صدیق اکبرؓ: جس سے بنائے عشق و محبت ہے استوار
ابوبکر ؓ کی حضرت محمد ﷺ سے دوستی بعثت سے پہلے کی ہے۔ ابوبکرؓ پہلے مرد تھے جو ایمان لائے ۔ خود رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: ’’میں نے جس کسی کو اسلام کی دعوت دی، اس نے کچھ نہ کچھ ہچکچاہٹ اور پس وپیش ضرور دکھائی سوائے ابوبکرؓ بن ابوقحافہؓ کے۔ جب میں نے ان کو اسلام کی طرف بلایا، انھوں نے تامل کیے بغیر میری آواز پر لبیک کہا۔‘‘ (ابن ہشام) ۔
اسلام قبول کرنے کے بعد انھوں نے اس کی ترویج میں نمایاں حصہ لیا، لوگوں کو انفرادی طور پر اور اعلانیہ اسلام کی طرف بلایا۔
عبدالکعبہ سے عبداللہ تک:
حضرت ابوبکرؓ عام الفیل کے اڑھائی برس بعد ۵۷۲ء میں پیدا ہوئے۔ نبی ﷺ سے اڑھائی سال چھوٹے تھے۔ ان کا تعلق قریش کے قبیلہ بنو تیم بن مرہ سے تھا۔ حضرت ابوبکرؓؓ کا شجرۂ نسب اس طرح ہے: عبد اﷲ بن عثمان بن عامر بن عمروبن کعب بن سعدبن تیم بن مرہ۔ مرہ ہی پر ان کا شجرہ نبی ﷺ کے شجرے سے جاملتا ہے۔ کلاب بن مرہ آپﷺ کے جبکہ تیم بن مرہ حضرت ابوبکرؓ کے جد تھے۔ عبداﷲ اپنی کنیت حضرت ابوبکرؓ اور ان کے والد عثمان اپنے نام کے بجائے اپنی کنیت ابو قحافہ سے مشہور ہیں۔ حضرت ابوبکرؓ ؓکی والدہ کا نام سلمیٰ بنت صخر اورکنیت ام خیر تھی۔ بیان کیا جاتا ہے کہ ابوبکرؓؓکے کئی بھائی بچپن ہی میں فوت ہو گئے تو ان کی والدہ نے ان کی پیدایش سے پہلے نذر مانی کہ اب اگر لڑکا ہوا تو اس کا نام عبدالکعبہ رکھیں گی۔ ان کے بچپن کا یہ نام قبول اسلام کے بعد بدل کر عبداﷲ ہو گیا۔ خون بہا، تاوان اور دیتوں (اشناق) کی رقوم کا تعین کرنا بنو تیم بن مرہ کے سپرد تھا۔ تاوانوں کی رقوم وہی وصول اور جمع کرتے، متعلقہ مقدمات بھی انھی کے سامنے پیش ہوتے اورانھی کا فیصلہ نافذ ہوتا۔ حضرت ابوبکرؓ جوان ہوئے تو یہ خدمت ان کو سونپی گئی۔ اگرچہ عمر بھر حضرت ابوبکرؓ اپنی کنیت سے موسوم کیے جاتے رہے، لیکن اس کنیت کا یقینی سبب معلوم نہیں ہو سکا۔ انھیں جوان اونٹوں (بکر) کی پرورش اور ان کے علاج معالجے سے دل چسپی تھی یا شایدان کا سب سے پہلے اسلام لانا (بکر الی الاسلام) اس کنیت کا سبب بنا۔ ان کا ایک نام عتیق بھی ہے، جس کے معنی ہیں: خوب صورت اور سرخ و سفید، شروع سے نیک۔ ایک سبب یہ ہے کہ آنحضور ﷺ نے حضرت ابوبکرؓ کو دیکھ کر فرمایا: ’’تم اﷲ کی طرف سے دوزخ سے آزاد (عتیق اﷲ) ہو۔‘‘ (ترمذی، رقم ۳۶۷۹) ہمیشہ سچ بولنے اورواقعۂ معراج کی فی الفور تصدیق کرنے کی وجہ سے صدیق کا لقب ملا۔ ان کی رافت و شفقت کی وجہ سے ان کو "اواہ" بھی کہا جاتا۔
