ابھی حسن خود سے ہے بے خبر ابھی عشق بھی ہے نہاں نہاں

ابھی حسن خود سے ہے بے خبر ابھی عشق بھی ہے نہاں نہاں
نہ ہیں قصے راز و نیاز کے نہ فسانے دل کے زباں زباں


کبھی بھول سکتا ہوں ہم نشیں وہ نگاہ الفت اولیں
وہ سماں تھا کتنا حسیں حسیں تھی وہ شب بھی کتنی جواں جواں


ترے عشق نے مجھے کر دیا غم دو جہاں سے ہی بے نیاز
کہ میں خار زار حیات سے بھی گزر رہا ہوں رواں رواں


مرے دل کا حال جو ہو سو ہو ترے لب کا غنچہ کھلا رہے
رہے گرتی نظروں کی بجلیاں مرا چاہے کانپے رواں رواں


کبھی جنگلوں میں بھٹک گئے کبھی سیر کی ہے چمن چمن
تری یاد درد کسک مگر رہی ساتھ ساتھ یہاں وہاں


نہ حرم میں تیرا نشاں ملا نہ صنم کدے میں کوئی پتہ
کہ نہ جانے تیری تلاش میں میں پھرا بھٹکتا کہاں کہاں


ترے حسن صبر گداز کی نہیں تاب اس دل زار کو
مرا بہہ گیا وہ غرور عشق میں رہا ہوں کتنا کشاں کشاں


یہ تری نے بدل دئے مرے راستے مری منزلیں
یہ جہاں جہاں مجھے لے چلی میں چلا حبیبؔ وہاں وہاں