ابھی بھوک سے ایک چوہا مرا ہے

مروت ہے دل میں نہ پاس وفا ہے
نہ ترچھی ہیں نظریں نہ بانکی ادا ہے
جوانی مصیبت بڑھاپا بلا ہے
لڑکپن کو دیکھو تو مرجھا گیا ہے
گرانی سے دنیا کو باور ہوا ہے
کہ اپنے زمانے کا حافظ خدا ہے


نہ مٹکے میں آٹا نہ ڈبوں میں دالیں
بتائے کوئی لوگ کس کو پکا لیں
یہ فرمان حاکم ہے کس طرح ٹالیں
کہا ہے غریبوں سے انگور کھا لیں
پتیلی ہے خالی وہاں کیا دھرا ہے
ابھی بھوک سے ایک چوہا مرا ہے


نمک پر مصیبت مسالوں پہ آفت
قیامت ہے ایندھن پہ دالوں پہ آفت
بڑا گوشت مہنگا پیالوں پہ آفت
گرانی ہوئی جینے والوں پہ آفت
بچا ہے تو آفت سے بنیا بچا ہے
سر عام سب کی گرہ کاٹتا ہے


سناتا ہوں کپڑوں کی عریاں کہانی
میاں بھاؤ پر آ گئی ہے جوانی
دکاں میں گئے تو ہوئے آنجہانی
گزرنے لگا ہے مرے سر سے پانی
کہ کھدر بھی مہنگا بہت ہو چکا ہے
ربیٹ اس پہ دس فیصدی رہ گیا ہے


نہ کپڑا نہ روٹی نہ لوٹا نہ دھوتی
پریشاں ہے پوتا بلکتی ہے پوتی
کہ قیمت میں گندم کا دانہ ہے موتی
یہ ممکن نہیں تھا ولادت نہ ہوتی
ہر اک سمت کوہ ندا چیختا ہے
جو پیدا ہوا مبتلائے بلا ہے


زمانہ پریشاں ہے مہنگائیاں ہیں
پریشاں حسینوں کی انگڑائیاں ہیں
نہ سہرے نہ مہندی نہ شہنائیاں ہیں
دکاں دار لیکن بڑے کائیاں ہیں
جو راشن میں پایا میسر ہوا ہے
نہ جانے اس آٹے میں کیا کیا ملا ہے