شباب بے داغ:
ام القریٰ میں پروان چڑھنے والے ابوبکرؓ اپنے لڑکپن اور جوانی میں اپنے ہم سنوں میں پائے جانے والی برائیوں اور آلائشوں سے محفوظ تھے۔ انھوں نے جاہلیت میں بھی کبھی شراب نہ چکھی حالانکہ ان کے اردگرد شراب کے رسیا پائے جاتے تھے۔ فکر معاش کی عمر کو پہنچے تو ایک تجارت پیشہ قوم کا فرد ہونے کی بنا پر ان کا میلان تجارت ہی کی طرف ہوا۔ انھوں نے کپڑے کی تجارت شروع کی۔ ایک پر کشش شخصیت اور عمدہ اخلاق کا مالک ہونے کی وجہ سے انھیں غیرمعمولی کامیابی حاصل ہوئی۔ جلد ہی ان کا شمار مکہ کے بڑے تاجروں میں ہونے لگا۔ انھوں نے پہلا تجارتی سفراٹھارہ برس کی عمر میں کیا، آخری بار مدینہ سے شام کے شہر بصرہ کو گئے۔ ان سفروں کی وجہ سے باہر کے تاجر حضرت ابوبکرؓؓ کو خوب پہچانتے تھے۔ حضرت ابوبکرؓ بیدار عقل، بلند نظراور قلب سلیم رکھتے تھے۔ مکہ کے بہت کم لوگ اس معاملے میں ان کے ہم پلہ تھے۔ لکھنا پڑھنا جانتے تھے۔ ماہر علم الانساب تھے، مکہ کے تمام قبیلوں کے نسب ان کو ازبریاد تھے۔ ہر قبیلے کے عیوب و نقائص اور محاسن و فضائل سے بخوبی واقف تھے۔
سچا دوست:
اسلام قبول کرنے کے بعد انھوں نے اس کی ترویج میں نمایاں حصہ لیا، لوگوں کو انفرادی طور پر اور اعلانیہ اسلام کی طرف بلایا۔ عثمان بن عفان، عبد الرحمان بن عوف، طلحہ بن عبید اﷲ، سعد بن ابی وقاص، زبیر بن عوام اور ابو عبیدہ بن جراح رضوان اللہ علیھم اجمعین ، ابوبکرؓ کی کوششوں ہی سے مسلمان ہوئے۔ حضرت ابوبکرؓ نے نبی رحمت ﷺ کی ذاتی نصرت و حمایت بھی کی۔ ایک باربیت اﷲ میں قریش آنحضرت ﷺ پر جھپٹ پڑے اور کہا: تم نے ہمیں برے انجام کی دھمکی دی ہے اور ہمارے معبودوں کے متعلق بری باتیں کی ہیں؟ آپ ؐنے فرمایا: ہاں۔ ان میں سے ایک نے آپ کی چادر کے دونوں پلو پکڑ کر کھینچ لیے (اور گلا گھونٹنے لگا)۔ ابوبکرؓ آپ کا دفاع کرنے کھڑے ہو گئے۔ روتے جاتے اور فرماتے: کیا تم ایک شخص کو محض اس لیے قتل کرنا چاہتے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ میرا رب اﷲ ہے؟ تب انھوں نے آپ کو چھوڑا۔ حضرت ابوبکرؓ معرو ف مال دار تاجر تھے، نبی ﷺ کی بعثت کے وقت ان کے پاس چالیس ہزار درہم تھے۔ اسی میں سے غلام خرید کر آزاد کرتے اور مسلمانوں کو قوت پہنچاتے۔
ابوبکرؓ سے صدیق اکبرؓ تک:
