آنسو کی طرح دیدۂ پر آب میں رہنا
آنسو کی طرح دیدۂ پر آب میں رہنا
ہر گام مجھے خانۂ سیلاب میں رہنا
وہ ابروئے خم دار نظر آئے تو سمجھے
آنکھوں کی طرح سایۂ محراب میں رہنا
غفلت ہی میں کٹتے ہیں شب و روز ہمارے
ہر آن کسی دھیان کسی خواب میں رہنا
دن بھر کسی دیوار کے سائے میں تگ و تاز
شب جستجوئے چادر مہتاب میں رہنا
ویرانۂ دنیا میں گزرتے ہیں مرے دن
راتوں کو رواق دل بیتاب میں رہنا
مٹی تو ہر اک حال میں مٹی ہی رہے گی
کیا ٹاٹ میں کیا قاقم و سنجاب میں رہنا
گھر اور بیاباں میں کوئی فرق نہیں ہے
لازم ہے مگر عشق کے آداب میں رہنا
اک پل کو بھی آنکھیں نہ لگیں خانۂ دل میں
ہر لمحہ نگہبانی اسباب میں رہنا