آنکھ پر اعتبار ہو جائے

آنکھ پر اعتبار ہو جائے
دل کو گر تم سے پیار ہو جائے


موت با اعتبار ہو جائے
زندگی شرح دار ہو جائے


تم کو مل جائے گا سکوں شاید
دل اگر بے قرار ہو جائے


ہارنے والے ہے دعا میری
میری ہر جیت ہار ہو جائے


موت اس کو نہ کیوں گوارا ہو
زندگی جس پہ بار ہو جائے


جس کو نسبت تمہارے نام سے ہو
وہ غزل پر وقار ہو جائے


تیری نظروں سے جب گرے طرزیؔ
اپنی نظروں میں خار ہو جائے