آرزو جن کی ہے ان کی انجمن تک آ گئے
آرزو جن کی ہے ان کی انجمن تک آ گئے
نکہت گل کے سہارے ہم چمن تک آ گئے
بے رخی سے آپ جب بیگانہ پن تک آ گئے
آج ہم بھی جرأت سخن تک آ گئے
مے کدہ پھر بھی غنیمت ہے جہاں اس دور میں
ایک ہی مرکز پہ شیخ و برہمن تک آ گئے
جل بجھے اہل جنوں لیکن کسی کو کیا خبر
کتنے شعلے خود اسی گل پیرہن تک آ گئے
معتبر ہو کر رہی دیوانگی اپنی سرورؔ
جتنے انداز جنوں تھے بانکپن تک آ گئے