واقعۂ معراج کے موقع پر حضرت ابوبکرؓ نے حیرت انگیز قوت ایمانی کا مظاہرہ کیا۔ آں حضور ﷺ نے جب بتایا کہ رات انھوں نے بیت المقدس کا سفر کیا، مسجد اقصیٰ میں نماز پڑھی اور پھر سیر آسمان کو گئے۔ مشرکین مکہ نے آپ کا مذاق اڑایا، مکہ سے شام تک ایک ماہ کی مسافت ہے۔ کیسے ہو سکتا ہے کہ محمدﷺ ایک رات میں دو ماہ کا سفر طے کر کے لوٹ آئیں؟ کچھ مسلمان بھی متردد ہوئے، لیکن ابوبکرؓ نے ان کو گم راہ ہونے سے بچالیا۔ انھوں نے کہا کہ جو اﷲ لمحوں میں آسمان سے وحی اتار دیتا ہے، اس کے لیے کیا دشوار ہے کہ رات بھر میں محمد ﷺ کو اتنی مسافت طے کرا دے؟ حق کی بلا تاخیر تصدیق کرنے پر پیغمبر علیہ السلام نے حضرت ابوبکرؓ کو صدیق کا لقب عطا فرمایا۔
ثانی اثنین فی الغار:
ہجرت مدینہ کے دوران حضرت ابوبکر صدیقؓ کا کردار کسی طور بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ نبی اکرمؐ کی معیت میں انہوں نے نہ صرف سفر کی صعوبتیں برداشت کیں بلکہ کئی ایک مواقع پر نبی ؐ کی سہولت اور آرام کا خیال رکھنے کے لیے خود کو مشقت اور تکلیف میں بھی مبتلا کیا۔ غار ثور میں حضورؐ کے ساتھ گزارے دنوں کی نسبت سے حضرت ابوبکرؓ کو یار غار بھی کہا جاتا ہے۔
سیدناابوبکرؓ آں حضور ﷺ کے بعد سب سے زیادہ دینی حمیت رکھتے تھے۔ وہ بدر، احد، خندق اور تمام غزوں میں نبی ﷺ کے ساتھ شریک رہے۔ ۶ھ میں رسول اﷲ ﷺ نے مسلمانوں کو عمرہ کی ادائیگی کے لیے مکہ چلنے کا حکم ارشاد کیا۔ قریش نے یہ خبر سن کر تہیہ کیا کہ آپ کو مکہ میں داخل نہ ہونے دیں گے۔ آپ حدیبیہ کے مقام پر فرو کش ہوئے اور مکہ والوں پر واضح کیا کہ ہمارا مقصد صرف عمرہ ادا کرنا ہے۔ تب مذاکرات کے بعد وہ مشہور معاہدہ طے پایا جسے صلح حدیبیہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس معاہدے کی کچھ شرائط مسلمانوں کو نا گوار گزریں۔ خاص طور پر حضرت عمر کا رد عمل بہت سخت تھا۔ حضرت ابوبکرؓ رضی اﷲ عنہ اس موقع پر بھی مطمئن اور پر سکون تھے، انھیں پختہ یقین تھا کہ آپؐ کا کوئی عمل بھی حکمت سے خالی نہیں اور یہ معاہدہ لازماً مسلمانوں کے حق میں بہتر ثابت ہو گا۔ چنانچہ سورۂ فتح نازل ہونے کے بعد یہ بات واضح ہو گئی۔ صلح حدیبیہ کے بعد مسلمانوں نے ذی قعد۷ھ میں نبی ﷺ کی معیت میں عمرہ ادا کیا۔ آں حضرت ﷺ نے غزوۂ تبوک میں حضرت ابوبکرؓ کو مرکزی سیاہ پرچم عنایت کیا اور کھانے کو خیبر کی کھجوروں کے سو ٹوکرے عنایت فرمائے۔ آپؐ نے انھیں نجد کے سریہ میں امیر بنا کر بھیجا۔ ۹ھ میں حج فرض ہوا توآپ نے دین اسلام کا پہلا حج ادا کرنے کے لیے ابوبکرؓ کو امیر الحج مقرر فرمایا۔ وہ تین سو مسلمانوں کو لے کر مکہ پہنچے اور مسلمانوں نے ان کی سربراہی میں فریضۂ حج اداکِیا۔
