آمادہ رکھیں چشم و دل سامان حیرانی کریں

آمادہ رکھیں چشم و دل سامان حیرانی کریں
کیا جانیے کس وقت وہ نظارہ فرمانی کریں


بحر بلا ہے موج پر قہر قضا ہے اوج پر
ہیں کاہ ساماں مستعد تا نا گریزانی کریں


آئی ہے رات ایسی دنی ہے ہر چراغ افسردنی
اے دل بیا اے دل بیا کچھ شعلہ سامانی کریں


ہاں ہاں دکھائیں گے ضرور ہم وحشت دل کا وفور
پہلے یہ شہر‌ دشت و در تکمیل ویرانی کریں


اے عاشقاں اے عاشقاں آیا ہے امر ناگہاں
جو لوگ ہیں نظارہ جو وہ مشق حیرانی کریں


وہ شمع ہے در‌‌ طاق دل روشن ہیں سب آفاق دل
افتادگان خاک اٹھو افلاک گردانی کریں


ہے بسکہ تیغ اس کی رواں کم یاب ہیں ناکشتگاں
سب سرفروشوں سے کہو چندے فراوانی کریں


اک ناصحانہ عرض ہے دریاؤں پر یہ فرض ہے
دل کی طرح ہر لہر میں تجدید طغیانی کریں


ایسے گھروں میں اہل دل رہتے نہیں ہیں مستقل
تبدیل یہ دیوار و در اسلوب ویرانی کریں