ایبسٹریکٹ آرٹ

ایبسٹریکٹ آرٹ کی دیکھی تھی نمائش میں نے
کی تھی از راہ مروت بھی ستائش میں نے
آج تک دونوں گناہوں کی سزا پاتا ہوں
لوگ کہتے ہیں کہ کیا دیکھا تو شرماتا ہوں
صرف کہہ سکتا ہوں اتنا ہی وہ تصویریں تھیں
یار کی زلف کو سلجھانے کی تدبیریں تھیں
ایک تصویر کو دیکھا جو کمال فن تھی
بھینس کے جسم پر اک اونٹ کی سی گردن تھی
ٹانگ کھینچی تھی کہ مسواک جسے کہتے ہیں
ناک وہ ناک خطرناک جسے کہتے ہیں
نقش محبوب مصور نے سجا رکھا تھا
مجھ سے پوچھو تو تپائی پہ گھڑا رکھا تھا
بولی تصویر جو میں نے اسے الٹا پلٹا
میں وہ جامہ ہوں کہ جس کا نہیں سیدھا الٹا
اس کو نقاد تو اک چشمۂ حیواں سمجھا
میں اسے حضرت مجنوں کا گریباں سمجھا
ایک تصویر کو دیکھا کہ یہ کیا رکھا ہے
ورق صاف پہ رنگوں کو گرا رکھا ہے
آڑی ترچھی سی لکیریں تھیں وہاں جلوہ فگن
جیسے ٹوٹے ہوئے آئینے پہ سورج کی کرن
تھا کیوب ازم میں کاغذ پہ جو اک رشک قمر
مجھ کو اینٹیں نظر آتی تھیں اسے حسن بشر
بولا نقاد نظر آتے یہی کچھ ہم تم!
خلد میں حضرت آدم جو نہ کھاتے گندم
ایبسٹریکٹ آرٹ کے ملبے سے یہ دولت نکلی
جس کو سمجھا تھا انناس وہ عورت نکلی
ایبسٹریکٹ آرٹ کی اس چیز پہ دیکھی ہے اساس
''تن کی عریانی سے بہتر نہیں دنیا میں لباس''
اس نمائش میں جو اطفال چلے آتے تھے
ڈر کے ماؤں کے کلیجوں سے لپٹ جاتے تھے