اب کیوں حریم ناز میں سرمستیاں نہیں
اب کیوں حریم ناز میں سرمستیاں نہیں
ہم وہ نہیں کہ آپ میں وہ شوخیاں نہیں
دل ہی نہیں جو سوز جنوں سے تپاں نہیں
کیا زندگی جو وقف غم جاوداں نہیں
ہر وقت اب تو جیب و گریباں ہیں چاک چاک
احساس اہتمام بہار و خزاں نہیں
اجزائے ہست و بود محبت میں کھو گئے
اک وہم ہے سو اس کا بھی کوئی گماں نہیں
کونین میرے پنجۂ وحشت کی زد میں ہیں
میرے جنوں کی قید مکاں لا مکاں نہیں
گو آرزوئے جرأت رندانہ ہے مگر
حاصل بقدر ذوق مع ارغواں نہیں
میں پائمال وعدۂ فردا ضرور ہوں
لیکن فریب خوردۂ ناز بتاں نہیں
افشائے راز عشق کا عزم بلند ہے
مظہرؔ اب اور طاقت ضبط فغاں نہیں