آواگون

زندگانی کی پتنگ
سانس کی نازک سی
ڈوری پر ہے پرواز آزما
کون جانے کب کہاں
ڈوری کا رشتہ ٹوٹ جائے
اور کاغذ کا بدن
اندھی ہوا کے دوش پر
ہولے ہولے رفتہ رفتہ
وادیوں دریاؤں پہاڑوں
صحراؤں سے گزر کر
جا گرے
اک اجنبی سے دیس میں