آنکھوں میں ہیں جو خواب کوئی جانتا نہیں
آنکھوں میں ہیں جو خواب کوئی جانتا نہیں
اس دل کا اضطراب کوئی جانتا نہیں
ہے اپنی اپنی پیاس کا ہر ایک کو خیال
دریا بھی ہے سراب کوئی جانتا نہیں
یہ جانتے ہیں لوگ کہ انجام کیا ہوا
کیوں آیا انقلاب کوئی جانتا نہیں
ذرے کی روشنی کو سمجھتے ہیں سب حقیر
ہے وہ بھی آفتاب کوئی جانتا نہیں
اک حشر سا بپا ہے عناصر کے درمیاں
کس میں ہے کتنی تاب کوئی جانتا نہیں
دعویٰ تو اپنے علم کا سب کو ہے اے ضیاؔ
کیا چیز ہے کتاب کوئی جانتا نہیں