آسودگان ہجر سے ملنے کی چاہ میں
آسودگان ہجر سے ملنے کی چاہ میں
کوئی فقیر بیٹھا ہے صحرا کی راہ میں
پھر یوں ہوا کہ شوق سے کھولی نہ میں نے آنکھ
اک خواب آ گیا تھا مری خواب گاہ میں
اس بار کتنی دیر یہاں ہوں خبر نہیں
آ تو گیا ہوں پھر سے تری بارگاہ میں
پھر کار زندگی نے مجھے چھوڑنا نہیں
کچھ دن یہیں گزار لوں اپنی پناہ میں
یاروں نے آ کے جان بچائی مری کہ میں
خود سے الجھ پڑا تھا یوں ہی خواہ مخواہ میں