اب قیس ہے کوئی نہ کوئی آبلہ پا ہے
اب قیس ہے کوئی نہ کوئی آبلہ پا ہے
دل آٹھ پہر اپنی حدیں ڈھونڈ رہا ہے
احساس کی وادی میں کوئی صوت نہ صورت
یہ منزل عرفان تک آنے کا صلہ ہے
زخموں کے بیاباں میں کوئی پھول نہ پتھر
یادوں کے جزیرے میں نہ بت ہیں نہ خدا ہے
اک خاک کے پیکر کا تماشہ ہے سڑک پر
ہر شخص یہاں قہر کی تصویر بنا ہے
مٹی کے گھروندے میں ستاروں کے دیے ہیں
آنگن میں اندھیرا نہ اجالا نہ ہوا ہے
اب انجمن شوق میں شمعیں نہ پتنگے
اب مرگ مسلسل کی سزا ہے نہ جزا ہے
چشموں کو شکایت ہے کہ شعلوں میں گھرے ہیں
صحرا کو یہ دکھ ہے کہ پڑا سوکھ رہا ہے
اب نخل رہ شوق نہ سائے نہ منازل
اب آبروئے عشق نہ سودا نہ وفا ہے
اب پاؤں مسافر ہیں نفس مرحلۂ زیست
اب وقت کے ہاتھوں پہ نہ خوں ہے نہ حنا ہے
خوں رنگ شفق رنگ خزاں رنگ ہیں چہرے
جسموں پہ کفن ہے نہ کوئی سرخ قبا ہے
سورج کو ہتھیلی پہ لکیروں کی تمنا
اب چاند کی تھالی میں کرن ہے نہ دیا ہے
اب دشت کے سینے پہ فقط آگ بچھی ہے
اب نقش کف پا ہے نہ اب بانگ درا ہے
ہر آنکھ چلاتی ہوئی تشکیک کے نیزے
ہر ذہن تجسس کی ردا اوڑھ چکا ہے
الفاظ کے چہرے سے عیاں شان خموشی
ہونٹوں پہ سوالات کا اک جال بچھا ہے
کیوں شام کو باہوں میں الجھنے کی ہوس ہے
کیوں صبح کی پلکوں میں کوئی خواب چھپا ہے
کیوں رات کے ماتھے پہ چمکتے ہیں نگینے
کیوں دن کے رگ و پے میں کوئی حشر بپا ہے
مشرق کے دریچوں سے گھٹن جھانک رہی ہے
مغرب کی فضاؤں میں دھواں پھیل چکا ہے
آشوب نظر ہو کہ تمناؤں کے نشتر
ہر طشت میں زخموں کا اک انبار لگا ہے
مندر کے گجر خاک پر اب چپ سے پڑے ہیں
مسجد کے مناروں کا سرا ٹوٹ چکا ہے
دیوار بھی دیوار سے آزاد نہیں ہے
موہوم خلاؤں میں بھی زندان ہوا ہے
سقراط تہ خاک یہی سوچ رہا ہے
اب زہر فقط پیاس بجھانے کی دوا ہے
اب نجد کے صحرا میں نہ کانٹے نہ صدائیں
اب قیس ہے کوئی نہ کوئی آبلہ پا ہے
یوں رات جب آئی ہے تو رکنا ہی پڑا ہے
دست تۂ سنگ آمدہ پیمان وفا ہے
مجبوری و دعوائے گرفتاریٔ الفت
ہر عہد میں تہذیب نے یہ ڈھونگ رچا ہے