آپ سے شکوہ یہ کرنا ہے اگر راز رہے

آپ سے شکوہ یہ کرنا ہے اگر راز رہے
عہد میں حسن کے ہم کشتۂ انداز رہے


شرط پردہ ہے تو یہ آج سے انداز رہے
میری آواز میں پنہاں تری آواز رہے


بن گیا درد مقدر سے مرے یہ ورنہ
ناز تو روح محبت ہے اگر ناز رہے


میں جو اسرار محبت کہیں ظاہر کر دوں
ہو کے ہر ساز سے پیدا تری آواز رہے


آپ کے غم کو چھپا لوں یہ بجا فرمایا
اور اگر رنگ رخ آمادۂ پرواز رہے


سانس میں نزع کی ہچکی کو بدلتا ہوں میں
سعیٔ آخر ہے اگر راز وفا راز رہے