ایک بار حضرت محمد ﷺ نے حسان بن ثابت رضی اﷲ عنہ سے دریافت فرمایا: ’’تو نے حضرت ابوبکرؓ کے بارے میں بھی کوئی شعر کہا ہے؟‘‘ انھوں نے کہا: ’’ہاں۔‘‘ آپ نے ارشاد فرمایا: ’’کہو، میں سن رہا ہوں۔‘‘ انھوں نے یہ دو شعر پڑھے:
وثانی اثنین فی الغار المنیف وقد
طاف العدو بہ اذ صعد الجبلا
’’بلند غار (ثور) میں دو افرا دمیں سے دوسرا ،دشمن اس کے گرد چکر لگاچکا تھا جب وہ ا س پہاڑ پر چڑھا۔‘‘
وکان حب رسول اﷲ قد علموا
من البر ےۃ لم یعدل بہ رجلا
’’وہ رسول اﷲ ﷺ کا پیار ادوست ہے، سب نے جان لیا ہے۔ دنیا میں کوئی آ دمی اس کے برابر نہیں ہے۔‘‘
رسول اﷲ ﷺ کھل کر مسکرائے حتیٰ کہ آپ کی ڈاڑھیں نمایاں ہو گئیں۔
خلیفۃ الرسول:
حضرت ابوبکرؓ کو نبی کریم ﷺ کے دنیا سے پردہ فرما جانے کے بعد حضرت عمرؓ اور دیگر کبار صحابہ ؓکی بیعت کے ذریعے خلیفۃ الرسول مقرر کیا گیا ۔ بیعت عامہ کے بعد ابوبکرؓ نے لوگوں سے خطاب کیا۔حمد وثنا کے بعد انھوں نے فرمایا:
’’لوگو، میں تم پر حاکم مقرر کیا گیا ہوں حالانکہ میں تم سے بہتر نہیں ہوں۔ اگر میں اچھا کام کروں توتم میری مدد کرو اور اگر برا کام کروں تو مجھے سیدھا کر دو۔ سچائی امانت ہے اور جھوٹ خیانت۔ تم میں سے کم زور میرے نزدیک طاقت والاہے حتیٰ کہ میں اسے اس کا حق دلا دوں ۔ تم میں سے طاقت ور کم زور ہو گا حتیٰ کہ میں اس سے حق لے لوں۔کوئی قوم اﷲ کی راہ میں جہاد نہیں چھوڑتی، مگر اﷲ اسے ذلت میں بے یار و مدد گار چھوڑ دیتا ہے ۔کسی قوم میں بے حیائی عام نہیں ہوتی، مگر اﷲ ان میں مصیبتیں عام کر دیتا ہے۔ تب تک میری بات مانو جب تک میں اﷲ اور رسول کی اطاعت کروں۔ اور جب میں اﷲ اور رسول کی نا فرمانی کروں تو تم پر میری اطاعت واجب نہ ہو گی۔ اب نماز کے لیے کھڑے ہو جاؤ اﷲ تم پر رحم فرمائے گا۔‘‘
تیغ بے نیام:
پیغمبر علیہ السلام کی وفات کے بعد عربوں کی بدوی فطرت بیدار ہو گئی۔ وہ مرکز مدینہ سے آزاد ہو کر ارتداد کی تیاریاں کرنے لگے۔زیادہ دن نہ گزرے کہ حضرت ابوبکرؓکو امرا کی طرف سے اطلاعات ملنے لگیں کہ باغیوں کے ہاتھوں سلطنت کا امن خطرے میں ہے ۔بعض قبائل تو صریح مرتد ہو گئے، جبکہ دوسروں نے زکوٰۃ ادا کرنے سے انکار کر دیا۔ مدینہ کے نواح میں بسنے والے قبیلوں عبس، ذبیان، بنو کنانہ، غطفان اور فزارہ نے موقف اختیار کیاکہ زکوٰۃ جزیہ کے مانند ہے۔ یہ خاص نبی ﷺ کے لیے تھی ،اہل مدینہ اسے طلب کرنے کا حق نہیں رکھتے۔ ان حالات میں جبکہ مدینہ کے بیش تر افراد جیش اسامہؓ کے ساتھ جا چکے تھے ،حضرت ابوبکرؓ کی شوریٰ میں یہ رائے اکثریت اختیار کر گئی کہ منکرین زکوٰۃ سے جنگ نہ کی جائے۔عمرؓ نے کہا: ’’ہم ان لوگوں سے کیسے لڑ سکتے ہیں جو کلمہ گو ہیں؟‘‘حضرت ابوبکرؓ نے کہا: ’’بخدا، میں صلوٰۃ اور زکوٰۃ میں فرق کرنے والوں سے ضرور لڑوں گا۔اگر یہ مجھے ایک رسی بھی دینے سے انکار کریں جو وہ رسول اﷲ کے زمانے میں ادا کیا کرتے تھے تو میں ان سے جنگ کروں گا۔‘‘
بنو اسد میں طلیحہ ،بنو تمیم میں سجاح اور بنو یمامہ میں مسیلمہ کذاب نے نبوت کا دعویٰ کیا۔ لقیط بن مالک عمان میں اور اسود عنسی یمن میں شورش کے ذمہ دار تھے۔اسود نامی کاہن جنوبی یمن میں رہتا تھا،شعبدہ بازی کرتے کرتے ا س نے نبوت کا دعویٰ کردیا اور اپنا لقب رحمان الیمن رکھا۔ان مرتدین سے جنگ کرنے سے پہلے حضرت ابوبکرؓ نے ان کو خطوط ارسال کیے ۔انھوں نے لکھا: ’’رسول اﷲبشارت و انذار کا کام مکمل کر چکے تو انھیں اﷲ نے اپنے پاس بلا لیا۔اب تم میں سے جو لوگ جہالت کے باعث اسلام سے پھر گئے ہیں، اگر وہ اپنی دین مخالف سر گرمیوں سے باز آگئے تو ان کی جان بخشی کر دی جائے گی۔جو آمادۂ فساد ہوں گے، ان سے جنگ کی جائے گی، ان کو بری طرح قتل کر کے ان کی عورتوں اور بچوں کوقیدی بنا لیا جائے گا۔ان کا اذان دیناان کے اسلام کی علامت سمجھا جائے گا۔‘‘بہت سے مرتدین نے اسلام کی طرف رجوع کر لیا۔ اور جو جنگ پر آمادہ رہے حضرت ابوبکرؓ نے ان کی سرکوبی فرمائی۔
محافظِ قرآن:
جنگ یمامہ میں ۱۲۰۰ مسلمان شہید ہوئے ، ان میں سے ۳۹ صحابہ حفاظ قرآن تھے۔ ابھی ایران و روم کے ساتھ جنگوں کا سلسلہ جاری تھا، حضرت عمر نے یہ سوچ کر کہ کہیں زیادہ تعداد میں حفاظ شہید ہونے سے قرآن کا متن غیرمحفوظ نہ ہو جائے، ابوبکرؓ کو مشورہ دیا، قرآن کو اکٹھاکر لیا جائے۔ ان کا جواب تھا: ’’تم ایک کام کیسے کرسکتے ہو جو رسول اﷲ ﷺ نے نہیں کیا ؟‘‘ عمر نے اس موضوع پر حضرت ابوبکرؓ سے کئی بار گفتگو کی تو وہ قائل ہو گئے اور عمر کی رائے پر عمل کرنے کا فیصلہ کر لیا۔پھرآخری سالوں میں نبی ﷺ سے پورا قرآن سیکھنے والے صحابی زید بن ثابت کو بلا کر کہا: ’’تم رسول اﷲ ﷺ کو وحی لکھ کر دیا کرتے تھے، اب ہر جگہ سے معلوم کر کے قرآن مجید جمع کرو۔‘‘ چنانچہ زیدنے کھجور کی چھالوں،چمڑے کے ٹکڑوں ،بکری کے شانے کی ہڈیوں اور سفید پتھر کے ٹکڑوں پر تحریر آیات اکٹھی کیں اور حفاظ سے رجوع کیا ۔ اس سعی کے بعد قرآن چمڑے پر یا اس زمانے کے کاغذ پر تحریر ہوکریکجا ہوا تو ابوبکرؓ کے پاس رکھوا دیا گیا،ان کی وفات کے بعدیہ عمر کے پاس رہا پھر ام المومنین حفصہ بنت عمر کے پاس آ گیا۔ (بخاری، رقم۴۹۸۶)
