اب کے حصار ذات سے باہر نکل کے دیکھ

اب کے حصار ذات سے باہر نکل کے دیکھ
شہر گلاب میں کبھی کانٹوں پہ چل کے دیکھ


جو بھی ہے جیسا اس کو اسی طرز سے پرکھ
اس کو بدل کے دیکھ نہ خود کو بدل کے دیکھ


اوروں کی آگ کیا تجھے کندن بنائے گی
اپنی بھی آگ میں کبھی چپ چاپ جل کے دیکھ


جو تیرے راستے میں ہیں پتھر پڑے ہوئے
گر کے تو ان پہ دیکھ لیا اب سنبھل کے دیکھ


چہرہ ہمیشہ کیوں پس غازہ چھپا رہے
اس پہ تو اپنے خون کا بھی رنگ مل کے دیکھ