آنکھوں پہ شب رقم بھی نہیں کر سکوں گا میں
آنکھوں پہ شب رقم بھی نہیں کر سکوں گا میں
اے خواب تیرا غم بھی نہیں کر سکوں گا میں
اک مستقل سفر ہے تری آرزو مجھے
اور خود کو تازہ دم بھی نہیں کر سکوں گا میں
اس کو خدا بنانے کی ضد پر اڑا ہے تو
اے دل جسے صنم بھی نہیں کر سکوں گا میں
سبزہ بھی چاہتی ہیں تصور کی خاک پر
وہ آنکھیں جن کو نم بھی نہیں کر سکوں گا میں
اک جان ہے جو نذر گزاری نہ جائے گی
اک سر ہے جس کو خم بھی نہیں کر سکوں گا میں
تیری کمی میں روز اضافہ کرے گی عمر
اور اس کمی کو کم بھی نہیں کر سکوں گا میں