اب تیری ضرورت بھی بہت کم ہے مری جاں

اب تیری ضرورت بھی بہت کم ہے مری جاں
اب شوق کا کچھ اور ہی عالم ہے مری جاں


اب تذکرۂ خندۂ گل بار ہے جی پر
جاں وقف غم گریہ شبنم ہے مری جاں


رخ پر ترے بکھری ہوئی یہ زلف سیہ تاب
تصویر پریشانئ عالم ہے مری جاں


یہ کیا کہ تجھے بھی ہے زمانے سے شکایت
یہ کیا کہ تری آنکھ بھی پر نم ہے مری جاں


ہم سادہ دلوں پر یہ شب غم کا تسلط
مایوس نہ ہو اور کوئی دم ہے مری جاں


یہ تیری توجہ کا ہے اعجاز کہ مجھ سے
ہر شخص ترے شہر کا برہم ہے مری جاں


اے نزہت مہتاب ترا غم ہے مری زیست
اے نازش خورشید ترا غم ہے مری جاں