آزادی

پوچھتا ہے تو کہ کب اور کس طرح آتی ہوں میں
گود میں ناکامیوں کے پرورش پاتی ہوں میں


صرف وہ مخصوص سینے ہیں مری آرام گاہ
آرزو کی طرح رہ جاتی ہے جن میں گھٹ کے آہ


اہل غم کے ساتھ ان کا درد و غم سہتی ہوں میں
کانپتے ہونٹوں پہ بن کر بد دعا رہتی ہوں میں


رقص کرتی ہیں اشاروں پر مرے موت و حیات
دیکھتی رہتی ہوں میں ہر وقت نبض کائنات


خود فریبی بڑھ کے جب بنتی ہے احساس شعور
جب جواں ہوتا ہے اہل زر کے تیور میں غرور


مفلسی سے کرتے ہیں جب آدمیت کو جدا
جب لہو پیتے ہیں تہذیب و تمدن کے خدا


بھوت بن کر ناچتا ہے سر پہ جب قومی وقار
لے کے مذہب کی سپر آتا ہے جب سرمایہ دار


راستے جب بند ہوتے ہیں دعاؤں کے لئے
آدمی لڑتا ہے جب جھوٹے خداؤں کے لئے


زندگی انساں کی کر دیتا ہے جب انساں حرام
جب اسے قانون فطرت کا عطا ہوتا ہے نام


اہرمن پھرتا ہے جب اپنا دہن کھولے ہوئے
آسماں سے موت جب آتی ہے پر تولے ہوئے


جب کسانوں کی نگاہوں سے ٹپکتا ہے ہراس
پھوٹنے لگتی ہے جب مزدور کے زخموں سے یاس


صبر ایوبی کا جب لبریز ہوتا ہے سبو
سوز غم سے کھولتا ہے جب غلاموں کا لہو


غاصبوں سے بڑھ کے جب کرتا ہے حق اپنا سوال
جب نظر آتا ہے مظلوموں کے چہروں پر جلال


تفرقہ پڑتا ہے جب دنیا میں نسل و رنگ کا
لے کے میں آتی ہوں پرچم انقلاب و جنگ کا


ہاں مگر جب ٹوٹ جاتی ہے حوادث کی کمند
جب کچل دیتا ہے ہر شے کو بغاوت کا سمند


جب نگل لیتا ہے طوفاں بڑھ کے کشتی نوح کی
گھٹ کے جب انسان میں رہ جاتی ہے عظمت روح کی


دور ہو جاتی ہے جب مزدوروں کے دل کی جلن
جب تبسم بن کے ہونٹوں پر سمٹتی ہے تھکن


جب ابھرتا ہے افق سے زندگی کا آفتاب
جب نکھرتا ہے لہو کی آگ میں تپ کر شباب


نسل قومیت کلیسا سلطنت تہذیب و رنگ
روند چکتی ہے جب ان سب کو جوانی کی امنگ


صبح کے زریں تبسم میں عیاں ہوتی ہوں میں
رفعت عرش بریں سے پرفشاں ہوتی ہوں میں