آندھیاں چلتی رہیں افلاک تھراتے رہے

آندھیاں چلتی رہیں افلاک تھراتے رہے
اپنا پرچم ہم بھی طوفانوں میں لہراتے رہے


کاٹ کر راتوں کے پربت عصر نو کے تیشہ زن
جوئے شیر و چشمۂ نور سحر لاتے رہے


کاروان ہمت جمہور بڑھتا ہی گیا
شہر یار و حکمراں آتے رہے جاتے رہے


رہبروں کی بھول تھی یا رہبری کا مدعا
قافلوں کو منزلوں کے پاس بھٹکاتے رہے


جس قدر بڑھتا گیا ظالم ہواؤں کا خروش
اس کے کاکل اور بھی عارض پہ لہراتے رہے


پھانسیاں اگتی رہیں زنداں ابھرتے ہی رہے
چند دیوانے جنوں کے زمزمے گاتے رہے