ایسی روایات بھی موجود ہیں کہ جمع قرآن کا کارنامہ خلافت فاروقی میں انجام پایا، لیکن اگر بخاری کی اس روایت کو ترجیح دی جائے تو ممکن ہے کہ جمع قرآن کا بیش تر کام خلیفۂ اول کے زمانے میں ہوا ہو اور دوسرے خلیفۂ راشد کے عہد میں اسے اس مصحف کی حتمی شکل دی گئی ہو جوان کی شہادت کے بعد سیدہ حفصہ کے پاس آگیا۔ آج قرآن مجید جس ترتیب سے تلاوت کیا جاتاہے یہ وہی ترتیب ہے جو نبی ﷺ نے صحابہ کو تلقین فرمائی اور عہد صدیقی میں اس کی تدوین ہوئی۔ ابوبکرؓ نے قرآن کی آیات اور سورتیں ترتیب دینے میں اپنی رائے سے کام نہ لیا جیسا کہ مستشرقین اور بعض مسلمان مورخین کاخیال ہے ۔ قرآن کی ترتیب تو توقیفی تھی، ابوبکرؓ کے حکم سے محض اس کے متن کو اس طرح ضبط تحریر میں لایا گیا جس طرح نبی ﷺ حفاظ صحابہ کو تلقین فرماتے تھے۔ خلیفۂ ثالث عثمانؓ نے ابوبکرؓ کے مصحف ہی کو سامنے رکھ کر متن میں قرأتوں کے اختلاف کو طے کیا،یوں یہ مصحف مصحف عثمانی کہلایا۔
غرض یہ کہ حضرت ابوبکرؓ پیغمبر ﷺ کے بعد ملت اسلامیہ کے لیے اہم ترین مقام رکھتے ہیں ۔یہ بات اس وقت کے کفار خوب جانتے تھے اور آج کے مسلمان اور منکر سبھی اس بات سے واقف ہیں۔ غزوۂ احد میں ابو سفیان نے میدان جنگ خالی دیکھا تو پہاڑی پر چڑھ کر پکارا،کیا محمد ﷺ موجود ہیں؟ جب اسے جواب نہ ملا تو تین بار حضرت ابوبکرؓ کا نام لیا، کیونکہ اسے معلوم تھا کہ دوسری پوزیشن انھی کی ہے ۔حضرت ابوبکرؓ ؓکی زندگی اخلاق محمدی سے آراستہ تھی۔قارہ کے سردار ابن دغنہ نے قریش کے روبروابوبکرؓ کی تعریف کرتے ہوئے کہاتھا: ’’ابوبکرؓ فقیر و محتاج کو کما کر دیتے ہیں، صلہ رحمی کرتے ہیں، محتاجوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں، مہمان نوازی کرتے ہیں اور راہ حق میں آنے والی مصیبتوں میں مدد کرتے ہیں۔‘‘ (بخاری، رقم ۲۲۹۷)
