کیا 2023 میں ایک اور عالمی معاشی بحران آنے والا ہے؟
آج سے دو سال قبل جب کورونا کا بحران شروع ہوا ، تو ہم نے دیکھا کہ دنیا بھر میں بہت سے کاروبار بند ہوئے اوردنیا بھر کی معیشتوں کو بڑا نقصان اٹھانا پڑا۔ ا ب اگرچہ کورونا کسی حد تک ختم ہوچکا ہے لیکن معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ کورونا کے نقصانات کا سلسلہ ابھی بھی جاری ہے۔ کورونا کی وجہ سے بڑھتی ہوئی مہنگائی اور افراط زر کے باعث دنیا کی مختلف معیشتوں کے کساد بازاری کی لپیٹ میں آنے کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔اس پر مستزاد روس اور یوکرین کے درمیان تین ماہ سے جاری جنگ نے اس اس آگ کو مزید بھڑکا دیا ہے۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ دنیا بھر کے اقتصادی ماہرین اس بات کو تسلیم کررہے ہیں کہ آنے والے چند مہینوں میں پوری دنیا میں 2008 جیسا معاشی بحران یا کساد بازاری آ سکتی ہے۔
سپلائی چین کا بحران:
روس یوکرین جنگ نے دنیا بھر میں موجود سپلائی چین کو شدید متاثر کیا ہے۔ اگرچہ پہلے ہی اشیائے خرید و فروخت کی ترسیل کورونا کی پابندیوں کی وجہ سے دباؤ کا شکار تھی۔ لیکن اس جنگ کی وجہ سے یورپ بالخصوص جبکہ ایشیا اور افریقہ تک کے ممالک میں تجارت اور کاروبار متاثر ہوا ہے۔ امیر ترین ممالک جیسے امریکہ اور برطانیہ میں تو کہا جارہا ہے کہ اگلے چھ ماہ میں یہ کساد بازاری یا recession ایک ڈراؤنی حقیقت کا روپ دھار لے گا، اور دنیا کے امیر ترین صنعت کار ایلون مسک بھی کساد بازاری کے خطرات سے خوفزدہ ہیں، لیکن دوسری طرف غریب یا تیسری دنیا کے ممالک بھی اس خطرے کو محسوس کررہے ہیں۔
سپلائی چین میں آنے والی رکاوٹوں نے یورپی ممالک کے لیے ایک بڑا بحران پہلے ہی پیدا کردیا ہے لیکن کہا جارہا ہے کہ آنے والے دنوں میں یہ بحران مزید سنگین ہوتا چلا جائے گا۔ معاشی ماہرین کا مزید کہنا ہے کہ گزشتہ چند مہینوں میں یورپی ممالک جس طرح روس کے خلاف بیان بازی کر رہے ہیں ، اس کے برے اثرات آنے والے وقتوں میں دیکھنے کو مل سکتے ہیں۔ اگر روس ناراض ہو کر یورپی ممالک کو گیس کی سپلائی روک دے تو یورپی ممالک کو کساد بازاری سے کوئی نہیں بچا سکتا ۔
امریکہ چونکہ اس بحران کے خطرے کو بہت پہلے سے محسوس کررہا ہے ، لہٰذا اس کے ماہرین اپنی کرنسی یعنی ڈالر کو اس دباؤ سے بچانے کے لیے پیشگی اقدامات بھی کر رہے ہیں، جیسا کہ پاکستان، سری لنکا یا افریقی ممالک کی کرنسی ڈالر کے مقابلے میں تیزی سے کم ہوتی نظر آرہی ہے لیکن دوسری طرف خود امریکہ کے بہت سے ماہرین معیشت کا کہنا ہے کہ ڈالر کی قدر میں اضافے کے اقدامات بڑی حدتک مصنوعی ہیں اور ان سے آنے والا معاشی بحران ٹلنے والا نہیں ہے۔
کسی بھی ملک کی ترقی کا انحصار اس کی معیشت پر ہوتا ہے۔ جب معیشت میں کچھ وقت (کم از کم تین چوتھائیوں کے لیے) معاشی ترقی رک جائے، روزگار کم ہو جائے، مہنگائی بڑھنے لگے اور لوگوں کی آمدنی غیر متوقع طور پر کم ہونے لگے ، تو اس صورت حال کو معاشی کساد بازاری کا نام دیا جاتا ہے۔ جب سے پوری دنیا میں کورونا کا بحران شروع ہوا ہے، مختلف معیشتوں کے کساد بازاری کی لپیٹ میں آنے کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔
عالمی کساد بازاری کے خطرناک اعدادوشمار:
عالمی بروکریج فرم نومورا ہولڈنگز نے بھی دنیا کو کساد بازاری کے خطرے سے خبردار کیا ہے۔اس کی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگلے 12 ماہ کے اندر دنیا کی بیشتر معیشتیں کساد بازاری سے خود کو نہیں بچا سکیں گی۔رپورٹ کے مطابق مختلف ممالک کے مرکزی بینکوں کی سخت پالیسیاں اور عام آدمی کے لیے زندگی کی بڑھتی قیمت اور اشیائے صرف کی گرانی ایک بار پھر پوری دنیا کو 2008 کی طرح کساد بازاری کی طرف دھکیل رہی ہے۔رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ دنیا بھر میں مہنگائی کی بلند شرح فی الحال نیچے نہیں آنے والی ہے اور افراط زر کا یہ دباؤ اب صرف اشیاءکی خریدوفروخت جیسے کاروباروں تک محدود نہیں رہا۔ بڑے ممالک میں میں سروس سیکٹر اور ملازمت پیشہ افراد بھی اس کا شکار ہو رہے ہیں۔خود امریکہ میں مہنگائی یا افراط زرحالیہ دنوں میں گزشتہ 40 سال کے اعداد و شمار سے تجاوز کر گیا ہے۔
آسٹریلیا جیسے مضبوط ممالک شرح سود میں اضافے سے بری طرح متاثر ہو سکتے ہیں، جبکہ جنوبی کوریا میں اس سال معیشت کے 2 سے 2.5 فیصد تک سکڑنے کی توقع ہے۔نومورا کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر دنیا 2008 کی طرح کساد بازاری کی طرف جاتی ہے تو امریکہ جیسے ملک کی معیشت بھی تقریباً 1.5 فیصد تک گر جائے گی۔ ایسی صورتحال میں ممکنہ کساد بازاری پہلے سے ہی کورونا کی وبا سے دوچار دنیا کے لیے مشکلات کا ایک نیا سلسلہ لے کر آسکتی ہے۔