اب کہاں لطف بہاراں کے زمانے باقی
اب کہاں لطف بہاراں کے زمانے باقی
اب کہاں سوسن و سنبل کے فسانے باقی
ایک کیفیت حسرت ہے افق تک طاری
اب کہاں مطرب بلبل کے ترانے باقی
اب کسی سمت بھی لہراتی نہیں زلف شمیم
مشک و عنبر کے کہاں اب وہ ٹھکانے باقی
خاک ہر راہ میں آوارہ ہے وحشت بن کر
اب مسرت کے کہاں سبز خزانے باقی
اب تصور میں کہاں حسن کا رقص پیہم
اب کہاں نظروں کے بے باک نشانے باقی
دل ہے اک خانۂ برباد کی صورت خاموش
اب تمنا کے کہاں خواب سہانے باقی
اجلے اجلے سے شب و روز کہاں اب اظہرؔ
ان شب و روز کے ہیں اب تو فسانے باقی