آرٹسٹ لوگ

جمیلہ کو پہلی بار محمود نے باغ جناح میں دیکھا۔ وہ اپنی دو سہیلیوں کے ساتھ چہل قدمی کررہی تھی۔ سب نے کالے برقعے پہنے تھے۔ مگر نقابیں الٹی ہوئی تھیں۔ محمود سوچنے لگا یہ کس قسم کا پردہ ہے کہ برقع اوڑھا ہوا ہے مگر چہرہ ننگا ہے۔۔۔ آخری اس پردے کا مطلب کیا۔۔۔؟ محمود جمیلہ کے حسن سے بہت متاثر ہوا۔


وہ اپنی سہیلیوں کے ساتھ ہنستی کھیلتی جارہی تھی۔ محمود اس کے پیچھے چلنے لگا۔ اس کو اس بات کا قطعاً ہوش نہیں تھا کہ وہ ایک غیر اخلاقی حرکت کا مرتکب ہو رہا ہے۔ اس نے سینکڑوں مرتبہ جمیلہ کو گھور گھور کے دیکھا۔ اس کے علاوہ ایک دو بار اس کو اپنی آنکھوں سے اشارے بھی کیے۔ مگر جمیلہ نے اسے درخور اعتنانہ سمجھا اور اپنی سہیلیوں کے ساتھ بڑھتی چلی گئی۔ اس کی سہیلیاں بھی کافی خوبصورت تھیں مگر محمود نے اس میں ایک ایسی کشش پائی جو لوہے کے ساتھ مقناطیس کی ہوتی ہے۔۔۔ وہ اس کے ساتھ چمٹ کر رہ گیا۔


ایک جگہ اس نے جرأت سے کام لے کر جمیلہ سے کہا، ’’حضور اپنا نقاب تو سنبھالیے۔۔۔ ہوا میں اُڑ رہا ہے۔‘‘ جمیلہ نے یہ سن کر شور مچانا شروع کر دیا۔ اس پر پولیس کے دو سپاہی جو اس وقت باغ میں ڈیوٹی پر تھے، دوڑتے آئے۔ اور جمیلہ سے پوچھا، ’’بہن کیا بات ہے؟‘‘ جمیلہ نے محمود کی طرف دیکھا جو سہما کھڑا تھا اور کہا، ’’یہ لڑکا مجھ سے چھیڑ خانی کررہا تھا۔ جب سے میں اس باغ میں داخل ہوئی ہوں، یہ میرا پیچھا کررہا ہے۔


سپاہیوں نے محمود کا سرسری جائزہ لیا اور اس کو گرفتار کر کے حوالات میں داخل کر دیا۔۔۔ لیکن اس کی ضمانت ہوگئی۔


اب مقدمہ شروع ہوا۔۔۔ اس کی روئداد میں جانے کی ضرورت نہیں، اس لیے کہ یہ تفصیل طلب ہے۔ قصہ مختصر یہ ہے کہ محمود کا جرم ثابت ہوگیا اور اُسے دو ماہ قید با مشقت کی سزا مل گئی۔ اس کے والدین نادار تھے۔ اس لیے وہ سیشن کی عدالت میں اپیل نہ کرسکے۔ محمود سخت پریشان تھا کہ آخر اس کا قصور کیا ہے۔ اس کو اگر ایک لڑکی پسند آ گئی تھی اور اس نے اس سے چند باتیں کرنا چاہیں تو یہ کیا جرم ہے، جس کی پاداش میں وہ دو ماہ قید با مشقت بھگت رہا ہے۔ جیل خانے میں وہ کئی مرتبہ بچوں کی طرح رویا۔ اس کو مصوری کا شوق تھا، لیکن اس سے وہاں چکی پسوائی جاتی تھی۔


ابھی اسے جیل خانے میں آئے بیس روز ہی ہوئے تھے کہ اسے بتایا گیا کہ اس کی ملاقات آئی ہے۔ محمود نے سوچا کہ یہ ملاقاتی کون ہے؟ اس کے والد تو اس سے سخت ناراض تھے۔ والدہ اپاہج تھیں اور کوئی رشتے دار بھی نہیں تھے۔ سپاہی اسے دروازے کے پاس لے گیا جو آہنی سلاخوں کا بنا ہوا تھا۔ ان سلاخوں کے پیچھے اس نے دیکھا کہ جمیلہ کھڑی ہے۔۔۔ وہ بہت حیرت زدہ ہوا۔۔۔ اس نے سمجھا کہ شاید کسی اور کو دیکھنے آئی ہو گی۔ مگر جمیلہ نے سلاخوں کے پاس آ کر اس سے کہا، ’’میں آپ سے ملنے آئی ہوں۔‘‘


