اب چل پڑا ہوں آخری اپنے سفر کو میں

اب چل پڑا ہوں آخری اپنے سفر کو میں
اچھا ہے سیدھا کر لوں جو اپنی کمر کو میں


ہیں تعزیت کو اپنی یہ دونوں اڑے ہوئے
''حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں''


جب سے بڑھا ہے شہر میں موتوں کا سلسلہ
ہم راہ اپنے رکھتا ہوں اک نوحہ گر کو میں


مجھ کو ملے گا بیمے کا پیسہ نہ ایک بھی
''یہ جانتا تو آگ لگاتا نہ گھر کو میں''


ٹکرا گیا میں ڈھول سے اک تارکول کے
منہ کالا کر کے دوں گا دعا گزر کو میں


غم خوار ہو نہ آدمی کا آدمی جہاں
لعنت ہزار بھیجتا ہوں اس نگر کو میں


سارے فساد کی وہی اک جڑ ہے شہر میں
جی چاہتا ہے پھونک دوں لیڈر کے گھر کو میں


نظر کرم کا اسپرے وہ روز کر سکیں
رکھتا کھلا ہوں اس لیے زخم جگر کو میں


تعریف اتنی کرتے ہو کیوں رازؔ کی جناب
کیا جانتا نہیں ہوں بھلا اس لچر کو میں