آسماں پر ابر پارے کا سفر میرے لیے

آسماں پر ابر پارے کا سفر میرے لیے
خاک پر مہکا ہوا چھوٹا سا گھر میرے لیے


لفظ کی چھاگل جو چہکے خاکداں آباد ہو
وجد میں آنے لگیں سارے شجر میرے لیے


دور تک اڑتے ہوئے جگنو تری آواز کے
دور تک ریگ رواں پر اک نگر میرے لیے


آشنا نظروں سے دیکھیں رات بھر تارے تجھے
گھورتی آنکھوں کی یہ بستی مگر میرے لیے


لے گئی ہے ساری خوشبو چھین کر ٹھنڈی ہوا
پتیاں بکھری پڑی ہیں خاک پر میرے لیے


بند اس نے کر لیے تھے گھر کے دروازے اگر
پھر کھلا کیوں رہ گیا تھا ایک در میرے لیے


خاک پر بکھرے ہوئے قدموں تلے روندے ہوئے
تحفۃً لائی ہوا میرے ہی پر میرے لیے