محمود کی حیرت میں اور بھی اضافہ ہوگیا، ’’مجھ سے۔۔۔؟‘‘


’’ جی ہاں۔۔۔ میں معافی مانگنے آئی ہوں کہ میں نے جلد بازی کی۔ جس کی وجہ سے آپ کو یہاں آنا پڑا۔‘‘ محمود مسکرایا، ’’ہائے اس زُودِ پشیماں کا پشیماں ہونا۔‘‘


جمیلہ نے کہا، ’’یہ غالبؔ ہے؟‘‘


’’جی ہاں! غالبؔ کے سوا اور کون ہوسکتا ہے جو انسان کے جذبات کی ترجمانی کرسکے۔۔۔ میں نے آپ کو معاف کر دیا۔۔۔ لیکن میں یہاں آپ کی کوئی خدمت نہیں کرسکتا۔ اس لیے کہ یہ میرا گھر نہیں ہے سرکار کا ہے۔۔۔ اس کے لیے میں معافی کا خواستگار ہوں۔‘‘ جمیلہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے، ’’میں آپ کی خادمہ ہوں۔‘‘ چند منٹ ان کے درمیان اور باتیں ہوئیں، جو محبت کے عہد و پیمان تھیں۔۔۔ جمیلہ نے اس کو صابن کی ایک ٹکیہ دی۔ مٹھائی بھی پیش کی اس کے بعد وہ ہر پندرہ دن کے بعد محمود سے ملاقات کرنے کے لیے آتی رہی۔ اس دوران میں ان دونوں کی محبت استوار ہوگئی۔


جمیلہ نے محمود کو ایک روز بتایا، ’’مجھے موسیقی سیکھنے کا شوق ہے۔۔۔ آج کل میں خاں صاحب سلام علی خاں سے سبق لے رہی ہوں۔‘‘ محمود نے اس سے کہا، ’’مجھے مصوری کا شوق ہے۔۔۔ مجھے یہاں جیل خانے میں اور کوئی تکلیف نہیں۔۔۔ مشقت سے میں گھبراتا نہیں۔ لیکن میری طبیعت جس فن کی طرف مائل ہے اس کی تسکین نہیں ہوتی۔ یہاں کوئی رنگ ہے نہ روغن ہے۔ کوئی کاغذ ہے نہ پنسل۔۔۔ بس چکی پیستے رہو۔‘‘ جمیلہ کی آنکھیں پھر آنسو بہانے لگیں، ’’بس اب تھوڑے ہی دن باقی رہ گئے ہیں۔ آپ باہر آئیں۔ تو سب کچھ ہو جائے گا۔‘‘


محمود دو ماہ کی قید کاٹنے کے بعد باہر آیا تو جمیلہ دروازے پر موجود تھی۔۔۔ اس کالے برقعے میں جو اب بھوسلا ہوگیا تھا اور جگہ جگہ سے پھٹا ہوا تھا۔


دونوں آرٹسٹ تھے۔ اس لیے انھوں نے فیصلہ کیا کہ شادی کر لیں۔۔۔ چنانچہ شادی ہوگئی۔ جمیلہ کے ماں باپ کچھ اثاثہ چھوڑگئے تھے اس سے انھوں نے ایک چھوٹا سا مکان بنایا اور پر مسرت زندگی بسر کرنے لگے۔


محمود ایک آرٹ اسٹوڈیو میں جانے لگا تاکہ اپنی مصوری کا شوق پورا کرے۔۔۔ جمیلہ خاں صاحب سلام علی خاں سے پھر تعلیم حاصل کرنے لگی۔


ایک برس تک وہ دونوں تعلیم حاصل کرتے رہے۔ محمود مصوری سیکھتا رہا اور جمیلہ موسیقی۔ اس کے بعد سارا اثاثہ ختم ہوگیا اور نوبت فاقوں پر آگئی۔ لیکن دونوں آرٹ شیدائی تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ فاقے کرنے والے ہی صحیح طور پر اپنے آرٹ کی معراج تک پہنچ سکتے ہیں۔ اس لیے وہ اپنی اس مفلسی کے زمانے میں بھی خوش تھے۔


ایک دن جمیلہ نے اپنے شوہر کو یہ مژدہ سنایا کہ اسے ایک امیر گھرانے میں موسیقی سکھانے کی ٹیوشن مل رہی ہے۔ محمود نے یہ سن کر اس سے کہا، ’’نہیں ٹیوشن ویوشن بکواس ہے۔۔۔ ہم لوگ آرٹسٹ ہیں۔‘‘ اس کی بیوی نے بڑے پیار کے ساتھ کہا، ’’لیکن میری جان گزارہ کیسے ہوگا؟‘‘ محمود نے اپنے پھوسڑے نکلے ہوئے کوٹ کا کالر بڑے امیرانہ انداز میں درست کرتے ہوئے جواب دیا، ’’آرٹسٹ کو ان فضول باتوں کا خیال نہیں رکھنا چاہیے۔ ہم آرٹ کے لیے زندہ رہتے ہیں۔۔۔ آرٹ ہمارے لیے زندہ نہیں رہتا۔‘‘ جمیلہ یہ سن کر خوش ہوئی، ’’لیکن میری جان آپ مصوری سیکھ رہے ہیں۔۔۔ آپ کو ہر مہینے فیس ادا کرنی پڑتی ہے۔ اس کا بندوبست بھی تو کچھ ہونا چاہیے۔۔۔ پھر کھانا پینا ہے۔ اس کا خرچ علیحدہ ہے۔‘‘


