ہاتھوں کی طاقت میں کئی گونہ اضافہ کر دیا۔ دوربین اور خوردبین نے اس کی بینائی بڑھا دی، انجن وغیرہ کی پیدائش نے اس کی رفتار تیز کردی اور ہر جگہ وہ اپنے کو قادر اور توانا محسوس کرنے لگا۔ ایسے میں یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ اس کے بہت سے توہمات باطل ہوئے ہوں گے اور بہت سے شکوک یا تو رفع ہوئے ہوں گے یا یقین میں بدلے ہوں گے، اس کو انسان کی قوت اور امکانات عمل پر زیادہ بھروسہ پیدا ہوا ہوگا، اس کے خیالات نے پہلی حدبندیوں کو توڑ کر نئے امکانات کی روشنی میں سوچنا شروع کیا ہوگا۔


تبدیلی کا یہی مفہوم ہے کہ مادی حالات کے بدل جانے سے انسان کا شعور بھی بدلتا ہے، اب جو قدریں پیدا ہوں گی ان میں نیاپن ہوگا، وسعت ہوگی، انسان کی طاقت پر بھروسہ ہوگا اور فطرت کے متعلق خیالات بدلے ہوئے ہوں گے، لیکن اس کا یہ مقصد نہیں ہے کہ محبت کی جگہ نفرت، اخلاق کی جگہ بداخلاقی، انسان دوستی کی جگہ انسان دشمنی پیدا ہو گئی۔ شروع میں کہا جا چکا ہے کہ عارضی طبقاتی استحصال کے ماتحت ایسا ہو سکتا ہے لیکن وہ کسی قوم کی ارتقائی تہذیبی زندگی سے ہم آہنگ نہ ہوگا۔ اس لئے قدیم تہذیب کے وہ اجزا جو انسان کی عظمت، زندگی کی بقاء اور جدوجہد کے مظہر ہیں، کسی نہ کسی شکل میں نئی تہذیبی قدروں میں بھی جگہ پائیں گے، ان کے حاصل کرنے اور ان پر زور دینے کے طریقے مختلف ہو سکتے ہیں لیکن ان کا وجود ختم نہیں ہو سکتا۔ یہ تسلسل زندگی کے تسلسل کا پتہ دےگا اور ایک قوم کو اس کے ماضی سے متعلق رکھنے میں بھی معین ہوگا اور زبان، ادب اور فنون لطیفہ اس تسلسل کے برقرار رکھنے میں بڑاحصہ لیں گے، یہی وجہ ہے کہ کوئی قوم اپنی زبان کے بدلے جانے اور اپنے ادب سے غفلت برتنے پر آمادہ نہیں ہوتی۔


اب اگر ہم اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ ادب تہذیبی قدروں کے اعلان واظہار کا ذریعہ ہوتا ہے، اس سے کسی قوم اور ملک کی روح پہچانی جاتی ہے تو ظاہر ہے کہ ان کے تحفظ کی ضرورت بھی ہے اور ادب ایک حیثیت سے ان کے تحفظ کا ذریعہ بھی بنتا ہے۔ یہاں ان ذرائع کی تفصیلات میں جانے کا موقع نہیں ہے لیکن اصل حقیقت کی طرف اشارہ مفید ہوگا۔


کیا ادب خارجی زندگی کے بدلنے میں مدد دیے بغیر محض داخلی کیفیات کی تبدیلی سے تہذیبی خدمت انجام دے سکتا ہے؟ اس سوال کے جواب پر اس بات کا انحصار ہے کہ ادب کس طرح قومی زندگی کے بدلنے اور اسے مالا مال کرنے میں مدد دے سکتا ہے؟ یہ دور جدید کا اہم ترین فلسفیانہ مبحث ہے کہ انسانی شعور مادی حالات کا عکس ہے یا مادی حالات انسان کے ذہن کی پیداوار ہیں اور یہ تصور پرست فلسفہ بھیس بدل بدل کر انسان کو بھٹکا رہا ہے کہ انسانی ذہن تغیر کا سب سے بڑا آلہ ہے لیکن جس نے بھی تاریخ کا مطالعہ کیا ہے اور فلسفیانہ افکار کی تاریخ پڑھی ہے، اسے یقین ہو جائےگا کہ گو انسان ہی اپنی ضرورت یا ضرورت کے احساس کے ماتحت مادی تغیر پیدا کرتا ہے لیکن اسی مادی تغیر کے ذریعہ اس کا شعور بدلتا ہے۔ ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ ضمیر میں انقلاب آ جائے اور دنیا کا نقشہ بدل جائے۔ ذرائع پیداوار میں تغیر انسان کے عمل کی راہیں بدلتا اور اس کے غوروفکر کے طریقے متعین کرتا ہے، اس پر فلسفیانہ انداز میں بھی بحث کی جا سکتی ہے، تاریخ کا مطالعہ اس حقیقت کو زیادہ آسانی سے ذہن نشین کرائےگا۔


یہ یاد رکھنا چاہئے کہ یہاں فکر اور شعور کی اہمیت کا انکار مقصود نہیں ہے بلکہ اس کی پیدائش اور طریق عمل کا سوال ہے اور جس حیثیت سے بھی دیکھا جائے، یہ معلوم ہوگا کہ انسانی شعور عام معاشی، معاشرتی تغیرات کی رو میں بدلتا اور نئی راہوں پر گامزن ہوتا ہے۔ اگر یہ بات صحیح ہے تو ادب کا کام بھی یہی رہ جاتا ہے کہ وہ انسانی شعور کو وسیع تر کرے لیکن یہ نہ بھول جائے کہ انسانی شعور خارجی حالات کے بدلنے سے بدلتا ہے، محض کسی مصنف کے کہہ دینے یا کسی فن کار کے ظاہر کر دینے سے نہیں بدلتا، یوں ادب تہذیب کی بقاء اور ارتقاء میں شریک ہو جاتا ہے۔


ہمیشہ سے زیادہ اس وقت ادب اور ادیب آزمائش میں مبتلا ہیں کیونکہ جنگ کے خطرات کی وجہ سے تہذیب کی بقاء خطرے میں ہے۔ غیرمعمولی مادی ارتقاء کی وجہ سے یہ زمانہ غیرمعمولی امکانات کا حامل ہے۔ کہیں یہ مادی ارتقاء انسان دوستی، امن اور انسانی بہبودی کے کام لایا جا رہا ہے اور کہیں اس کے برعکس طبقاتی مفاد کو برقرار رکھنے اور مضبوط بنانے کے لئے استعمال ہو رہا ہے۔ ادیبوں کو اپنی راہ منتخب کرنا اور قومی زندگی کے ان تہذیبی عناصر کو ابھارنا ہے جو تہذیب کو بچانے میں معاون ہوں گے۔ یہ فیصلہ ان حقائق کی روشنی میں کرنا ہوگا جو تاریخ فراہم کرتی ہے اور جس سے منھ موڑکر ادیب محض کھوکھلی انفرادی خواہشات کا ترجمان بن کر رہ جائےگا اور اس کے الفاظ ان کروڑوں سینوں میں دھڑکن پیدا نہ کر سکیں گے جو امن اور ارتقا، بقائے انسانی اور بقائے تہذیب کے لئے جد وجہد کر رہے ہیں۔ صرف یہی ایک صورت ہے جس سے ادب قومی رہتے ہوئے بھی انسانی تہذیب کا جز بن جاتا ہے اور ہر اعلیٰ ادبی کارنامہ تہذیب عالم کے خزانے میں جگہ پاتا ہے۔