آنکھ میں تیری شکل ہے دل میں ترا جمال ہے

آنکھ میں تیری شکل ہے دل میں ترا جمال ہے
کس کو یہ فرصت خیال ہجر ہے یا وصال ہے


اس کی شکستگی نہ دیکھ اس کے فروغ پر نہ جا
عشق تو حسن ہی کا ایک پرتو لا یزال ہے


تیری نظر کی بجلیاں کوند گئیں کہاں کہاں
فرش سے عرش تک تمام روشنیٔ جمال ہے


پہلے تھا اضطراب دل روح روان عاشقی
راہ فنا میں اب یہی مانع اتصال ہے


اب نہ وہ فکر نامہ بر اور نہ وہ اضطراب دل
اپنا جواب آپ ہی اب مرا ہر سوال ہے