ابوبکرؓ زمانۂ جاہلیت میں بھی امانت دار تھے، لوگوں کی امانتوں کی حفاظت کرتے اورانھیں وقت پرادا کرتے پھر خلافت کی امانت کبریٰ کو خوب ادا کیا۔ خود فرماتے ہیں: ’’ہم نے مسلمانوں کے کھانے میں سے چونی بھوسی استعمال کی اور ان کے موٹے جھوٹے کپڑوں سے تن ڈھانکا۔‘‘ مکہ میں وہ ۴۰ ہزار درہم کے مالک تھے، اسلام کی راہ میں انفاق کرتے کرتے یہ رقم گھٹ کر ۵ہزاردرہم رہ گئی جب انھوں نے مدینہ ہجرت کی۔ ہجرت کے فوراً بعدسہیل و سعد کی زمین پر مسجد نبوی تعمیر ہوئی تو زمین کی قیمت حضرت ابوبکرؓ نے اداکی۔ رفتہ رفتہ ان کا سب مال اﷲ کی راہ میں خرچ ہو گیا۔ ابوبکرؓپر کامل اعتماد ہونے کی وجہ سے رسول اﷲ ﷺ ان کے مال کو بے تکلف اپنے مال کی طرح خرچ فرماتے تھے۔
نفس مطمئن:
سخت مشقت اور اعصاب شکن معمولات نے حضرت ابوبکرؓکی اجل کو دعوت دی۔کوئی اور انسان اس قدر بوجھ اٹھانے کی طاقت نہ رکھتاتھا جو انھیں اپنے دور خلافت میں اٹھانا پڑا۔سیدہ عائشہؓ اور عبدالرحمان بن ابوبکرؓ کا بیان ہے کہ ۷ جمادی الثانی ۱۳ھ کو ہوا سرد تھی۔ حضرت ابوبکرؓ نے غسل کر لیا تو ان کو بخار چڑھنا شروع ہو گیا۔ ایسے بیمار ہوئے کہ مسجد نہ جا سکتے تھے، چنانچہ عمر ؓکو نماز پڑھانے کاکہا۔ شدت مرض میں ابوبکرؓ کو طبیب بلانے کا کہا گیا تو ان کا جواب تھا: طبیب نے دیکھ لیا ہے ۔لوگوں نے حیرت سے پوچھا کہ اس نے کیا کہا ؟حضرت ابوبکرؓ نے بتایا کہ وہ کہتا ہے: ’انی فعال لما یرید‘ ’’میں جو چاہتا ہوں کر ڈالتا ہوں۔‘‘ سیوطی کہتے ہیں: ابوبکرؓ نبی ﷺ کی رحلت کے صدمے سے گھلتے رہے حتیٰ کہ ان کا انتقال ہو گیا۔
ابوبکرؓ سے مروی روایتیں۱۴۲ ہیں ،جن میں سے صرف ۷بخاری و مسلم میں موجود ہیں۔قلت روایت کا سبب شاید ان کی کم گوئی ہے۔ اس کے باوجود بعض اہم روایات ان سے مروی ہیں، مثلاًطریقۂ نماز جو حضرت ابوبکرؓ ؓسے ابن زبیرؓ نے سیکھا، ان سے عطا نے اور ان سے ابن جریج نے جو اپنے زمانے میں بہترین طریقے سے نماز ادا کرنے والے تھے۔ اسی طرح زکوٰۃ کی مقداریں بیان کرنے والی حدیث ابوبکرؓ سے مروی ہے۔ فن تعبیر کے امام ابن سیرین کہتے ہیں کہ اس امت میں خوابوں کی تعبیربتانے والے سب سے بڑے ماہر ابوبکرؓتھے۔ حضرت ابوبکرؓ ؓنے نبی ﷺ سے روایت بیان کی، ان سے روایت کرنے والوں میں عمرؓ بن خطاب،ان کے آزاد کردہ غلام اسلم،انس بن مالک، برا بن عازب، جابر بن عبداﷲ، جبیر بن نفیر، حذیفہ بن یمان، زید بن ارقم، زید بن ثابت، عبداﷲ بن زبیر، عبداﷲ بن عباس، عبداﷲ بن عمر، عبداﷲ بن عمرو، عبداﷲ بن مسعود، عثمان بن عفان، عقبہ بن عامر، معقل بن یسار، عبدالرحمان بن ابوبکرؓ، علی بن ابو طالبؓ، ابو امامہ باہلی، ابو سعید خدری، ابو موسیٰ اشعری، ابو برزہ اور ابوہریرہ ؓشامل ہیں۔