آنکھیں نکل آئی ہیں مری سانس رکی ہے
آنکھیں نکل آئی ہیں مری سانس رکی ہے
جلد آ کہ تری یاد گلا گھونٹ رہی ہے
دعوت کی تری بزم میں کیوں دھوم مچی ہے
کیا بات ہے کیا کوئی نئی جیب کٹی ہے
واعظ کو جو دیکھو تو گھٹا ٹوپ اندھیرا
ساقی کو جو دیکھو تو کرن پھوٹ رہی ہے
کیا ہے جو نہیں یہ اثر ربط محبت
روئے تو ہیں وہ اور مری آواز پڑی ہے
سائے کی تمنا میں جہاں بیٹھ گیا ہوں
چندیا پہ وہیں تاک کے دیوار گری ہے
چھوٹے نہیں چھٹتی ہے ترے وصل کی حسرت
یہ جونک مرے دل کا لہو چوس رہی ہے
وہ ان کا زمانہ تھا جہاں عقل بڑی تھی
یہ میرا زمانہ ہے یہاں بھینس بڑی ہے
پھر کیا ہے جو ماچسؔ نہیں یہ سوز محبت
اک برق سی رگ رگ میں مرے کوند رہی ہے