عالم خواب سہی خواب میں چلتے رہیے
عالم خواب سہی خواب میں چلتے رہیے
رات کٹ جائے گی کروٹ تو بدلتے رہیے
کس کو معلوم کہاں سے کوئی پتھر آ جائے
حوصلہ ہو تو اندھیروں میں نکلتے رہیے
بن ہی جائے گا کبھی کوئی خودی کا پیکر
اپنے احساس کی گرمی سے پگھلتے رہیے
زندگی سلسلۂ خواب تمنا ہے کوئی
رات بھر خواب کو خوابوں سے بدلتے رہیے
ہم پہ کیا ہوگا زمانے کی ہواؤں کا اثر
آپ موسم کی طرح روز بدلتے رہیے
زندگی کیا ہے سرابوں کا سفر ہے عابدؔ
وقت کی ریت پہ دن رات مچلتے رہیے