آنے کی پڑی ہے کبھی جانے کی پڑی ہے
آنے کی پڑی ہے کبھی جانے کی پڑی ہے
اس دل کو فقط ملنے ملانے کی پڑی ہے
بادل بھی لگاتار ہیں چھائے ہوئے اس پر
اور چاند کو صورت بھی دکھانے کی پڑی ہے
لاشیں بھی پڑی ہیں یہاں چیخیں بھی بہت ہیں
اس وقت بھی لوگوں کو خزانے کی پڑی ہے
اک بار اسے میں نے فقط جان کہا تھا
اب اس سے مجھے جان چھڑانے کی پڑی ہے
وہ کل کا شکاری ہے اسے پل کی خبر کیا
جنگل میں اسے گھات لگانے کی پڑی ہے
سب چور لٹیرے ہیں یہاں کون ولی ہے
ایسے میں بھی زیبیؔ کو زمانے کی پڑی ہے