آنکھ لگتی بھی نہیں ہے کہ جگا دیتا ہے

آنکھ لگتی بھی نہیں ہے کہ جگا دیتا ہے
کوئی دروازے کی زنجیر ہلا دیتا ہے


گھر سے نکلو تو پتا جیب میں رکھ کر نکلو
حادثہ چہرے کی پہچان مٹا دیتا ہے


ہم جو بڑھتے ہیں کبھی امن کا پرچم لے کر
راستوں میں کوئی بارود بچھا دیتا ہے


تم صداقت کی گھنی چھاؤں میں پی کر دیکھو
زہر سچائی کا امرت کا مزا دیتا ہے


موت کے لب پہ فسوں کار ہنسی آتی ہے
جب کسی کو کوئی جینے کی دعا دیتا ہے


مصلحت سے نہیں خالی یہ زمانہ عالمؔ
بے غرض کوئی کسی کو یہاں کیا دیتا ہے