’’میں نے فی الحال مصوری کی تعلیم لینا چھوڑ دی ہے۔۔۔ جب حالات موافق ہوں گے تو دیکھا جائے گا۔‘‘


دوسرے دن جمیلہ گھر آئی تو اس کے پرس میں پندرہ روپے تھے جو اس نے اپنے خاوند کے حوالے کر دئیے اور کہا، ’’میں نے آج سے ٹیوشن شروع کر دی ہے، یہ پندرہ روپے مجھے پیشگی ملے ہیں۔۔۔ آپ مصوری کا فن سیکھنے کا کام جاری رکھیں۔‘‘ محمود کے مردانہ جذبات کو بڑی ٹھیس لگی، ’’میں نہیں چاہتا کہ تم ملازمت کرو۔۔۔ ملازمت مجھے کرنا چاہیے۔‘‘ جمیلہ نے خاص انداز میں کہا، ’’ہائے۔۔۔ میں آپ کی غیر ہوں۔ میں نے اگر کہیں تھوڑی دیر کے لیے ملازمت کر لی ہے تو اس میں حرج ہی کیا ہے۔۔۔ بہت اچھے لوگ ہیں۔ جس لڑکی کو میں موسیقی کی تعلیم دیتی ہوں، بہت پیاری اور ذہین ہے۔‘‘ یہ سن کر محمود خاموش ہوگیا۔ اس نے مزید گفتگو نہ کی۔


دوسرے ہفتے کے بعد وہ پچیس روپے لے کر آیا اور اپنی بیوی سے کہا، ’’میں نے آج اپنی ایک تصویر بیچی ہے خریدار نے اسے بہت پسند کیا۔ لیکن خسیس تھا۔ صرف پچیس روپے دئیے۔ اب امید ہے کہ میری تصویروں کے لیے مارکیٹ چل نکلے گی۔ جمیلہ مسکرائی، ’’ تو پھر کافی امیر آدمی ہو جائیں گے۔‘‘ محمود نے اس سے کہا، ’’جب میری تصویریں بکنا شروع ہو جائیں گی تو میں تمھیں ٹیوشن نہیں کرنے دوں گا۔‘‘ جمیلہ نے اپنے خاوند کی ٹائی کی گرہ درست کی اور بڑے پیار سے کہا، ’’آپ میرے مالک ہیں جو بھی حکم دیں گے مجھے تسلیم ہوگا۔


دونوں بہت خوش تھے اس لیے کہ وہ ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے۔ محمود نے جمیلہ سے کہا، ’’اب تم کچھ فکر نہ کرو۔ میرا کام چل نکلا ہے۔۔۔ چار تصویریں کل پرسوں تک بک جائیں گی اور اچھے دام وصول ہو جائیں گے۔ پھر تم اپنی موسیقی کی تعلیم جاری رکھ سکو گی۔‘‘ ایک دن جمیلہ جب شام کو گھر آئی تو اس کے سر کے بالوں میں دُھنکی ہوئی روئی کا غبار اس طرح جما تھا جیسے کسی ادھیڑ عمر آدمی کی داڑھی میں سفید بال۔


محمود نے اس سے استفسار کیا، ’’یہ تم نے اپنے بالوں کی کیا حالت بنا رکھی ہے۔۔۔ موسیقی سکھانے جاتی ہو یا کسی جننگ فیکٹری میں کام کرتی ہو۔‘‘


جمیلہ نے، جو محمود کی نئی رضائی کی پرانی روئی کو دُھنک رہی تھی مسکرا کر کہا، ’’ ہم آرٹسٹ لوگ ہیں۔ ہمیں کسی بات کا ہوش بھی نہیں رہتا۔‘‘


محمود نے حقے کی نے منہ میں لے کر اپنی بیوی کی طرف دیکھا اور کہا، ’’ہوش واقعی نہیں رہتا۔۔۔‘‘ جمیلہ نے محمود کے بالوں میں اپنی انگلیوں سے کنگھی کرنا شروع کی، ’’یہ دُھنکی ہوئی روئی کا غبار آپ کے سر میں کیسے آگیا۔۔۔؟‘‘ محمود نے حقے کا ایک کش لگایا، ’’جیسا کہ تمہارے سر میں موجود ہے۔۔۔ ہم دونوں ایک ہی جننگ فیکٹری میں کام کرتے ہیں صرف آرٹ کی خاطر۔‘‘